نوجوان گلوکارہ مومنہ مستحسن نے 35 ہزار فٹ کی بلندی پر ’’دل دل پاکستان ’’ گا کر نیا ریکارڈ کردیا
The pakistan tourism with ....
Pakistan zinda bad 🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰
Islamia Sadiq Public School System
Nearby schools & colleges
Pul Tahirabad Adda Laar Bahawalpur Road
Zakriya Town Street
Brookfield Halll School New North Gulghast Multan
Khudadad Colony Multan
Shahshams Colony O/S Coca Cola Factory Multan
New
Street No. 18 Bilal Nagar Chungi
1530/22, Street # 5, Khawaja Colony, Railway Road
Gulgasht Colony
Shah Rukn/E/Alam Colony
Opp Garden Town
T. B Hospital Road O/S Delhi Gate
Bosan Road Multan
Bahar Chock Masoom Shah Road
Basti Jaleel Tehsil & District
Comments
Available...
Smart look..durable and comfortable at low price 500.
We welcome you.
Timings 10 am to 10pm.
Hello. #061. 454 1383
PUNJAB shoes MULTAN.
Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Islamia Sadiq Public School System, High School, Islamia sadiq public school, muhala awan pura, multan, Multan.
Operating as usual
ہم دین محمد کے سپاہی مر جائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
عورت کوٹھے میں ناچے تو طوائف اگر اسکول اور پارٹی میں ناچے تو مہذب ؟؟؟؟؟
ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﺳﻮﺍﻝ
ﺟﺲ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﺎ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺁﮔﺎﮦ ﮐﺮ ﺩﯾﺠﺌﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﻓﻨﮑﺸﻦ ﻣﻨﻌﻘﺪ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﻥ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﺏ ﮈﺍﻧﺲ ﮐﺮﻭﺍﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺠﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ، ﭘﺮﻧﺴﭙﻞ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻣﺠﺮﺍ ﺑﮭﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﮨﮯ؟ ﻟﻔﻆ ﻣﺠﺮﺍ ﭘﺮ ﭘﺮﻧﺴﭙﻞ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔
ﺷﺮﻓﺎ ﮐﯽ ﺷﺮﯾﻔﺎﻧﮧ ﭘﺎﺭﭨﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺳﮑﻮﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭼﮭﻞ ﮐﻮﺩ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﻏﯿﺮﺗﯽ ﮐﺎﻧﺎﻡ ﭘﺎﺭﭨﯽ ﮈﺍﻧﺲ ﺍﻭﺭ ﻓﻨﮑﺸﻦ ﯾﮩﯽ ﮐﺎﻡ ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﭨﮑﮯ ﮐﯽ ﻃﻮﺍﺋﻒ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﻣﺠﺮﺍﺳﻮﭼﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺷﺮﺍﻓﺖ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﻏﯿﺮﺗﯽ ﮐﮯ ﯾﮧ ﻣﯿﻌﺎﺭ ﮨﻢ ﺿﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﮐﻮﻥ ﺳﮯ ﺗﺮﺍﺯﻭ ﻣﯿﮟ ﺗﻮﻝ ﮐﺮ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ؟
ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ﮐﻨﻮﺍﺭﯼ ﺟﻮﺍﻥ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﭽﺎ ﻧﭽﺎ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﭘﮭﻮﻟﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺎﺗﮯ۔ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﭘﺮﻭﻓﺎﺭﻣﻨﺲ ﭘﺮ ﺑﻼﺋﯿﮟ ﻟﯿﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮑﺘﮯ۔ﭘﯿﭧ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻧﺎﭼﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﻮ ﻧﺎﮎ ﺳﮑﻮﮌ ﮐﺮ ﻧﻔﺮﺕ ﺳﮯ ﻃﻮﺍﺋﻒ ﮐﯽ ﮔﺎﻟﯽ ﺩﯼ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻃﻮﺍﺋﻒ ﮐﮯ ﻣﺠﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺷﺮﺍﻓﺖ ﮐﺎ ﺳﺮﭨﯿﻔﯿﮑﯿﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻻﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﯿﭧ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻧﺎﭼﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺤﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﻧﻤﻮﻧﮧ ﺑﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﻔﺮﺕ ﮨﮯ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺩﺭﺳﮕﺎﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻭﺍﺋﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺠﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﭨﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﺮﻭﺍﺋﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺠﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻕ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮬﺶ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔
ﻣﻨﺎﻓﻘﺖ ﺩﻭﻏﻠﮯ ﭘﻦ ﺍﻭﺭ ﺟﮭﻮﭦ ﻣﯿﮟ ﺭﻧﮕﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﭽﺮﺍ ﺳﻤﺎﺝ ﮐﯽ ﮈﮐﺸﻨﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻋﺰﺕ ﻭ ﻏﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﺟﺎﻧﻨﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﻋﺰﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﻋﺰﺗﯽ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮔﺰ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻧﺎﭖ ﮐﺮ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﮐﯽ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﻃﮯ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ هے.
