
Champion trophy 2025 in Pakistan
Nisar Baz official
Operating as usual
Champion trophy 2025 in Pakistan
3. The acidity of urine is neutralized by?
a. Cowpers gland
b. Prostate gland
c. Seminal vesicle
d. Vas deferens
چند اسلامیات کے MCQs:
1. اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ کون سا ہے؟
- a) ربیع الاول
- b) محرم
- c) شوال
- d) ذو الحجہ
2. قرآن پاک کا سب سے پہلا لفظ کیا تھا جو حضرت محمدﷺ پر نازل ہوا؟
- a) علم
- b) اقرا
- c) اللہ
- d) کتاب
3. خطبہ حجۃ الوداع کب دیا گیا؟
- a) 9 ہجری
- b) 10 ہجری
- c) 11 ہجری
- d) 12 ہجری
4. نماز تراویح کب پڑھی جاتی ہے؟
- a) ماہ رمضان
- b) ماہ محرم
- c) ماہ ربیع الاول
- d) ماہ ذوالقعدہ
5. قرآن مجید کی کتنی آیات ہیں؟
- a) 5000
- b) 6666
- c) 7777
- d) 8888
جواب:
1. b) محرم
2. b) اقرا
3. b) 10 ہجری
4. a) ماہ رمضان
5. b) 6666
The current seats of senate are:
پاکستان میں سینیٹ کی کتنی نشستیں ہیں ___؟
98
104
96
92
Who is responsible for appointing the Chief of Army Staff (COAS) in Pakistan?
a) Prime Minister
b) President
c) Parliament
d) Supreme Court
What is the role of the Senate in Pakistan's government?
a) Head of State
b) Executive authority
C) Legislative body
d) Judicial oversight
What is the role of the National Assembly in Pakistan's government?
a) Head of State
b) Legislative body
c) Executive authority
d) Judicial oversight
Who appoints the Chief Justice of Pakistan?
a) Prime Minister
B) President
c) Parliament
d) Supreme Court judges
Which political party holds the most seats in the National Assembly of Pakistan in 2024?
a) PTI
b) PML-N
c) PPP
d) MQM
What type of government system does Pakistan currently have?
a) Presidential
b) Parliamentary
c) Federal
d) Monarchical
Who is the President of Pakistan in 2024?
a) Arif Alvi
b) Mamnoon Hussain
c) Pervez Musharraf
d) Asif Ali Zardari
What is the term length for the Prime Minister of Pakistan?
a) 3 years
b) 4 years
c) 5 years
d) 6 years
Which political party leads the government in Pakistan as of 2024?
a) Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI)
b) Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N)
c) Pakistan Peoples Party (PPP)
d) Muttahida Qaumi Movement (MQM
ہمنگ برڈ کے بارے میں حیرت انگیز حقائق
ہمنگ برڈ چھوٹے، رنگین پرندے ہیں جو اڑنے کی اپنی ناقابل یقین صلاحیت کے لیے مشہور ہیں۔ وہ پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں اور انہیں ان کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ان کی پرواز کے منفرد انداز اور طرز عمل کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔
ہمنگ برڈز کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ایک ان کی وسط ہوا میں منڈلانے کی صلاحیت ہے، اپنے پروں کو فی سیکنڈ میں 80 بار پھڑپھڑاتے ہیں۔ یہ انہیں پھولوں سے رس چوسنےکے قابل بناتا ہے، اور وہ چھوٹے کیڑوں اور مکڑیوں کو کھانا کھلانے کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔ اپنے فضائی ایکروبیٹکس کے علاوہ، ہمنگ برڈز اپنے چمکدار رنگوں کے لیے بھی مشہور ہیں، جو ساتھیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اپنے علاقے کے دفاع کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
ہمنگ برڈز کی 340 سے زیادہ اقسام ہیں، اور وہ سائز، رنگ اور اشکال کی ایک وسیع رینج میں آتے ہیں۔ کچھ انواع کافی چھوٹی ہوتی ہیں، جن کے جسم کی لمبائی صرف چند سینٹی میٹر ہوتی ہے، جب کہ دیگر بہت بڑی ہوتی ہیں، جن کے پروں کی لمبائی 8 انچ تک ہوتی ہے۔ اپنے چھوٹے سائز کے باوجود، ہمنگ برڈز سخت پرندے ہیں جو انتہائی موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور ہر سال طویل فاصلے تک ہجرت کرتے ہیں۔
