
جامعہ اسلامیہ تدریس القرآن تھانہ
share like
Operating as usual

تاریخ کے متعلق آرٹیکل
علامہ بدرالدین عینی فرماتے ہیں:
1۔ جب زمین پر انسان کی آبادی وسیع ہونے لگی تو تاریخ کی ضرورت محسوس ہوئی، اس وقت حضرت آدم علیہ السلام سے تاریخ شمار کی جانے لگی، پھر طوفان نوح علیہ السلام سے اس کی ابتدا ہوئی، پھر نار خلیل سے، پھر یوسف علیہ السلام کے مصر میں وزیر بننے سے، پھر موسی علیہ السلام کے خروج مصر سے، پھر حضرت داؤد سے، ان کے فوراً بعد سلیمان علیہ السلام سے پھر حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے۔ اس کے بعد ہر قوم اپنے اپنے علاقہ میں کسی اہم واقعہ کو سن قرار دیتی تھی، مثلاً قوم احمر نے واقعہ تبایعہ کو، قوم غسان نے سد سکندری کو، اہل صنعاء نے حبشہ کے یمن پر چڑھ آنے کو سن قرار دیا۔
2۔ علامہ عینی مزید لکھتے ہیں کہ جس طرح ہر قوم نے اپنی تاریخ کا مدار قومی واقعات وخصائص پر رکھا، اسی طرح اہل عرب نے بھی تاریخ کے لیے عظیم واقعات کو بنیاد بنایا:
۱) سب سے پہلے اہل عرب نے حرب بسوس (یہ وہ مشہور جنگ ہے جو بکر بن وائل اور نبی ذہل کے درمیان ایک اونٹنی کی وجہ سے چالیس سال تک جاری رہی) سے تاریخ کی ابتدا کی۔
۲) اس کے بعد جنگ داحس (جو محض گھڑ دوڑ میں ایک گھوڑے کے آگے نکل جانے پر بنی عبس اور بنی ذبیان کے درمیان نصف صدی تک جاری رہی اور ان دونوں جنگوں کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوالعقد الفرید ج 3 ص 74 و ابن اثیر 384 پھرجنگ غبراء سے، پھر جنگ ذی قار سے پھر جنگ فجار سے تاریخ کی ابتدا کی۔
۳) اس کے بعد حضور صلی الله علیہ وسلم کے اسلاف میں سے ایک بزرگ کعب کے کسی واقعہ سے سالوں اورتاریخ کا حساب لگاتے رہے، پھر اصحاب الفیل کے واقعہ سے، یہاں تک کہ عام الفیل کی اصطلاح ان کے یہاں رائج ہوئی۔ (عمدة القاری للعلامہ بدرالدین عینی ج 17 ص 66)
اتنی بات واضح ہے کہ رومیوں اور یوناینوں کے دور، بالخصوص سکندراعظم کی فتوحات سے تاریخ کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے جس نے دنیا کے اکثر ملکوں کے حالات کو اس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا کہ سلسلہ کے منقطع ہونے کی بہت کم نوبت آئی اور عام طور سے یہیں سے تاریخ زمانہ کی ابتدا سمجھی جاتی ہے۔
اسلامی تاریخ (ہجری) کی ابتدا:
۱) حضور صلی الله علیہ وسلم 27 صفر المظفر کو مکہ سے ہجرت کرکے غار ثور میں مقیم ہوئے، یکم ربیع الاول کو غار ثور سے آپ صلی الله علیہ وسلم اور صدیق اکبررضی اللہ عنہ روانہ ہوئے۔ 8 ربیع الاول کو قبا پہنچے اور 12 ربیع الاول کو بروز جمعة المبارک (مطابق 27 ستمبر 622ء مدینہ منورہ پہنچے چوں کہ ہجری سال کا آغاز ربیع لاول سے ہوتا تھا، اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ربیع الاول سے حساب رکھتے تھے لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک ایک ماہ اور دو مہینے کے فصل سے تاریخ متعین کرتے تھے، حضور صلی الله علیہ وسلم اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا پورا زمانہ اسی طرح گزر گیا، پھر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس مسئلہ کو مستقل طور پر طے کردیا۔
اس تاریخی حقیقت کا اشارہ ابو الکلام آزاد نے اپنی کتاب رسول رحمت میں کیا ہے، بہرحال تاریخ اسلامی کا مسئلہ مستقل طور پر سن 17ھ جمادی الاولیٰ بروز بدھ طے پا گیا۔
واقعہ: حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ عراق وکوفہ کے گورنر تھے، ایک دفعہ انہوں نے حضرت عمر فاروق کے پاس خط لکھا کہ آپ کی طرف سے ہمیں جو احکامات او رہدایتیں ملتی ہیں ان میں تاریخ نہیں ہوتی، اس لئے معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کس تاریخ کا حکم نامہ ہے؟ جس کی بنا پر بعض دفعہ ان پر عمل کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اس پر غور کرنے کے لئے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مجلس شوری منعقد کی اور اکابر صحابہ کو جمع کیا، جن میں حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ یہ بحث شروع ہوئی کہ سن کی ابتدا کب سے قرار دی جائے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی رائے دی او راس پر سب کا اتفاق ہوگیا۔
اسلامی تاریخ کے لیے ہجرت کی ترجیح کی وجوہات:
۱) ہجرت کے بعد مدینہ میں ایمان والوں کو ایک مضبوط قلعہ او رمستحکم مرکز مل گیا-
۲) مسلمانوں کو آزادی سے عبادت کرنے اور حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس آنے جانے کے مواقع مل گئے۔
۳) اہل اسلام نسبتاً چین سے زندگی گزارنے لگے۔
۴) اسلامی طرز معاشرت کے خدوخال نمایاں ہوئے، اسلام کے اقتصادی ومعاشی پروگراموں کے لیے عملی راہ ہموار ہو گئی، تعلیمات اسلام کی نشرواشاعت کے لئے پاکیزہ ماحول مہیا ہوا۔
۵) ایک اسلامی حکومت قائم ہوئی جس کے سربراہ حضور صلی الله علیہ وسلم تھے۔ اسلام کی اسی ظاہری او رباطنی شان وشوکت کے پیش نظر ہجرت کی تاریخ سے اسلامی تقویم کا آغاز کیا گیا۔
اسلامی سن کا آغاز محرم الحرام سے کیوں ہوا؟