تعلیم و تعلم اور عشق معاشقہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد کے علاقے ترنول کے ایک سکول میں 16 سالہ "طالبِ عشق" نے اپنی 19 سالہ اُستانی کی "محبت" میں ناکامی پر کلاس میں خود کو گولی مار کر قتل کردیا۔۔۔۔۔ یہ خبر انتہائی افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے، یہ کوئی نئی خبر یا نیا واقعہ نہیں۔۔۔۔اس سے قبل بھی ایسے واقعات تسلسل سے ہوتے رہے ہیں۔
دو باتیں عرض کرنی ہیں۔۔۔۔۔۔ اول تو ایسے نامردوں کی پیدائش پہ افسوس ہے، جو داڑھی مونچھ کی عمر کو پہنچ کر بھی اپنی زندگی کا مقصد نہیں سمجھ پاتے، ۔۔۔۔۔ اپنی قیمتی جان کو کسی کے "پیار" کیلئے وار دینا۔۔۔۔۔ اپنی جان کا چراغ اپنے ہاتھوں گُل کردینا۔۔۔۔۔ یہ کونسی محبت ہے بھئی ۔۔۔۔؟ اِس "عشق، محبت یا پیار" کا کانسپٹ کہاں سے آیا کہ جس میں بچے اپنی جان تک لے لیتے ہیں۔۔۔۔۔ کیا یہ ان فلموں اور ڈراموں کا نتیجہ نہیں؟ جو پورا گھر ایک جگہ بیٹھ کر دیکھتا ہے۔۔۔۔جس میں والدین سے بغاوت، خود کشی، خودسری اور کسی بھی حد کو پھلانگنے کیلئے کچے اذہان کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔۔۔؟؟
دوسری بات یہ ہے کہ میٹرک اور انڈر میٹرک کے لڑکوں کو پڑھانے کیلئے 18 اور 19 سالہ دو شیزائیں کس لئے رکھی جاتی ہیں ۔۔۔؟ معلم اور متعلم کے مقدس ترین رشتے کے نام پر عاشق اور معشوق کو درس گاہ کی بجائے ڈیٹ پوائنٹ فراہم کرنے والے پرائیویٹ سکول مالکان سے کوئی پوچھ گچھ ہوسکتی ہے ۔۔۔؟ 1500 سے 5000 ماہانہ تنخواہ پر آغازِ شباب کے نازک ترین دور سے گزرنے والی میٹرک اور انٹر پاس بچیاں تدریس کے لئے رکھی جاتی ہيں۔۔۔۔اس پر کون ایکشن لے گا۔۔؟ ہے کوئی جو اس مافیا کے خلاف قانونی چارہ کوئی کرے۔۔۔۔۔؟؟
کیا وہ والدین اندھے، بہرے، یا دنیا و مافیہا سے بے بہرہ ہیں جنہیں اپنے بچوں کے تعلیمی ادارے کے متعلق خبر نہیں کہ کیا پڑھایا جارہا ہے، اور کس قسم کا نظام ہے۔۔۔؟ کیسی تربیت کی جارہی ہے اور کیا ذہن سازی ہورہی ہے، ۔۔۔ماحول کیسا فراہم کیا گیا۔۔۔۔؟ یہ سب کچھ والدین کی ذمہ داری ہے، لیکن وہ اس میں سراسر کوتاہی برتی جاتی ہے۔۔۔۔کیا یہ والدین اپنے بچوں کا بستہ، ہوم ورک اور روازانہ کا معمول نہیں دیکھتے کہ ان کے بچے کے بستے میں کوئی ذہنیت بگاڑنے والا ناول، جریدہ، یا رسالہ تو نہیں ہے۔۔۔۔؟ کیا اس کے موبائل فون کا استعمال درست ہے۔۔۔۔؟ مگر خدا غارت کرے اس فکر کو کہ جس نے بچے کو والد کے پستول تک پہنچا دیا اور والدین کو خبر تک نہ ہوئی۔۔۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ وہ دوشیزہ جوٹیچر سے زیادہ فیشن ماڈل بن کر سکول آتی ہے، بلوغت سے تازہ تازہ آشنائی پانے والے لڑکوں سے بے تکلفی، گپ شپ، موبائل نمبر شیئرنگ اور نہ جانے کیا کچھ ہوتا ہے، اُس میں اس ٹیچر کی کتنی ذمہ داری ہے ۔۔۔؟؟ کہ وہ کس حلیے، لباس، تراش خراش اور چال ڈھال کی پابند ہے۔۔۔۔۔؟ لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔۔۔۔ خواتین کے فیشن اور میک اپ مقابلے تعلیمی اداروں میں بھی عروج پر ہوتے ہیں۔۔۔جتنی تنخواہ ان پرائیویٹ اداروں میں ٹیچرز کو دی جاتی ہے، وہ بمشکل ان کے ماہانہ میک اپ کے سامان اور موبائل بیلنس پورا کرپاتی ہے۔۔۔۔ بس ایسی تنخواہوں پر پڑھائی کا معیار بھی ایسا ہی ہوتا ہے، جہاں ہر روز کوئی اسامہ، عبداللہ، نوروز اور فاطمہ نور جیسوں کے لاشے گرا کرتے ہیں۔
وزارت تعلیم ایسے اداروں کی رجسٹریشن کرتے وقت عمارت، عملہ، تمام میکنزم اور معلومات لے کر تحقیق کے بعد معیار پر پورا اُترنے والے اداروں کی رجسٹریشن کرے، یہ گلی گلی میں تعلیم کا کاروبار کرنے والے سکول نامی دوکانیں، مخلوط نظام، اور اخلاقیات کے جنازے اٹھانے والے تمام ادارے بند کردینے چاہئیں، یہ والدین، سکول انتطامیہ، والدین اور حکومت کی ذمہ داری ہے، کہ اپنی نئی نسل کو اس اندھیرے کنویں میں ڈوبنے سے بچائیں، ہمارے تعلیمی اداروں میں منشیات، اخلاق باختہ پروگرامات اور ایسی خرافات مستقبل کے معماروں کی اخلاقی تباہی، بے یقینی، خود پہ عدم اعتماد، مجرمانہ فکر اور بے راہروی کا پیش خیمہ ہیں۔
ﺍﭼﮭﺎ ﻭﮦ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﻗﺪ ﻭﺍﻟﯽ ﻟﮍﮐﯽ ؟
ﺍﭼﮭﺎ ﻭﮦ ﺑﮍﮮ ﺳﮯ ﻣﻨﮧ ﻭﺍﻟﯽ؟
ﺟﻮ ﯾﻮﮞ ﭼﻠﺘﯽ ﺗﮭﯽ؟ ( ﻧﻘﻞ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ )
ﮐﻮﻧﺴﺎ ﻟﮍﮐﺎ ؟
ﻭﮦ ﮔﻨﺠﺎ؟
ﻭﮦ ﻣﻮﭨﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﻭﺍﻻ؟
ﻭﮦ ﺟﻮ ﺧﻮﺩ ﺍﺗﻨﺎ " ﮐﻮﺟﺎ " ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﺳﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﻣﻞ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ؟
ﮨﻢ ﺳﻮﺭﮦ ﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺁﯾﺎﺕ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭼﺎﺭ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﻭ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺣﺴﯿﻦ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ۔
ﻗﺴﻢ ﮨﮯ ﺍﻧﺠﯿﺮ
ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺘﻮﻥ ﮐﯽ
ﺍﻭﺭ ﻃﻮﺭِ ﺳﯿﻨﺎ ﮐﯽ
ﺍﻭﺭ ﺍﻣﻦ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺱ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ
ﺑﯿﺸﮏ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺳﺎﺧﺖ ﭘﺮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ۔
ﮐﺘﻨﮯ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﮌﺍ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ۔ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻟﻤﺒﺎ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺳﻨﻨﯽ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ، ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﮐﺎﻻ، ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻧﺎﮎ ﻣﻮﭨﯽ، ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺩﺍﻧﮯ ﻧﮑﻞ ﺁﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﻮﭼﮫ ﭘﻮﭼﮫ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﻣﺖ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺑﺎﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﺒﺼﺮﮮ، ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﺎﺗﯿﮟ۔۔ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﮨﻢ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻏﻠﻂ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﭘﮑﺎﺭﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺧﻮﺵ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﮭﺎﻧﮏ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﭨﻮﺕ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺭﻭﺗﺎ ﮨﮯ ، ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺷﮑﻮﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺍﺱ ﺷﮑﻮﮮ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻏﻠﻂ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺁﮔﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﻮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻣﺤﺮﻭﻣﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮐﺮﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ، ﯾﻘﯿﻨﺎً ﺣﺴﯿﻦ ﭼﮩﺮﺍ ﺳﺒﮭﯽ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺣﺴﻦ ﺑﮭﯽ ﺭﺏ ﻧﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﺍﺳﯽ ﮐﯽ، ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﻣﮩﺮﮮ ﮐﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﺁﭖ ﺍﮌﺍ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﺲ ﺫﺍﺕ ﮐﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻣﺮﺗﮑﺐ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﯾﮧ ﺟﺎﻧﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺸﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺭﺏ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻭﺳﺮﯼ، ﺗﺴﯿﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭼﻮﺗﮭﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﺣﺴﻦ ﺗﻘﻮﯾﻢ
( ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺳﺎﺧﺖ ) ﭘﺮ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﻣﺬﻕ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﯾﮧ ﯾﺎﺩ ﮨﯽ ﮐﺐ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ؟ !
ﯾﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﺑﻞِ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﮐﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﻧﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺟﻐﺮﺍﻓﯿﺎﺋﯽ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﻢ ﺑﻐﯿﺮ ﺳﻮﭼﮯ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﭼﺎﺋﻨﯿﺰ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﻗﺪ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﮎ ﮐﺎ، ﺍﻧﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﻋﻤﻮﻣﺎً ﭘﮭﯿﻨﯽ / ﭼﭙﭩﯽ ﻧﺎﮎ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺍﻧﮑﯽ ﻃﺮﻑ refer ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻓﺮﯾﻘﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﻨﮕﺮﯾﺎﻟﮯ ﺑﺎﻝ، ﭼﻮﮌﯼ ﺟﺴﺎﻣﺖ، ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺮﮮ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺣﻘﺎﺭﺕ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍﻧﮑﻮ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﻣﺼﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﻨﺎﯾﺎ -
ﺍﻟﻠَّﻬُﻢَّ ﺃَﻧْﺖَ ﺣَﺴَّﻨْﺖَ ﺧَﻠْﻘِﻲ ﻓَﺤَﺴِّﻦْ ﺧُﻠُﻘِﻲ
ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ! ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺗﻮ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ( ﺑﺎﮨﺮ ) ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ، ﮨﻤﺎﺭﺍ ( ﺍﻧﺪﺭ ) ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﻨﺎ ﺩﮮ۔
♥¸.•* *•.¸♥ محبتوں کا امین ♥¸.•* *•.¸

ایک تصویر پانچ سبق
پہلا سبق:
ہمیشہ اپنی اوقات (حد) میں رہیں-
دوسرا سبق:
دوسروں کو فتح کرتے کرتے خود نہ گنوا بیٹھو-
تیسرا سبق:
ہر موقع غنمیت نہیں ہوا کرتا- کچھ مواقع دام صیاد ہواکرتے ہیں-
چوتھا سبق:
کچھ کام زور زبردستی نہیں، حکمت کے متقاضی ہوتے ہیں -
پانچواں سبق:
خوابوں کے تعاقب میں کوشاں رہو مگر پاوں زمین پر رہیں-
ایک ان پڑھ شخص اور اس کا پڑھا لکھا بیٹا پکنک پر گئے
انھیں وہاں پہنچتے پہنچتے رات ہو گئی۔
دونوں نے اپنے الگ الگ خیمے لگائے اور سو گئے۔
آدھی رات کو باپ نے اپنے بیٹا کو جگایا اور پوچھا۔
"آسمان کو دیکھو بیٹا۔۔۔"
بیٹا کچھ حیران ہوا اور بولا" جی دیکھ رہا ہوں۔۔"
"کیا دیکھا؟" باپ نے پوچھا
"میں نے اربوں ستارے دیکھے ہیں ۔" بیٹے نے جواب دیا
"اس سے کیا پتا چلا۔۔" باپ نے پوچھا
"اس سے پتا چلتا ہے کہ ہماری کائنات بہت وسیع ہے، ہمارا نظام شمسی بہت بڑا ہے ، اور ستارے آسمان کی زینت ہیں۔۔۔۔" بیٹے نے جواب دیا
ان پڑھ باپ نے اپنے پڑھے لکھے بیٹھے کے گال پر رکھ کر کرارا تھپٹر مارا اور کہا،،،
"جاہل انسان! اس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے خیمے چوری ہو گئے ہیں 😂😂
کیاہم آزاد ہیں۔ ۔ ۔ ۔
سب راستے بند ہو نے کے بعد نہیں سب سے پہلے اللہ سے مانگو۔ ۔
اگر عورت ڈاڑھی کانٹے کا کہے تو آپ کیا جواب دیں گے
5200 سے زیادہ برطانوی لوگ مسلمان ہوے
ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﺁﭘﮑﯽ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﮨﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﺁﭘﮑﻮ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﻭﺭ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﺎ ﻓﺮﻕ ﺑﺘﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ﮐﻢ ﻇﺮﻑ ﮐﻢ ﻇﺮﻑ ﮨﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺁﭘﮑﺎ ﻇﺮﻑ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺁﭘﮑﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻢ ﻇﺮﻑ ﺣﺴﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﭖ ﺩﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺭﺳﻮﺍ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔
ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﻧﺎ، ﺩﺭﮔﺰﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮨﯽ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﮐﯽ ﺿﻤﺎﻧﺖ ﮨﮯ۔!!

حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جب سورج غروب ہوا تو ان سے پوچھا کہ تم کو معلوم ہے یہ سور ج کہاں جاتا ہے؟
میں نے عرض کی کہ اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہی کو علم ہے...
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جاتا ہے اور عرشِ الٰہی کے نیچے پہنچ کر سجدہ کرتا ہے، پھر (دوبارہ آنے) کی اجازت چاہتا ہے اور اسے اجازت دے دی جاتی ہے...
اور وہ دن بھی قریب ہے ،جب یہ سجدہ کرے گا تواس کا سجدہ قبول نہ ہوگا اور اجازت چاہے گا تو اجازت نہ ملے گی ، بلکہ اس سےکہا جائے گا کہ جہاں سے آیا تھا وہیں چلا جا ..
چنانچہ اس دن وہ مغرب ہی سے نکلے گا، اللّٰہ تعالٰی کا فرمان ''والّشمس تجری لمستقرّ لہا ذلِک تقدیر العزیز العلیم ۔'' (یٰس ۳۸) میں اسی طرف اشارہ ہے....