ہمنگ برڈ کی زندگی کا چکر اس وقت شروع ہوتا ہے جب مادہ اپنے بنائے ہوئے گھونسلے میں ایک ہی انڈا دیتی ہے۔ انڈے کے نکلنے کے بعد، مادہ چوزے کو ایک خاص قسم کا دودھ پلاتی ہے جو وہ اپنی چونچ سے تیار کرتی ہے۔ جیسے جیسے چوزہ بڑا ہوتا ہے، یہ زیادہ خود مختار ہو جاتا ہے اور آخر کار اپنی زندگی شروع کرنے کے لیے گھونسلہ چھوڑ دیتا ہے۔
ہمنگ برڈز کے سب سے دلچسپ پہلوؤں میں سے ایک ان کی نقل مکانی کے نمونے ہیں۔ ہمنگ برڈز کی کچھ اقسام کو ہر سال ہزاروں میل کا سفر کرنے کے لیے جانا جاتا ہے، جو شمال میں اپنے افزائش کے میدان سے جنوب میں اپنے سردیوں کے میدانوں تک اڑتے ہیں۔ اس ہجرت کے دوران، ہمنگ برڈز بغیر رکے دنوں تک اڑنے کے قابل ہوتے ہیں، اس توانائی سے ایندھن حاصل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے جسموں میں جمع کی ہے۔
ہمنگ برڈز ماحولیاتی نظام میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں، کیونکہ یہ اہم جرگ ہیں اور پودوں اور جانوروں کی آبادی کے توازن کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ یہ سانپوں، چمگادڑوں اور بڑے پرندوں جیسے شکاریوں کے لیے خوراک کا ذریعہ بھی ہیں، اور یہ بیج کھانے اور جمع کرنے کے عمل انہضام کے ذریعے بیجوں کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں
بائیو ایلیمنٹس ✍️
انسانی جسم تقریباً سولہ عناصر کا بنا ہوتا ہے جنہیں بائیو ایلیمنٹس کہتے ہیں۔ ان میں سے چھ عناصر آکسیجن، کاربن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، کیلشیم اور فاسفورس انسانی جسم کا تقریباً 99٪ بناتے ہیں، اور باقی دس عناصر پوٹاشیم، سلفر، سوڈیم، کلورین، میگنیشیم، آئرن، کاپر، زنک، مینگانیز اور آئیوڈین تقریباً ایک فیصد۔ انسانی جسم میں ہونے والے افعال انہی چند عناصر کے ایٹمز کے رد و بدل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان مٹی سے ہی بذریعہ خوراک یہ عناصر حاصل کرتا ہے اور اپنی زندگی کی تکمیل کرکے عناصر کی یہ امانت مٹی کو ہی لوٹا دیتا ہے۔
🗣️ *توانائی بحران کا حل کیا ہے؟
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے 70 کروڑ ڈالر قرض کی اگلی قسط حاصل کرنے اور چھ ارب ڈالر کا طویل المدت بیل آوٹ پیکج حاصل کرنےکیلئے حکومت نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے ابتک سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق بجلی کی قیمت میں پانچ سے سات روپے فی یونٹ جبکہ گیس کی قیمت میں 350روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک اضافے کی تجاویز زیر غور ہیں۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے تشویشناک ہے کہ عام آدمی، کمرشل صارفین اور انڈسٹری بجلی و گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے پہلے ہی شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت اپنی سہولت کیلئے آئی ایم ایف سے لئے گئے قرض کی ادائیگی کیلئے مزید مالی بوجھ ان پر ڈالنے کا سوچ رہی ہے تو اسے کسی بھی لحاظ سے قابل تحسین اقدام قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے بھی افسوسناک ہے کہ عام انتخابات سے قبل موجودہ حکومتی اتحاد بجلی کی قیمت میں کمی کے وعدے اور یقین دہانیاں کرواتا رہا ہے۔ تاہم حکومت ملتے ہی انہوں نے پھر وہی روایتی طرز حکومت ہی جاری رکھنے کو ترجیح دی ہے جس کی وجہ سے گزشتہ 76 سال سے ملک کی معیشت کھوکھلی ہو چکی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ چند سال کے دوران بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے جہاں انڈسٹری میں کام ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے وہیں عام آدمی کے ساتھ ساتھ صنعتکاروں اور تاجروں کیلئے بھی بجلی کے بلوں کی ادائیگی سب سے بڑا معاشی مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ صورتحال ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ گزشتہ تین دہائیوں کی بدانتظامی اور غلط پالیسیوں کا خمیازہ ہے جسے ہم آج بھگت رہے ہیں۔ ایسے میں اگر موجودہ حکومت بھی اس پرانی روش کو برقرار رکھنے کی پالیسی پر عمل جاری رکھتی ہے تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ بہت جلد یہ معاشی مسئلہ ملک میں انارکی پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انڈسٹری کو جس ریٹ پر بجلی اور گیس فراہم کی جا رہی ہے اس کے ہوتے ہوئے انڈسٹری کیلئے پیداواری عمل جاری رکھنا ناممکن ہو چکا ہے۔ ماضی میں بھی ہر حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بعد سود کی ادائیگی کیلئےبجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھاتی رہی ہے لیکن اس طرز عمل کا آج تک ملک یا قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ اس وقت ملک میں رائج کم از کم اجرت کے قانون کے تحت بھی اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ 30سے 40 ہزار روپے ماہانہ کمانے والے گھرانوں کیلئے یہ ممکن ہی نہیں رہا ہے کہ وہ ماہانہ ہزاروں روپے بجلی اور گیس کے بل کی مدمیں اضافی ادا کریں۔دوسری طرف پاکستان میں انرجی سیکٹر کا ایک اور بڑا پالیسی تضاد یہ ہے کہ گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ ان کے زیادہ استعمال پر صارفین کو سہولت فراہم کرنے کی بجائے ریٹ مزید بڑھا دیئے جاتے ہیں۔ گیس کے حوالے سے یہ پالیسی کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے کہ گیس کے قدرتی ذخائر میں کمی کے باعث پاکستان کو اپنے استعمال کیلئےایل این جی بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتی ہے اس لئے گیس کی راشنگ یا استعمال میں بچت ضروری ہے۔ تاہم بجلی کے معاملے میں یہ پالیسی کسی طرح بھی مستحسن قرار نہیں دی جا سکتی ۔اگر حکومت نے کیپسٹی چارجز کے نام پر بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کو ان کی پوری استعداد کے مطابق ہی ادائیگیاں کرنی ہیں تو پھر اس بجلی کو استعمال میں لانا چاہئے ناکہ بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیاں بجلی بنائے بغیر ہی کیپسٹی چارجز کے نام پر اپنی جیبیں بھرتی رہیں۔
اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ بجلی کی اضافی پیداوار کی کھپت کے لئے بجلی کی قیمتوں میں کمی کرے تاکہ صارفین کو کسی حد تک ریلیف مل سکے۔ اس وقت پاکستان کی بجلی پیدا کرنے کی مجموعی استعداد 46ہزار میگاواٹ سے زائد ہے جبکہ بجلی کی مجموعی کھپت یا استعمال 37 سے 41 ہزار میگاواٹ تک محدود ہے۔ ایسے میں اگر حکومت صنعتی اور گھریلو صارفین کیلئے بجلی کی قیمت کم کر دے تو ناصرف بجلی کی پوری پیداوار استعمال کی جا سکے گی بلکہ پاکستان کو ایل پی جی گیس کی درآمد پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالرز کی بھی بچت ہو گی۔ ماضی کے ریکارڈ کو سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بجلی کی اضافی پیداوار کے کیپسٹی چارجز ادا کرنے کیلئےبجلی کی قیمت میں اضافے کی پالیسی سے ملک کو فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہوا ہے۔ اس پالیسی کے باعث بجلی کے استعمال میں مزید کمی کی وجہ سےکیپسٹی چارجز کا حجم مزید بڑھتا جا رہا ہے اور صارفین کیلئےبجلی بھی مہنگی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس اگر گیس کی قیمت میں اضافہ کر کے بجلی کی قیمت کم کر دی جائے تو لوگ خودبخود گیس کے مقابلے میں بجلی کے استعمال کو ترجیح دیں گے اور حکومت کو کیپسٹی چارجز کی مد میں ادا کی جانے والی اضافی ادائیگیوں سے بھی نجات مل جائے گی۔ علاوہ ازیں اس وقت پاکستان کو جن معاشی چیلنجز کا سامنا ہے ان کا تقاضا ہے کہ جب تک عوام کی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتیں حکومت مہنگے اور غیر پیداواری ترقیاتی منصوبوں پر قومی وسائل ضائع نہ کرے۔ یہ اقدامات اس لئے بھی انتہائی ضروری ہیں کہ اگر حکومت نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا تو لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے اور پھر انہیں قابو کرنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔
Who wrote the influential work "The Social Contract", which explores the idea of a legitimate political authority based on the consent of the governed?
a) Thomas Hobbes
b) John Locke
C) Jean-Jacques Rousseau
d) Immanuel Kant
The process of redrawing electoral district boundaries to favor one political party over another is known as:
A) Gerrymandering
b) Pluralism
c) Federalism
d) Devolution