اس کے بعد مہینے کے بارے میں مشورہ ہوا، حضرت عبدالرحمن بن عوفرضی اللہ عنہ نے رجب المرجب کی رائے دی، کیوں کہ یہ اول شہر الحرام ہے، حضرت طلحہ نے رمضان المبارک کی رائے دی، بعض حضرات نے ربیع الاول کی رائے دی۔ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم نے محرم الحرام کی رائے دی، اس کو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے پسند فرمایا۔
تاریخی زمانے: بعض حضرت نے تاریخ کو تین زمانوں میں تقسیم کیا: قرون اولیٰ، جو ابتدائے عالم سے سلطنت روماتک ہے۔ قرون وسطیٰ جو سلطنت روما کے آخر زمانہ سے قسطنطنیہ کی فتح تک ہے۔ قرون آخر وقسطنطنیہ کی فتح سے تاحال ہے۔
تاریخ کی چار اقسام:
تاریخ عام: وہ ہے جس میں ساری دنیا کے آدمیوں کا حال بیان کیا جائے۔
تاریخ خاص: وہ ہے جس میں کسی ایک قوم یا ایک ملک یا ایک خاندان کی سلطنت کا حال بیان کیا جائے۔
تاریخ روایتی: وہ ہے جس میں راوی کا بیان اس کے مشاہدے کی بنا پر درج کیا گیا ہو۔
تاریخ درایتی: وہ ہے جس کو آثار قدیمہ ومنقولہ او رعقلی تخمینوں کے ذریعہ ترتیب دیا گیا ہو۔
تاریخ کے ماخذ اوراس کے فوائد: تاریخ کے ماخذ کو عموماً تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
آثار مضبوط: یعنی تمام لکھی ہوئی چیزیں، مثلاً کتابیں، یادداشتیں، دفتروں کاغذات، پرانے فیصلے، دستاویز وغیرہ۔ آثار منقولہ، یعنی زبان زد عام باتیں مثلاً کہانیاں، نظمیں، ضرب الامثال وغیرہ۔ آثار قدیمہ یعنی پرانے زمانے کی نشانیاں، مثلاً شہروں کے خرابے قلعے، مکانات، کتبے، تصویریں وغیرہ۔
تاریخ کے فوائد پر نظر ڈالتے ہوئے علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ تاریخ ایک ایسی چیز ہے اور ایک ایسا فن ہے جو کثیر الفوائد اور بہترین نتائج پر مشتمل ہے اور تاریخ کا علم ہم کو سابق امتوں کے اخلاق، حالات، انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی پاک سیرتوں اور سلاطین کی حکومتوں اور ان کی سیاستوں سے روشناس کرتا ہے، تاکہ جو شخص دینی ودنیوی معاملات میں ان میں سے کسی کی پیروی کرنا چاہے تو کرسکے۔ (مقدمہ ابن خلدون)
تاریخ کا مقصد اور فائدہ بیان کرتے ہوئے مولانا محمد میاں مصنف تاریخ اسلام لکھتے ہیں کہ جو حالات موجودہ زمانہ میں پیش آرہے ہیں ان کو گزرے ہوئے زمانے کی حالتوں سے ملاکر نتیجہ نکالنا او راس پر عمل کرنا تاریخ کا مقصد اور فائدہ ہے۔
تقویم کی تحقیق اوراس کی ضرورت:
گزشتہ زمانے کے واقعات وحادثات وغیرہ کو محفوظ رکھنے کے لیے اور آئندہ زمانہ کے لین دین، معاملات وغیرہ کی تاریخ متعین کرنے کے لیے کیلنڈر کی نہایت ضرورت ہے، کیوں کہ کیلنڈر کے بغیر ماضی کی تاریخ معلوم ہوسکتی ہے، نہ مستقبل کی تاریخ کا تعین کیا جاسکتا ہے۔
تقویم کی اقسام:
واضح ہو کہ دنیا میں کئی قسم کی تقاویم چلتی ہیں، جن کا دار ومدار تین چیزیں ہیں؛ سورج، چاند، ستارے۔
اس لئے بنیادی تقاویم تین ہیں: شمسی، قمری، نجومی۔ پھر شمسی کیلنڈر کی تین قسمیں ہیں؛ ایک عیسوی ،جس کو انگریزی اور میلادی بھی کہتے ہیں دوم بکرمی جس کو ہندی بھی کہتے ہیں، سوم تاریخ فصلی۔ ان کے علاوہ اور بھی تقاویم ہیں، جیسے تاریخ رومی، تاریخ الہٰی۔
تاریخ عیسوی:
تاریخ عیسوی (جس کو تاریخ انگریزی اور میلادی بھی کہتے ہیں) شمسی ہے۔ یہ تاریخ حضرت عیسیٰ کی ولادت سے رائج ہے یا نصاری کے بزعم باطل حضرت عیسیٰ کے مصلوب ہونے سے شروع ہوتی ہے، اس کی ابتدا جنوری اور انتہا دسمبر پر ہوتی ہے۔
تاریخ ہندی:
ہندی سال کو بسنت کہتے ہیں۔ اس تاریخ کا دوسرا نام بکرمی ہے۔ مہینے یہ ہیں، چیت، بیساکھ، جیٹھ، اساڑھ، ساون، بھادوں، کنوار، کاتک، اگہن، پوس، ماگھ، پھاگن۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سن ہجری سے تقریباً637 سال پہلے اور سن عیسوی سے 57 سال پہلے سے گجرات کاٹھیاوار میں رائج تھی۔
تاریخ فصلی بنیادی طور پر سال شمسی ہے، یہ سن اکبر بادشاہ کے زمانے میں مال گزاری کی وصولیابی اور دوسرے دفتری انتظامات کے لئے وضع کیا گیا تھا۔
نجومی جنتری شاکھا کے نام سے مشہور ہے، مہینے یہ ہیں: حمل، ثور، جوزا، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت۔
تاریخ رومی، تاریخ اسکندری اور تاریخ الہیٰ:
تاریخ رومی اسکندر کے عہد سے مروج ہے، جس پر 1975ء میں 2286ء سال شمسی گزرچکے ہیں، اس کا دوسرا نام تاریخ اسکندری ہے یہ 282 قبل المسیح سے شروع ہوتی ہے۔ تاریخ رومی کے مہینے (جن کی ابتداء مہرجان یعنی کا تک سے ہوتی ہے) یہ ہیں؛ تشرین اول، تشرین آخر، کانون اول، کانون آخر، شباط، اذار، نیسان، ابار، حزیران، تموز، اب، ایلول۔ رومیوں کا سال 1-4-365 دن کا ہوتا ہے۔ تشرین آخر، نیسان، حزیران، ایلول یہ چار مہینے 30 دن کے باقی سب 31 کے ہوتے ہیں، سوائے شباط کے، جو28 دن کا ہوتا ہے اور ہر چوتھے سال 29 دن کا ہوتا ہے۔
تاریخ الہیٰ کے مہینے یہ ہیں: فروردین، اردی، بہشت، خورداد، تیر،ا مرداد، شہر پو، مہر، آبان ذے، بہمن، اسفندار۔ یہ سن جلال الدین اکبر بادشاہ کے جلوس کی تاریخ (یعنی3 ربیع الثانی 992ھ) سے شروع ہوا، اس میں حقیقی شمسی سال ہوتے ہیں۔
تاریخ قمری:
تاریخ قمری کی ابتدا محرم الحرام سے ہوتی ہے، یہ اسلامی تاریخ ہے ،جو دیگر تقاویم سے ہر لحاظ سے ممتاز ہے۔
سنہ شمسی اور قمری میں فرق:
جاننا چاہئے کہ سنہ شمسی تین سو پینسٹھ دن او رربع یوم کا ہوتا ہے، چار سال میں ایک دن کا اضافہ ہو کر ہر چوتھے سال 366 دن کا سال ہوجائے گا۔ سنہ قمری سے سنہ شمسی میں دس دن اکیس گھنٹے زائد ہوتے ہیں۔