(صحیح البخاری۔ حدیث نمبر ۳۱۹۹) كتاب بداء لخلق.
ایک نیک آدمی شادی کے بعد بیوی کو لے کر اپنے گھر لوٹ رھا تھا۔
راستے میں دریا عبور کرنا پڑتا تھا۔
آدمی نے ایک کشتی کا انتظام کیا اور وہ دونوں دریا عبور کرنے لگے۔
کشتی بیچ دریا پہنچی ہی تھی کی دریا میں طوفان آ گیا۔
اس صورتحال میں بیوی کا خوف سے برا حال ھو گیا لیکن آدمی ایسے اطمینان سے بیٹھا رھا جیسے کچھ غیرمعمولی نہیں ہو رہا۔
یہ دیکھ کر بیوی کو حیرت ہوئی وہ غصے سے چلا اٹھی۔
آپکو نظر نہیں آ رہا۔ طوفان کشتی کو ڈبونے لگا ہے۔ ہماری موت سر پر ہے اور آپ اطمینان سے بیٹھے ہیں۔
یہ سنتے ہی خاوند نے اپنی تلوار میان سے نکالی اور بیوی کی شہ رگ پر رکھ دی۔
بیوی ہنس پڑی اور بولی یہ کیسا مذاق ہے؟
خاوند نے پوچھا کیا آپ ابھی موت سے خوفزدہ نہیں ہو رہی۔ کیا آپ کو نہیں لگ رہا کہ میں آپکا گلا کاٹ دوں گا۔
یہ سن کر بیوی بولی مجھے آپ پر اور آپکی محبت پر اعتماد ہے۔ مجھے پتا ہے آپ مجھ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور یہ تلوار آپ کے ہاتھ میں ہے تو مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
یہ سن کر خاوند بولا جیسے آپکو میری محبت پر اعتماد ویسے ہی مجھے اللہ کی محبت پر یقین ہے اور یہ طوفان بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہے تو اسے روک لے چاہے تو ہماری کشتی ڈبو کر بھی ہمیں بچا لے۔
یاد رکھو اللہ جو بھی فیصلہ کرے وہ ہمارے حق میں بہترین ہوتا ہے۔

امتحانی پرچے میں سوال تها
"ماں کے عظیم احسانات پر چند جملے لکهئیے"
ایک مصر کے دس سالہ بچے نے مختصر مگر جامع جملہ کچھ اس طرح لکها..
"میری ماں مر گئ اور اس کے مرنے کے ساتھ ہر چیز مر گئ"
صبح ورد کرنا ہے ’’رازق، رازق، تو ہی رازق‘‘ اور شام کو ’’شکر، شکر مولا تیرا شکر۔‘‘
مئی ۱۹۸۶ء تک کا زمانہ مسقط (عمان) کی فوج میں بطور ایک اکائونٹنٹ گزرا، وہاں ہمارے ساتھ ایک رشید صاحب بھی ہوا کرتے تھے، وہ حافظ آباد کے قریب واقع کسی گائوں کے رہنے والے تھے، وہ وقتاً فوقتاً گائوں کا چکر لگاتے رہتے تھے، وہ اکثر ایک حکیم صاحب کا ذکر کرتے، ان حکیم صاحب کی باتیں کچھ عجیب سی تھیں۔ مجھے بھی آج تک یاد ہیں۔ حکیم صاحب کا گائوں گکھڑ سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا۔
حکیم صاحب کا بچپن اپنے دادا کی گود میں گزرا تھا، ان کے والد اُن کی پیدائش سے قبل انتقال فرما گئے تھے، دادا نے بچپن ہی سے عبدالحکیم کو یہ سبق پڑھانا شروع کر دیا کہ اللہ کہتا ہے میں نے انسانوں اور جنوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ عبادت میں سے صرف وہ وقت اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا جو اس کے دیے ہوئے رزق کی تلاش کرنے میں لگے گا اور جو وقت انسان کے بس سے باہر ہے جیسے سونا، آرام کرنا، وغیرہ وغیرہ۔
گائوں میں گھر کا کافی بڑا صحن تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ گھر کے گرد کوئی چار دیواری بھی نہ تھی۔ گھر میں ایک طرف بڑے بڑے درختوں کا ایک جھنڈ تھا۔ صبح شام دنیا جہان کی چڑیاں وہاں آ کر جمع ہوجاتیں اور چیں چیں کرکے آسمان سر پر اُٹھا لیتیں۔ صبح فجر ادا کرکے آپ ننھے حکیم کو گود میں لٹا کر ایک چارپائی پر بیٹھ جاتے اور چڑیوں کی آواز سے آواز ملانے کی کوشش کرتے۔ کہا کرتے یہ کہہ رہی ہیں ’’رازق، رازق، تو ہی رازق۔‘‘ گھر میں اکثر کہا کرتے کہ یہ اپنے دل میں دعا مانگ سکتی تھیں جیسے دنیا کے باقی سیکڑوں ہزاروں جانور مانگتے ہیں۔ لیکن انسان کو احساس دلانے کے لیے اللہ نے ان کو بآواز بلند روز کا رزق روز صبح مانگنے کا حکم دیا۔
عبدالحکیم کو سمجھاتے رہتے کہ ہمارے بزرگوں نے اور ہم نے تو خدا سے چڑیوں کی طرح رزق مانگ کر زندگی گزار لی اور بڑے سکھی رہے۔ تم بھی یہ راہ اختیار کرو گے تو زندگی بڑے سکون سے گزر جائے گی۔