قمری تقویم کے فوائد:
مروجہ تقویم میں سے جو فوائد قمری تقویم میں ہیں وہ کسی اور تقویم میں نہیں ہیں، نہ ہو سکتے ہیں ۔ اس لیے کہ رب کائنات نے روز مرہ کے کام کاج اور لین دین کی آسانی وسہولت کی خاطر چاند کا نظام اس طرح بنایا جس سے ہر انسان ہر علاقے میں آسانی سے تاریخ کا تعین کرسکتا ہے۔ مثلاً؛
مغرب کی طرف سے جب چاند پتلا نظر آتا ہے تو ہر انسان (عالم، جاہل، شہری، دہقانی) معلوم کرسکتا ہے کہ مہینہ کی پہلی تاریخ ہے، اسی طرح چاند جب بالکل مکمل ہو تو اس سے چودھویں تاریخ کا تعین کرسکتا ہے، اسی طرح جب مشرق کی جانب سے چاند باریک طلوع ہوتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ ستائیس یا اٹھائیس تاریخ ہے، اسی طرح روز روز واضح طور پر چاند کی صورت تبدیل ہوجاتی ہے، جس سے ہر انسان معمولی تدبر سے تاریخ کا تعین کرسکتا ہے۔
بخلاف شمسی تقویم (کیلنڈر) کے کہ اس سے تاریخوں کا پتہ نہیں چل سکتا، مثلاً دسمبر کی پندرہ تاریخ ہو تو کوئی آدمی آفتاب دیکھ کر یہ معلوم نہیں کرسکتا کہ آج پندرہ تاریخ ہے، نہ اس کی ہیئت وصورت میں نمایاں تبدیلی آتی ہے ،جس کو دیکھ کر تاریخ کا تعین ہوسکے، نیز شمسی تاریخ آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ پر موقوف ہے، جس کو ہر شخص آسانی سے معلوم نہیں کرسکتا۔
اس لئے الله تعالیٰ نے احکام وعبادات کا مدار قمری حساب پر رکھا ہے، قرآن کہتا ہے ﴿یسئلونک عن الاھلة قل ھی مواقیت للناس والحج﴾․ (البقرہ:189)
قرآن پاک میں قمری مہینوں کا ذکر:
قمری مہینوں کا ذکر قرآن پاک میں صراحةً موجود ہے، جیسے۔ ﴿شھر رمضان الذی …﴾ اس آیت میں قمری سال کے ایک ماہ رمضان کا نام صراحتاً ذکر ہے یا ضمناً ذکر ہے۔ جیسے ﴿الحج اشھر معلومات﴾البقرة
اس میں اشہر سے مراد شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ہیں۔ ایک دوسری آیت میں اسلامی سال کے سارے مہینوں کا ذکر ضمناً آیا ہے وہ آیت یہ ہے: ﴿ان عدة الشھور اثنا عندالله عشر شھرا﴾، یقینا شمار مہینوں کا کتب الہٰی میں الله کے نزدیک بارہ مہینے ہیں۔ اس آیت میں جن بارہ مہینوں کا ذکر آتا ہے ان سے مراد قمری مہینے ہیں، اس کی دلیل بھی یہی آیت ہے، وہ اس طرح کہ ان بارہ میں سے جو چار ماہ ادب کے لیے خاص کر دیے گئے ہیں، وہ ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم او ررجب ہیں۔ جنہیں ”اشھر حرم“ کہا جاتا ہے۔
جب یہ چار ماہ قمری کے ہیں تو باقی آٹھ ماہ بھی یقینا قمری کے ہوں گے، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قمری مہینوں کی ترتیب اور ان کے اسماء جو اسلام میں معروف ہیں یہ انسانوں کی بنائی ہوئی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ رب العالمین نے جس روز زمین وآسمان کو پیدا کیا اسی دن سے یہ ترتیب اور یہ نام، ہر ماہ کے ساتھ خاص خاص احکام متعین فرما دیے ہیں، جس کی ”تعبیر دین قیم“ کے ساتھ فرمائی ہے تو قمری تقویم الله تعالیٰ کی پسندیدہ اسلامی تقویم ہے۔
چند اعتراضات کے جوابات:
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قمری حساب یقینی نہیں، کیوں کہ مہینہ کبھی 29 دن کا ہوتا ہے، کبھی 30 کا، سو اس کا جواب یہ ہے کہ رویت ہلال کی یقینی تاریخ متعین نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ اعتراض جاری ماہ کے متعلق نہیں ہو سکتا، کیوں کہ اس کی تعیین رویت ہلال سے ہوچکی ہے، البتہ آئندہ ماہ کے بارے میں اندیشہ ہے، مگر اس کا تعین بھی یوم لگانے سے ہو سکتا ہے، مثلاً 8 شوال 1430ھ بروز جمعہ تو لفظ جمعہ سے تاریخ کا تعین ہوگیا، دوسری بات یہ ہے کہ عملی رویت ہلال مذہبی تقریبات کے لئے ضروری ہے عام حساب کے لیے ضروری نہیں۔ یہ حسابی طریقہ پر متعین کیا جاسکتا ہے۔
پوری دنیا میں چاندکا طلوع ایک دن میں نہیں ہوتا، بلکہ مشرق وسطیٰ میں برصغیر سے ایک یا دو دن پہلے نظر آجاتا ہے تو عرب ممالک اور پاکستان وبنگلہ دیش کی تاریخوں میں فرق ہوتا رہتا ہے تو مذہبی تقریبات کن لوگوں کی تاریخ پر منائی جائے؟
اگر ہر جگہ رویت کو معتبر کیا جائے تو عبادت بیک وقت ادا نہیں ہوسکتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عبادت کے لئے ہر جگہ کی رویت کو مستند قرار دیا جائے گا، کیوں کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے، سارے انسانوں کے لیے تمام مقامات اور تمام زمانوں کے لئے ہے تو ساری دنیا میں بیک وقت عبادات ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ مثلاً مکہ مکرمہ کی اذان صبح کے مطابق انڈونیشیا میں نماز فجر ادا کرنا ممکن نہیں ہے، اسی طرح مکہ مکرمہ کے افاق ومطلع کے موافق آسٹریلیا میں عید منانا ممکن نہیں ہے۔ تو مسجد حرام کی نماز اپنے وقت پر ادا ہوگی انڈونیشیا کی نمازیں اپنے وقت پر، نیز حج، جو مقامی عبادت ہے، وہ مکہ ہی کے افق کے مطابق ادا ہوگا اور مشرق بعید کے ممالک میں عید وغیرہ اپنے اپنے مطلع کے مطابق ادا ہوں گی اور یہ کوئی نقص نہیں ہے۔
یہ فرق تو عیسائیوں اور ہندوؤں کے شمسی حساب میں بھی ہے، مثلاً جس وقت ویٹی کن میں کرسمس کا گھنٹہ بجتا ہے اس سے تقریباً گیارہ گھنٹے قبل جزیرہ سخالین میں کرسمس کی عبادت ہوچکی ہوتی ہے اور جس وقت بنارس میں بسنگ پنجمی کا اعلان ہوتا ہے ٹھیک اسی وقت ماریشس میں نہیں ہوتا۔ تو یہ بات کہ تقریبات بیک وقت ادا نہیں ہو سکتی ، قمری ہجری تقویم کے سلسلے میں بطور اعتراض پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ تقویم قمری ہجری اختیار کرنے کی صورت میں جن دقتوں اور پریشانیوں کا ذکر کیا جاتا ہے وہ سب واہمہ ہیں اور دوسری بڑی وجہ اسلامی ممالک میں اسلامی تقویم کا عدم نفاذ ہے، اس لئے سب اس نظام سے اجنبیت محسوس کرتے ہیں، اگر یہ تاریخ نافذ ہو تو تجربے اور مرور ایام سے تمام شبہات ختم ہوسکتے ہیں۔
عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب، جہاں اسلامی ہجری تقویم نافذ ہے وہاں کے کیلنڈر اور حساب کتاب میں کبھی ابہام نہیں پایا گیا اور کسی کو کوئی دقت اور اعتراض بھی نہیں۔
شمسی اور قمری تاریخ کے متعلق آخری او راہم بات مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں کہ: ”اس کے یہ معنی نہیں کہ شمسی حساب رکھنا یا استعمال کرنا ناجائز ہے، بلکہ اس کا اختیار ہے کہ کوئی شخص نماز، روزہ ، زکوٰة اور عدت کے معاملہ میں تو قمری حساب شریعت کے مطابق استعمال کرے، مگر اپنے کاروبار تجارت وغیرہ میں شمسی استعمال کرے۔
شرط یہ ہے کہ مجموعی طور پر مسلمانوں میں قمری حساب جاری رہے، تاکہ رمضان او رحج وغیرہ کے اوقات معلوم ہوتے رہیں، ایسا نہ ہو کہ اسے جنوری فروری کے سوا کوئی مہینے ہی معلوم نہ ہوں، فقہاء نے قمری حساب باقی رکھنے کو مسلمانوں کے ذمہ فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ ہاں! اس میں شبہ نہیں ہے کہ سنت انبیاء او رسنت رسول صلی الله علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں قمری حساب استعمال کیا گیا ہے، اس کا اتباع موجب برکت و ثواب ہے اور شمسی حساب سے بھی اسلام منع نہیں کرتا۔“
عربوں نے اسلام سے پہلے قمری مہینوں کے نام استعمال کیے ہیں اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عرب میں کچھ ناموں پر اتفاق ہو گیا اور سارے عرب علاقے میں رائج ہو گئے، اور یہ وہی صورت تھی جس میں یہ نام آج کل ہمارے ہاں معروف ہیں، نیز یہ پانچویں صدی عیسوی کا واقعہ ہے جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچویں دادا "کلاب " کا زمانہ تھا۔
وجہ تسمیہ: قمری مہینوں کے نام رکھنے کی وجہ تسمیہ اور جن معانی کی وجہ سے ان مہینوں کو موسوم کیا گیا ہے انہیں اہل علم نے ذکر کیا ہے، چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شیخ علم الدین سخاوی رحمہ اللہ نے ایک رسالہ لکھا جس کا نام ہے: " الْمَشْهُورُ فِي أَسْمَاءِ الْأَيَّامِ وَالشُّهُورِ "اس میں وہ رقمطراز ہیں:
محرم کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ مہینہ حرمت والا ہے، لیکن میرے نزدیک اس کی وجہ تسمیہ اس مہینے کی حرمت کو مزید عیاں اور مؤکد کرنے کیلیے اس نام سے موسوم کیا گیا؛ کیونکہ عرب اس مہینے کی حرمت کو دیگر مہینوں میں منتقل کرتے رہتے تھے، چنانچہ ایک سال محرم کو حرمت والا سمجھتے اور آئندہ سال میں اس کی حرمت کسی اور مہینے میں منتقل کر دیتے تھے اور اسے حلال جانتے تھے، سخاوی رحمہ اللہ پھر کہتے ہیں کہ: محرم کی جمع عربی زبان میں محرمات، محارم، اور محاریم آتی ہے۔
صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عربوں کے گھر سفر اور جنگوں پر روانگی کے باعث رہنے والوں سے خالی ہو جاتے تھے ، اور عربی زبان میں " صَفِرَ الْمَكَانُ " اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی جگہ انسانوں سے خالی ہو جائے، اس کی عربی میں جمع " أصفار" آتی ہے۔
ربیع الاول کی وجہ تسمیہ یہ ہے [یہ " ارتباع" سے ہے] اور ارتباع گھر میں ٹکے رہنے کو کہتے ہیں چونکہ اس مہینے میں لوگ اپنے گھروں میں بیٹھےرہتے تھے ، اس لیے اسے ربیع کا نام دیا گیا، اس کی عربی زبان میں جمع: " أربعاء" جیسے " نصيب" کی جمع " أنصباء" آتی ہے، اسی طرح اس کی جمع " أربعة" بھی آتی ہے جیسے " رغيف" کی جمع " أرغفة" آتی ہے، ربیع الثانی کا وجہ تسمیہ بھی یہی ہے۔
جمادی الاولی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں پانی جامد ہو گیا تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ ان کے حساب سے قمری مہینے گرمی سردی میں تبدیل ہو کر نہیں آتے تھے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ اگر قمری مہینے چاند سے منسلک ہیں تو لازمی بات ہے کہ یہ مہینے گرمی اور سردی تبدیل ہو کر آئیں؛ البتہ یہ ممکن ہے کہ جس وقت انہوں نے ان مہینوں کو نام دیے تو اس وقت پانی سردی کی وجہ سے جم چکا تھا، جمادی کی جمع عربی زبان میں:" جماديات" آتی ہے ، جیسے کہ "حبارى" کی جمع: "حباريات " آتی ہے۔عربی زبان میں " جمادى" کا لفظ مذکر اور مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے، چنانچہ " جمادى الأول" اور " جمادى الأولى" اسی طرح " جمادى الآخر" اور " جمادى الآخرة " دونوں طرح کہنا درست ہے۔
رجب عربی زبان کے لفظ : " ترجيب" سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے تعظیم کرنا ہے[یہ حرمت والا مہینہ ہے اور اس کی تعظیم کی جاتی ہے اس لیے اسے رجب کے نام سے موسوم کیا گیا]، اس کی جمع " أرجاب، رجاب اور رجبات" آتی ہے۔