شام کو داداجان عصر کی نماز کے بعد پھر چڑیوں کے ساتھی بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتے۔ وہ کہا کرتے غور کرو وہ کیا کہہ رہی ہیں۔ مجھے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ کہہ رہی ہوں ’’شکر شکر مولا تیرا شکر‘‘ یعنی تو نے ہماری صبح کی دعائوں کو شرفِ قبولیت بخشا اور ہمیں اتنا رزق دیا کہ ہم کھا بھی نہ سکے۔
عبدالحکیم صاحب کا گکھڑ میں جی ٹی روڈ پر مطب ایک پرانی سی عمارت میں ہوتا تھا۔ گرمیوں میں ۸ بجے اور سردیوں میں ۹ بجے دکان لازماً کھل جاتی تھی لیکن دکان بند ہونے کا کوئی مقررہ وقت نہیں تھا۔ کہا کرتے تھے جب کھاتہ مکمل ہوگیا، دنیاداری کا وقت ختم ہوگیا۔
رشید بتاتا کہ کھاتے کا بھی بڑا دلچسپ چکر تھا۔ حکیم صاحب صبح بیوی کو کہتے کہ جو کچھ آج کے دن کے لیے تم کو درکار ہے ایک چٹ پر لکھ کر دے دو۔ بیوی لکھ کر دے دیتی۔ آپ دکان پر آ کر سب سے پہلے وہ چٹ کھولتے۔ بیوی نے جو چیزیں لکھی ہوتیں۔ اُن کے سامنے اُن چیزوں کی قیمت درج کرتے، پھر اُن کا ٹوٹل کرتے۔ پھر اللہ سے دعا کرتے کہ یااللہ! میں صرف تیرے ہی حکم کی تعمیل میں تیری عبادت چھوڑ کر یہاں دنیا داری کے چکروں میں آ بیٹھا ہوں۔ جوں ہی تو میری آج کی مطلوبہ رقم کا بندوبست کر دے گا۔ میں اُسی وقت یہاں سے اُٹھ جائوں گا اور پھر یہی ہوتا۔ کبھی صبح کے ساڑھے نو، کبھی دس بجے حکیم صاحب مریضوں سے فارغ ہو کر واپس اپنے گائوں چلے جاتے۔
ایک دن حکیم صاحب نے دکان کھولی۔ رقم کا حساب لگانے کے لیے چِٹ کھولی تو وہ چِٹ کو دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے۔ ایک مرتبہ تو ان کا دماغ گھوم گیا۔ اُن کو اپنی آنکھوں کے سامنے تارے چمکتے ہوئے نظر آ رہے تھے لیکن جلد ہی انھوں نے اپنے اعصاب پر قابو پا لیا۔ آٹے دال وغیرہ کے بعد بیگم نے لکھا تھا، بیٹی کے جہیز کا سامان۔ کچھ دیر سوچتے رہے پھر باقی چیزوں کی قیمت لکھنے کے بعد جہیز کے سامنے لکھا ’’یہ اللہ کا کام ہے اللہ جانے۔‘‘
ایک دو مریض آئے ہوئے تھے۔ اُن کو حکیم صاحب دوائی دے رہے تھے۔ اسی دوران ایک بڑی سی کار اُن کے مطب کے سامنے آ کر رکی۔ حکیم صاحب نے کار یا صاحبِ کار کو کوئی خاص توجہ نہ دی کیونکہ کئی کاروں والے ان کے پاس آتے رہتے تھے۔
دونوں مریض دوائی لے کر چلے گئے۔ وہ سوٹڈبوٹڈ صاحب کار سے باہر نکلے اور سلام کرکے بنچ پر بیٹھ گئے۔ حکیم صاحب نے کہا کہ اگر آپ نے اپنے لیے دوائی لینی ہے تو ادھر سٹول پر آجائیں تاکہ میں آپ کی نبض دیکھ لوں اور اگر کسی مریض کی دوائی لے کر جانی ہے تو بیماری کی کیفیت بیان کریں۔
وہ صاحب کہنے لگے حکیم صاحب میرا خیال ہے آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ لیکن آپ مجھے پہچان بھی کیسے سکتے ہیں؟ کیونکہ میں ۱۵، ۱۶ سال بعد آپ کے مطب میں داخل ہوا ہوں۔ آپ کو گزشتہ ملاقات کا احوال سناتا ہوں پھر آپ کو ساری بات یاد آجائے گی۔ جب میں پہلی مرتبہ یہاں آیا تھا تو وہ میں خود نہیں آیا تھا۔ خدا مجھے آپ کے پاس لے آیا تھا کیونکہ خدا کو مجھ پر رحم آگیا تھا اور وہ میرا گھر آباد کرنا چاہتا تھا۔ ہوا اس طرح تھا کہ میں لاہور سے میرپور اپنی کار میں اپنے آبائی گھر جا رہا تھا۔ عین آپ کی دکان کے سامنے ہماری کار پنکچر ہو گئی۔
ڈرائیور کار کا پہیہ اتار کر پنکچر لگوانے چلا گیا۔ آپ نے دیکھا کہ میں گرمی میں کار کے پاس کھڑا ہوں۔ آپ میرے پاس آئے اور آپ نے مطب کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ادھر آ کر کرسی پر بیٹھ جائیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ میں نے آپ کا شکریہ ادا کیا اور کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔
ڈرائیور نے کچھ زیادہ ہی دیر لگا دی تھی۔ ایک چھوٹی سی بچی بھی یہاں آپ کی میز کے پاس کھڑی تھی اور بار بار کہہ رہی تھی ’’چلیں ناں، مجھے بھوک لگی ہے۔ آپ اُسے کہہ رہے تھے بیٹی تھوڑا صبر کرو ابھی چلتے ہیں۔
میں نے یہ سوچ کر کہ اتنی دیر سے آپ کے پاس بیٹھا ہوں۔ مجھے کوئی دوائی آپ سے خریدنی چاہیے تاکہ آپ میرے بیٹھنے کو زیادہ محسوس نہ کریں۔ میں نے کہا حکیم صاحب میں ۵،۶ سال سے انگلینڈ میں ہوتا ہوں۔ انگلینڈ جانے سے قبل میری شادی ہو گئی تھی لیکن ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔ یہاں بھی بہت علاج کیا اور وہاں انگلینڈ میں بھی لیکن ابھی قسمت میں مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔
آپ نے کہا میرے بھائی! توبہ استغفار پڑھو۔ خدارا اپنے خدا سے مایوس نہ ہو۔ یاد رکھو! اُس کے خزانے میں کسی شے کی کمی نہیں۔ اولاد، مال و اسباب اور غمی خوشی، زندگی موت ہر چیز اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ کسی حکیم یا ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی دوا میں شفا ہوتی ہے۔ شفا اگر ہونی ہے تو اللہ کے حکم سے ہونی ہے۔ اولاد دینی ہے تو اُسی نے دینی ہے۔
مجھے یاد ہے آپ باتیں کرتے جا رہے اور ساتھ ساتھ پڑیاں بنا رہے تھے۔ تمام دوائیاں آپ نے ۲ حصوں میں تقسیم کر کے ۲ لفافوں میں ڈالیں۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ میرا نام محمد علی ہے۔ آپ نے ایک لفافہ پر محمدعلی اور دوسرے پر بیگم محمدعلی لکھا۔ پھر دونوں لفافے ایک بڑے لفافہ میں ڈال کر دوائی استعمال کرنے کا طریقہ بتایا۔ میں نے بے دلی سے دوائی لے لی کیونکہ میں تو صرف کچھ رقم آپ کو دینا چاہتا تھا۔ لیکن جب دوائی لینے کے بعد میں نے پوچھا کتنے پیسے؟ آپ نے کہا بس ٹھیک ہے۔ میں نے زیادہ زور ڈالا، تو آپ نے کہا کہ آج کا کھاتہ بند ہو گیا ہے۔
میں نے کہا مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی۔ اسی دوران وہاں ایک اور آدمی آچکا تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ کھاتہ بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آج کے گھریلو اخراجات کے لیے جتنی رقم حکیم صاحب نے اللہ سے مانگی تھی وہ اللہ نے دے دی ہے۔ مزید رقم وہ نہیں لے سکتے۔ میں کچھ حیران ہوا اور کچھ دل میں شرمندہ ہوا کہ میرے کتنے گھٹیا خیالات تھے اور یہ سادہ سا حکیم کتنا عظیم انسان ہے۔ میں نے جب گھر جا کربیوی کو دوائیاں دکھائیں اور ساری بات بتائی تو بے اختیار اُس کے منہ سے نکلا وہ انسان نہیں کوئی فرشتہ ہے اور اُس کی دی ہوئی ادویات ہمارے من کی مراد پوری کرنے کا باعث بنیں گی۔ حکیم صاحب آج میرے گھر میں تین پھول اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔
ہم میاں بیوی ہر وقت آپ کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ جب بھی پاکستان چھٹی آیا۔ کار اِدھر روکی لیکن دکان کو بند پایا۔ میں کل دوپہر بھی آیا تھا۔ آپ کا مطب بند تھا۔ ایک آدمی پاس ہی کھڑا ہوا تھا۔ اُس نے کہا کہ اگر آپ کو حکیم صاحب سے ملنا ہے تو آپ صبح ۹ بجے لازماً پہنچ جائیں ورنہ اُن کے ملنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔ اس لیے آج میں سویرے سویرے آپ کے پاس آگیا ہوں۔
محمدعلی نے کہا کہ جب ۱۵ سال قبل میں نے یہاں آپ کے مطب میں آپ کی چھوٹی سی بیٹی دیکھی تھی تو میں نے بتایا تھا کہ اس کو دیکھ کر مجھے اپنی بھانجی یاد آرہی ہے۔
حکیم صاحب ہمارا سارا خاندان انگلینڈ سیٹل ہو چکا ہے۔ صرف ہماری ایک بیوہ بہن اپنی بیٹی کے ساتھ پاکستان میں رہتی ہے۔ ہماری بھانجی کی شادی اس ماہ کی ۲۱ تاریخ کو ہونا تھی۔ اس بھانجی کی شادی کا سارا خرچ میں نے اپنے ذمہ لیا تھا۔ ۱۰ دن قبل اسی کار میں اسے میں نے لاہور اپنے رشتہ داروں کے پاس بھیجا کہ شادی کے لیے اپنی مرضی کی جو چیز چاہے خرید لے۔ اسے لاہور جاتے ہی بخار ہوگیا لیکن اس نے کسی کو نہ بتایا۔ بخار کی گولیاں ڈسپرین وغیرہ کھاتی اور بازاروں میں پھرتی رہی۔ انارکلی میں پھرتے پھرتے اچانک بے ہوش ہو کر گری۔ وہاں سے اسے میوہسپتال لے گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس کو ۱۰۶ ڈگری بخار ہے اور یہ گردن توڑ بخار ہے۔ وہ بے ہوشی کے عالم ہی میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی۔
اُس کے فوت ہوتے ہی نجانے کیوں مجھے اور میری بیوی کو آپ کی بیٹی کا خیال آیا۔ ہم میاں بیوی نے اور ہماری تمام فیملی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی بھانجی کا تمام جہیز کا سامان آپ کے ہاں پہنچا دیں گے۔ شادی جلد ہو تو اس کا بندوبست خود کریں گے اور اگر ابھی کچھ دیر ہے تو تمام اخراجات کے لیے رقم آپ کو نقد پہنچا دیں گے۔ آپ نے ناں نہیں کرنی۔ آپ اپنا گھر دکھا دیں تاکہ سامان کا ٹرک وہاں پہنچایا جا سکے۔
حکیم صاحب حیران و پریشان یوں گویا ہوئے ’’محمدعلی صاحب آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے سمجھ نہیں آرہا، میرا اتنا دماغ نہیں ہے۔ میں نے تو آج صبح جب بیوی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی چِٹ یہاں آ کر کھول کر دیکھی تو مرچ مسالہ کے بعد جب میں نے یہ الفاظ پڑھے ’’بیٹی کے جہیز کا سامان‘‘ تو آپ کو معلوم ہے میں نے کیا لکھا۔ آپ خود یہ چِٹ ذرا دیکھیں۔ محمدعلی صاحب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ’’بیٹی کے جہیز‘‘ کے سامنے لکھا ہوا تھا ’’یہ کام اللہ کا ہے، اللہ جانے۔‘‘
محمد علی صاحب یقین کریں، آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ بیوی نے چِٹ پر چیز لکھی ہو اور مولا نے اُس کا اسی دن بندوبست نہ کردیا ہو۔ واہ مولا واہ۔ تو عظیم ہے تو کریم ہے۔ آپ کی بھانجی کی وفات کا صدمہ ہے لیکن اُس کی قدرت پر حیران ہوں کہ وہ کس طرح اپنے معجزے دکھاتا ہے۔
حکیم صاحب نے کہا جب سے ہوش سنبھالا ایک ہی سبق پڑھا کہ صبح ورد کرنا ہے ’’رازق، رازق، تو ہی رازق‘‘ اور شام کو ’’شکر، شکر مولا تیرا شکر۔‘‘

Nice information for you,
Who's Terrorist......?
Maimuna
Class 4th
Islamic leycum school, Muslim Calony Multan


Annual function 2015 two three & four classes
Yes, We are Muslims
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Location
Category
Contact the school
Telephone
Website
Address
Islamia Sadiq Public School, Muhala Awan Pura, Multan
Multan
ISPSS561
GHSS Kot Mela Ram
Multan, 6000
We believe that a happy child is a successful one. We are committed to providing a positive, safe an
Hassanabad, Khanewal Road
Multan
Heaven Flower School is a financially assisted school registered by PEF providing quality education
Ghulsahn E Multan Samjhabad#1 Street #5
Multan, 66000
Our mission is to be a progressive,high-quality education system that connects students with intelle
Chah Naseem Wala, Moza Kotla Abu Al Fateh PO Industrial Estate
Multan
An Institution which believes on quality education. No compromise on study.
Multan, 66000
sameer public model Girls and Boys high school hamid pur kanora multan...
147, Taunsa Street, Garden Town
Multan
British International School System Updated Page About Al-Khaliq Campus
Adden Street Gulshan Iqbal Colony Qasim Bela
Multan, 2020
Knowledge is the best thing of the world.
Railway Road, Near Chowk Aziz Hotel
Multan, 60000
Our Mission is to spread knowledge and brighten our world. Our Dedicated team is ambitiously strivin