شعبان کا لفظ " تشعب" سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے بکھرنا، منتشر ہونا، [اس مہینے میں لوگ حرمت والے مہینے میں گھروں میں قید رہنے کے بعد لڑائی جھگڑے کیلیے باہر نکلتے تھے]اس کی جمع: " شعابين" اور " شعبانات" آتی ہے۔
رمضان کا لفظ " رمضاء" سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے سخت گرمی، عربی میں " رمضت الفصال" اس وقت کہا جاتا ہے جب اونٹنی کا بچہ گرمی سے پیاسا ہو جائے، اس کی جمع "رمضانات" اور " رمضاضين" اور " أرمضة" آتی ہے۔
شوال کا لفظ عربی زبان کے مقولے " شالت الإبل بأذنابها للطراق" سے ماخوذ ہے اور یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب اونٹ جفتی کیلیے اپنی دم اٹھائے، اس کی جمع: " شواويل"، "شواول" اور " شوالات" آتی ہے۔
ذو القعدہ میں "ق" پر زبر پڑھی جائے گی، لیکن میں کہتا ہوں کہ زیر بھی پڑھی جا سکتی ہیں؛ کیونکہ عرب اس مہینے میں جنگوں اور سفر کرنے سے گھروں میں بیٹھ جاتے تھے، اس کی جمع: " ذوات القعدة" آتی ہے۔
ذو الحجہ میں "ح" پر زیر پڑھی گئی ہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ زبر پڑھنا بھی ٹھیک ہے؛ کیونکہ اس مہینے میں حج کیا جاتا ہے اس لیے اس مہینے کا نام ذو الحجہ ہے، اس کی جمع: " ذوات الحجة" آتی ہے۔"
ماخوذ از: تفسیر ابن کثیر:(4/ 128-129)
مزید کیلیے آپ "المفصل في تاريخ العرب قبل الإسلام" از: مؤرخ جواد علی (16/91) اور اس کے بعد والے حصے کا مطالعہ کریں۔
یہ واضح رہے کہ اس ناموں کے اصل اشتقاق کا مہینوں کے ناموں سے کوئی تعلق نہیں رہا؛ کیونکہ قمری مہینے سال کے سارے موسموں میں بدل بدل کر آتے ہیں، نیز وجہ تسمیہ کا شرعی احکامات سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔
صدی کا آغاز تاریخ کا ایک اہم باب اور قوموں کی زندگی میں ایک اہم سنگ میل ہوتا ہے۔ دنیا میں متعدد کیلنڈر مروّج ہیں ٗ ان میں سنہ ہجری آفاقی اور عالمی اہمیت کا حامل ہے ۔
اسلامی دنیا کے وسیع وعریض رقبہ میں زائد از چودہ سو سال سے سنہ ہجری رائج ہے ‘ تمام اسلامی دنیا میں ہجری سال کا حساب قمری اصول کے مطابق ہوتا ہے اور چاند دیکھنے پر ہرماہ کی پہلی تاریخ متعین ہوتی ہے دن ٗ ماہ ٗ سال اور تاریخ مقرر کرنے کا علم انسانی عقل کی ایک کار آمد ایجاد ہے ۔ ایک عرب مورخ کا قول ہے کہ :
’’تاریخ ایک مینار ہے اور شک و شبہ کو ختم کردینے والی تلوار ۔ تاریخ سے حقوق میں امتیاز ہوتا ہے اور معاہدے طئے کئے جاتے ہیں ۔ ہر شئے کی غایت تاریخ سے مقرر ہوتی ہے ٗہر وقت پیمانہ کے عمل سے طے ہوتا ہے ۔ دنیا کے کارناموں کا تعین ٗقوموں کے کاموں کا حساب ٗ زمانوں کی حد بندی سنہ و سال تاریخ ہی سے ہوتی ہے‘‘۔
*جامعہ اسلامیہ تدریس القرآن تھانہ ملاکنڈ کے پی کے*
*0344 0222299*
ایک عربی پوسٹ کا ترجمہ
ہم کیوں قبر کی نعمتوں کے بارے میں بات نہیں کرتے، ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ وہ سب سےبہترین دن ہوگا جب ہم اپنے رب سے ملیں گے۔ ہمیں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ جب ہم اس دنیا سے کوچ کریں گے تو ہم ارحم الراحمین کی لامحدود اور بیمثال رحمت اور محبت کے سائے میں ہوں گے، وہ رحمان جو ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو دیکھا جو اپنا پاؤں اپنےبچے پر رکھنے سے بچا رہی تھی، تو آپ نے صحابہ سے فرمایا "بے شک ہمارا رب ہم پر اس ماں سے کہیں زیادہ مہربان ہے"
کیوں ہمیشہ، صرف عذاب قبر کی باتیں ہو رہی ہیں، کیوں ہمیں موت سے ڈرایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ ہمیں، معاذ اللہ، پختہ یقین ہو گیا کہ ہمارا رب ہمیں مرتے ہی ایسا عذاب دے گا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ہم کیوں اس بات پر مصر ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صرف عذاب ہی دے گا، ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارا رب ہم پر رحم کرے گا۔
ہم یہ بات کیوں نہیں کہتے کہ جب قبر میں مومن صالح سے منکر نکیر کے سوال جواب ہو جائیں تو ہمارا رب کہے گا "میرے بندے نے سچ کہا، اس کے لئے جنت کا بچھونا بچھاؤ، اس کوجنت کے کپڑے پہناؤ اور جنت کی طرف سےاس کے لئےدروازہ کھول دو اور اس کو عزت کے ساتھ رکھو۔ پھروہ اپنامقام جنت میں دیکھےگا تو اللہ سے گڑگڑا کر دعا کرے گا :پروردگار قیامت برپا کر تاکہ میں اطمینان کے ساتھ جنت چلا جاؤں۔ (رواہ احمد ، ابوداود)
ہم یہ بات کیوں نہیں بتاتے کہ ہمارا عمل صالح ہم سےالگ نہ ہوگا اور قبر میں ہمارا مونس اور غمخوار ہوگا۔
جب کوئی نیک آدمی وفات پا جاتا ہے تو اس کےتمام رشتہ دار جو دنیا سے چلے جا چکے ہیں، ان کی طرف دوڑیں گے اور سلام کریں گے، خیر مقدم کریں گے۔ اس ملاقات کےبارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ "یہ ملاقات اس سے کہیں زیادہ خوشی کی ہوگی جب تم دنیامیں اپنےکسی عزیز سے طویل جدائی کے بعد ملتے ہو۔ اور وہ اس سے دنیا کے لوگوں کے بارے میں پوچھیں گے۔ ان میں سے ایک کہے گا اس کو آرام کرنے دو یہ دنیا کے غموں سے آیا ہے۔ (صحیح الترغیب لالبانی)
موت دنیا کے غموں اور تکلیفوں سے راحت کا ذریعہ ہے۔ صالحین کی موت درحقیقت ان کے لئے راحت ہے۔اس لئے ہمیں دعاء سکھائی گئی ہے ۔۔
*اللھم اجعل الموت راحة لنا من كل الشر*..
(اے اللہ موت کو ہمارے لئے تمام شروں سے راحت کا ذریعہ بنا دے)۔
ہم لوگوں کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ موت زندگی کا دوام ہےاور یہ حقیقی زندگی اورہمیشہ کی نعمتوں کا دروازہ ہے۔
ہم یہ حقیقت کیوں چھپاتے ہیں کہ روح جسم میں قیدی ہے اور وہ موت کے ذریعے اس جیل سےآزاد ہو جاتی ہےاور عالم برزخ کی خوبصورت زندگی میں جہاں مکان و زمان کی کوئی قید نہیں ہے، رہنا شروع کرتی ہے۔
ہم کیوں موت کو رشتہ داروں سےجدائی، غم اور اندوہ کےطور پر پیش کرتے ہیں، کیوں نہیں ہم یہ سوچھتے کہ یہ اپنے آباواجداد، احباب اور نیک لوگوں سے ملاقات کا ذریعہ ہے۔
قبرسانپ کامنہ نہیں ہے کہ آدمی اس میں جائگا اور سانپ اس کو چباتا رہے گا بلکہ وہ تو حسین جنت اور حسیناوں کا عروس ہے جو ہمارے انتظار میں ہیں۔
اللہ سے نیک امید رکھو اور اپنے اوپر خوف طاری مت کرو ۔
ہم مسلمان ہیں، اسلئے ہم اللہ کی رحمت سے دور نہیں پھینک دئے گئے ہیں۔
اللہ نے ہمیں عذاب کے خاطر پیدا نہیں کیا ہے۔ اللہ نےہمیں بتایا ہے کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ کی رضا کے کام کون سے ہیں اور ناراضگی کےکون سے ہیں اور ہم دنیا میں آزاد ہیں جو چاہے کریں۔
*اللھم اجعل خیر اعمالنا خواتیمھا وخیر اعما رنا او اخرھا وخیرا یامنا یوم ان نلقاک*
(اے اللہ ہمارے اعمال کا خاتمہ بالخیر کریں، ہماری آخری عمر کو بہترین بنا دیں اور سب سے بہترین دن وہ جس دن آپ سے ملاقات ہوگی۔ آمین ثم آمین
*جامعہ اسلامیہ تدریس القرآن تھانہ ملاکنڈ کے پی کے*
*0344 0222299*
"اے عرش معلی کے مالک"
"اے کائنات کے رب"
"ھمارے دلوں اور زبانوں کو اپنے ذکر سے منور فرما"
"اور اس روشن دن کو ھمارے
لۓ باعث 'رحمت' بنا دے"
"رزق وسیع عطاء کر دے"
"اور زندگی میں آسانیاں پیذا کر دے"
¤آمین¤
¤السلام علیکم¤ .."
*جامعہ اسلامیہ تدریس القرآن تھانہ ملاکنڈ کے پی کے*
*0344 0222299*

دونوں امرود ایک ہی درخت کی ایک ہی شاخ پر ایک ساتھ لٹکے ہوئے ہیں، اِن میں سے ایک پہلے ہی پک چکا ہے، جبکہ دوسرے کو پکنے میں مزید وقت درکار ہے، یاد رکھیں قُدرت ہمیں اِن دو امرودوں کے ذریعے ایک اہم سبق سکھا رہی ہے۔۔۔
جب ہم اپنے ارد گرد دوسروں کو کامیابی حاصل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جب کہ ہم نے کامیابی حاصل نہیں کی تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ناکام ہیں، اِس کا سیدھا مطلب ہے کہ ہمارے لیے ابھی صحیح وقت نہیں آیا، لہٰذا ہمیں صبر کرنا چاہیے اور مایوس بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے۔۔۔
ہوسکتا ہے کہ ہم اپنی پکنے والی حالت تک پہنچنے سے صرف چند دن دور ہوں، یاد رکھیں ہمارا وقت بھی آئے گا، لیکن اِس کیلئے صبر اور استقامت کی ضرورت ہے، اپنے رب پر اپنی قوّتِ بازو اور اپنی محنت پر بھروسہ رکھیں صبر کریں آپ کا بھی وقت ضرور آئے گا۔۔۔
*جامعہ اسلامیہ تدریس القرآن تھانہ ملاکنڈ کے پی کے*
*0344 0222299*

ایک طالب علم نے اپنے استاذ صاحب سے عرض کی :
استاذ محترم! آپ کے پیریڈ میں ہم بات اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں
آپ کی باتوں کا لطف بھی اٹھاتے ہیں اور اس لیے آپ کے پیریڈ کا انتظار بھی رہتا ہے۔
لیکن جب ہم کتاب پڑھتے ہیں تو ہمیں وہ لطف حاصل نہیں ہوتا جو آپ کے پیریڈ میں حاصل ہوتا ہے۔
استاذ صاحب نے فرمایا:
شہد کی مکھی شہد کیسے بناتی ہے ؟
ایک طالب علم نے جواب دیا : پھولوں کے رس سے۔۔۔
استاذ صاحب نے پوچھا۔۔
اگر تم پھولوں کو یونہی کھا لو تو ان کا ذائقہ کیسا ہوگا؟
طالب علم نے جواب دیا : کڑوا ہوگا۔۔۔
استاذ صاحب نے فرمایا:
اے میرے بیٹے۔۔۔ درس و تدریس کا شعبہ بھی شہد کی مکھی کے کام کی طرح ہے۔ استاذ شہد کی مکھی کی طرح لاکھوں پھولوں کتب، تجربات مشاہدات کا دورہ کرتا ہے۔ اور پھر اپنے طلبہ کے سامنے ان پھولوں کے رس کا نچوڑ (میٹھے شہد) کی صورت میں لا کر رکھتا ہے۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہر اس شخصیت کی حفاظت فرمائے جو انبیاء کرام علیہم السلام کے اس مقدس مشن سے منسلک ہیں ہے ہمارے اساتذہ کے لیے سلامتی ہو بلخصوص میرے استاذ محترم قبلہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ادریس قادری صاحب زیدہ شرفہ کا سایہ اہل سنت و جماعت کے سروں پر قائم رکھے۔
✨✨♥️♥️✨✨

قال الشاعر:
( لَا تَحزن على الصبيانِ إن ضرِبـوا
الضربُ يَـفنَى وَ يـبقَى العلمُ و الأدبُ )
الضَربُ يَنفعهم و العلمُ يرفـعـهُمُ
لَولا المـخَافـة مَا قَرأوا و لا كتبُوا
لَـولا المخـافـة كان النّاسُ كـــلهمُ
شِبهُ الجمـادِ فَلا عِـــلمٌ و لا أدبٌَ
*مولوی سے سستا کون ؟*
*مولوی کی عملی زندگی پر ایک نظر!!!!!!!!!!!*
مولوی کی تنخواہ کے بارے میں مت پوچھئے جناب!
آج کے زمانے میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ سستی ہے تو وہ ہے مولوی کی ذات اقدس ہے ،
عالم ہو،
حافظ بھی ہو
اور قاری صاحب بھی ہوں،
تھوڑی بہت انگریزی بھی جانتے ہوں
اور تنخواہ کتنی؟
بس حسب لیاقت وہی 10 سے 15 ہزار،
مولوی اگر امام ہو تو اس کی ذات اور بھی سستی ..
جو چاہے دوچار صلٰوۃ سنا دے،
الیکشن میں کسی ایک گروپ کا ساتھ دے تو امام نے رشوت لی ہوگی،
نہیں دے تو گھمنڈ آگیا ہے، ہمارے مخالف نے خرید لیا ہوگا،
زنا کے خلاف جمعہ میں بول دیا تو نوجوان ناراض،
رشوت خوری کے خلاف زبان کھولی تو سرکاری افسران چراغ پا،
سود کی حرمت پر لب کشائی کی تو سرمایہ دار نے آستینیں چڑھالی،
فرض نماز کی اہمیت بتلائی تو آٹھویں دن( جمعہ )کے نمازی ناراض،
شراب نوشی کو چھیڑا تو ساقیان میخانہ کی دھمکی ملی،
نماز تھوڑی طویل ہوگئی تو امام صاحب سو جاتے ہیں ،
جلدی پڑھی تو مولانا کو مسجد سے باہر نکلنا ہوگا تبھی ،
سیاست میں حصہ نہیں لیا تو مولوی ناکارہ ہے، انہیں کچھ نہیں آتا ہے ۔۔
اگر حصہ لے لیا تو دیکھو بِک گیا ہوگا، ،
چندہ کرکے بچوں کو پڑھائے تو بھیک مانگتا ہے،
اپنی تجارت کرے تو علم کو ضائع کردیا،
سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں گیا تو دیکھو سرکاری لقمہ خور بن گیا،
مدرسہ میں پانچ ہزار پر کام کرے تو ارے اس کو بیٹی کون دے گا( سچ مچ )۔۔
موٹر سائیکل پر سوار ہو تو ضرور اس نے گھپلہ کیا ہوگا،
پیدل چلے تو پھٹیچر ہے،
غلط باتوں پر ٹوکے تو دقیانوس اور سر خاو ہے؛
نہ ٹوکے تو ساری خرابیوں کے ذمہ دار علماء کرام ہیں،
قیامت کی بات کرے تو ترقی کا دشمن،
دنیا کی بات کرے تو دنیا داری آگئی،
بیچارے مولوی کو تقریر بھی سوچ کر کرنی پڑتی ہے کہ نہ جانے کون سی خرابی ہمارے سامعین میں ہو اور ان کو برا نہ لگ جائے،
افسوسناک بات تو یہ ہے کہ تنخواہ تو دیتے ہیں پانچ ہزار
اور ہر پسماندگی اور کمزوریوں کا ٹھیکرا پھوڑتے ہیں مولوی کے سر،
لاکھوں روپے ماہانہ کمانے والے
ڈاکٹرز،
انجینئرز ،
لیکچرار،
آئی پی ایس افسران نے
اپنی محنت سے اپنے ہی جیسا ایک بھی فرد بنانے کی ذمہ داری آج تک نہیں لی۔۔
لیکن سینکڑوں اور ہزاروں افراد کو کم از کم اپنے جیسا بنادینے والے علماء کرام پر امت کی ساری خرابیوں کا ٹھیکرا پھوڑتے ہیں،
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جن صاحب کی باتوں کا معمولی اثر ان کی بیگم پر ظاہر بھی نہیں ہوتا،
جن کے غصے سے ان کے صاحبزادے بھی نہیں ڈرتے وہ بھی مولویوں اور اماموں پر آنکھ غراتے نظر آئیں گے۔۔۔
اب قارئین ہی بتائیں کہ مولوی سے سستا کون ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔؟؟؟
طالبِ دُعا
مفتی محمد ادریس قادری

یہ بات وہ اِنسان سمجھے گا جِس کی اپنی بیٹی ہوگی یا اُس کے گھر بیٹی ہوگی💯🔥
🐼
🥀🍃💕🤍💕🌿✨️
.
.
.
.
*ایک نہایت ہی فکر انگیز واقعہ*
تھوڑا سا وقت نکال کر پڑھیں ضرور
ہر جمعہ کو نماز سے فارغ ہونے کے بعد مسجد کے امام صاحب اور ان کا ایک گیارہ سالہ بیٹا....
امسٹرڈم Amsterdam capital of Netherlands
کی گلیوں میں نکل پڑتے اور لوگوں کے درمیان
*الطريق إلى الجنة* نامی کتابچہ تقسیم کرتے پھرتے
یہ معمول چلتا رہا یہاں تک کہ ایک جمعہ کو مطلع ابر آلود ہوگیا موسلا دھار مینہ بہنے لگی اور کڑاکے کی ٹھنڈ پڑ گئی بچے نے بہت سارے کپڑے زیب تن کر لیے تاکہ اسے سردی کا احساس نہ ہو سکے اور اپنے والد سے گویا ہوا ابا چلیں میں تیار ہوں
باپ نے کہا بیٹا کہاں کی تیاری ہے؟
بیٹے نے جواب دیا اباجان کتابچوں کی تقسیم کاری کا وقت ہو چلا ہے
باپ نے کہا: بیٹا آج موسم کافی ٹھنڈا ہے بارش بھی ہو رہی ہے آج موقوف کرتے ہیں
یہ سن کر بیٹے نے حیران کر دینے والا جواب دیا اور کہا ابا جان بہت سارے لوگ تو دوزخ کی طرف بڑھ رہے ہیں
باپ نے کہا بیٹا اس موسم میں نکلنا ٹھیک نہیں
بچے نے کہا اچھا ابا جان مجھے اجازت دیں میں اکیلا ہی جاتا ہوں
باپ نے کچھ تردد کے بعد کہا اچھا ٹھیک ہے احتیاط سے جاؤ
گیارہ سال کا یہ بچہ وفور جذبات سے لبریز باپ کو شکریہ کہتے ہوۓ نکل پڑا
اس عمر کے بچے عموماً لڑکپن کی خرمستیاں لوٹتے ہیں لیکن یہ ننھی سی نوخیز کلی آفاقی ذہنیت کا شاہکار تھا
راستے بھر بھیگتے بھاگتے لوگوں سے ملتا رہا کتابچے تقسیم کرتا رہا قریب دو گھنٹے بارش میں بھیگنے کے بعد اس کے پاس صرف آخری کتابچہ باقی رہا ادھر ادھر نظر دوڑائی لیکن کوئی نظر نہ آیا لیکن بارش اور ٹھنڈ کے سبب شہر خاموشاں میں ہنوز کوئی راہی نہ دیکھا قریب کے ایک چھوٹے سے گھر کی طرف بڑھا سوچا کوئی ہوگا تو آخری کتابچہ اسے دوں
پاس پہنچا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کوئی آواز نہ آئی
وہ برابر دروازہ کھٹکھٹاتا رہا جانے اس کے دل میں کیا آیا کہ وہ وہاں سے جانے کا نام نہیں لے رہا تھا اور اب کی بار دروازہ قوت کے ساتھ کھٹکھٹایا
کچھ لمحے بیت جانے کے بعد ایک عمر رسیدہ خاتون دروازے پہ آئی جس کے چہرے پر حزن و افسردگی کے آثار نمایاں تھے بولی بیٹے کیا کام ہے؟
ننھا سا بچہ مسکراتے لبوں اور روشن نگاہوں کے ڈورے جھکا کر بولا محترمہ زحمت دینے کے لئے معذرت خواہ ہوں
دراصل آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے بے حد پیار کرتا ہے اور اس نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے یہ آخری کتابچہ آپ کو ہدیہ کرنے آیا ہوں
یہ کتابچہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے بارے کچھ پیغامات دے گا اور خلق مخلوق کی حقانیت واضح کر دے گا
خاتون نے کتابچہ لیا اور شکریہ کہتے ہوۓ واپس اندر گئی بچہ بھی گھر لوٹا
اگلے ہفتے جمعہ کا خطبہ ختم ہونے کے بعد وہ بزرگ خاتون کھڑی ہوئی اور پورے مجمع سے مخاطب ہوکر کہا میرا یہاں کوئی جاننے والا نہیں ہے
اور نہ اس سے پہلے یہاں آنے کا کبھی اتفاق ہوا ہے
گزشتہ جمعہ کو میں مسلمان نہیں تھی اور نہ ہی میں نے کبھی مسلمان ہونے کا خیال دل میں لایا تھا
کچھ ماہ پہلے میرے شوہر کا انتقال ہوگیا اور وہ مجھے تن تنہا چھوڑ کر چلا گیا اس کے جانے کے بعد زندگی بوجھل ہو گئی تھی لطف زندگی ناپید ہوگیا تھا
گزشتہ جمعہ جب زوروں کی بارش ہورہی تھی تو میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ خود کشی کرکے غم زندگی سے چھٹکارہ حاصل کرلوں کیونکہ مجھے جینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آرہی تھی
لہٰذا میں نے اوپر کے کمرے جاکر رسی اور کرسی کے سہارے جان دینے کی ٹھان لی تھی بس شاید کچھ لمحات کی دیر ہی تھی کہ یہ جسد خاکی قفس عنصری سے پرواز کر جاتی کہ یکایک میں نے دروازے کی کھڑکھڑاہٹ سنی میں نے کچھ دیر توقف کیا سوچا کہ جو ہوگا کچھ دیر میں خود ہی چلا جائے گا لیکن مسلسل دروازے کی کھڑکھڑاہٹ نے مجھے گلے سے پھندا نکالنے پر مجبور کردیا میں محو سوچ غلطاں و پیچاں رہی کہ آخر کون ہے؟
جو ایسے پرخطر موسم میں میرے دروازے پہ دستک دے رہا ہے وہ بھی مسلسل بالآخر میں نیچے آگئی دروازہ جو کھولا تو ایک ننھی سی جان کا بھیگتا ہوا وجود میری نگاہوں کے سامنے زیر لب مسکرا رہا تھا اس کی وہ مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک میں نے کبھی کسی انسان میں نہ دیکھی تھی
اس مقدس سراپے کی وصف کشی کے لئے میرے پاس الفاظ بھی نہیں اس کی زبان سے ادا ہونے والا ایک ایک لفظ گوہر نایاب تھا بس میرے قلب وجگر کی تختیوں پر اس کے الفاظ نقش ہو گئے یوں لگا کہ اب میرے مردہ دل کو کسی نے زندگی کی سوغات عطاء کردیں
اس کا یہ کہنا کہ محترمہ میں آپ کو یہ پیغام دینے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے بہت پیار کرتا ہے اور آپ کا خیال رکھتا ہے پھر اس نے مجھے یہ کتابچہ *الـطريق إلى الجنة* جو میرے ہاتھ میں ہے دیا
میں نے دروازہ بند کیا اور نہ چاہتے ہوۓ اس کتاب کو کھولا
پھر جو کتاب کو پڑھنا شروع کیا آنسوؤں سے میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں 😭میرے اندر ایک انقلاب برپا ہو چکا تھا میں جان گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے واقعتاً بہت پیار کرتا ہے میںنے کرسی اور پھندا پھینک دیا کیونکہ اب مجھے سہارا مل گیا تھا
اب مجھے زندگی کی قیمت سمجھ میں آچکی تھی
آج میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں نے اپنے مالک حقیقی کو پہچان لیا
اس کتاب پر دیے گئے پتہ کی وجہ سے میں یہاں پہنچ سکی ہوں میں آپ کا شکریہ کرنے کے لئے یہاں آئی ہوں
میں اس چھوٹے فرشتے کا شکریہ کرنا چاہتی ہوں جو مسیحا بن کر مجھے دوزخ کہ دھانے سے بچا لایا ہے
مسجد میں چہار جانب سے آنکھیں اشک بار تھیں
تکبیرات کی صداؤں سے پوری مسجد گونج اٹھی
اللہ اکبر الله أكبر
امام صاحب جو اس ننھے فرشتے کے والد تھے منبر سے اتر کر لپک پہلی صف میں موجود اپنے لخت جگر بیٹے سے چمٹ گئے اور زور زور سے رونے لگے
انھیں احساس ہو چلا تھا کہ اس مجمع میں اس جیسا کوئی خوش قسمت باپ نہیں جس کا بیٹا اصلی ہیرے موتی چن رہا ہے
اسے یہ بھی محسوس ہورہا تھا کہ میں نے مجبوری اور عذر بیانکیا لیکن اس کے بیٹے کے اندر لوگوں کی ہدایت کے تئیں ایسے جذبات ہیں کہ اب وہ شرم محسوس کررہا ہے
واقعہ تو ختم ہوا البتہ ہمارے لئے اس میں اہم اسباق ہیں
ہر کوئی اپنے آپ سے یہ سوال کرلے کہ کیا ہم نے کبھی اس طرح لوگوں کو آگ سے بچانے کی کوشش کی ہے؟
کیا ہمارے سینے میں وہ درد و کسک ہے جو ہمارے پیارے نبیﷺ کو لوگوں کی ہدایت کے لئے تھی یا جو اس ننھے سے بچے کے دل میں تھی؟
کیوں نہ ہم عہد کر لیں کہ جہاں جیسے جب بھی موقع ملے اپنے محدود وسائل کو بروۓ کار لاکر دعوت الیٰ اللہ کے فریضے کے ساتھ جڑ جائیں
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطاء کرے آمین
*جامعہ اسلامیہ تدریس القرآن تھانہ*
*0344 0222299*
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Location
Contact the school
Telephone
Website
Address
Moh:Salheen Dhanda Thana
Thana