Govt Boys Higher Secondary School Bhaini Multan

Govt Boys Higher Secondary School Bhaini Multan

Share

Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Govt Boys Higher Secondary School Bhaini Multan, High School, Budhla Road, Multan.

Operating as usual

12/05/2021

میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے
امتحانات کے حوالے سے حتمی فیصلہ ہو گیا
وفاقی دارلحکومت اسلام آباد، پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت ملک بھر تمام 7 وزرا تعلیم نے اتفاق کیا ہے کہ اس سال
فرسٹ اٸیر اور 9th سمیت کسی بھی کلاس کو گزشتہ سال کی طرح بغیر امتحان لیے پروموٹ نہیں کیا جاٸے۔
تاہم
اس بار امتحانوں کی ترتیب میں تبدیلی کی گٸی ہے
جس کی روشنی میں کلاس 10th اور سیکنڈ اٸیر کے سٹوڈنٹس نے چونکہ
آگے کالجز یا یونیورسٹیز میں داخلہ لینا ہوتا ہے
اس لٸے ان کے پیپر پہلے لیے جاٸیں گے
جبکہ 9th اور فرسٹ اٸیر کے امتحانات بعد میں ہونگے
حتمی تواریخ درج ذیل ہیں:
*میٹرک 10th کلاس 19 جون
*انٹرمیڈیٹ 12th کلاس 6 جولاٸی
*میٹرک 9th کلاس 20 جولاٸی
*انٹرمیڈیٹ 11th کلاس 5 اگست

میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے پریکٹیکلز نہیں ہونگے
پریکٹیکلز کے 50 فیصد مارکس تمام سٹوڈنٹس کو مل جاٸیں گے جبکہ بقیہ 50 فیصد مارکس پارٹ سیکنڈ کی تھیوری کے مارکس کی اوسط کے حوالٕے سے ملیں گے
اس کے علاوہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ پارٹ سیکنڈ کا کوٸی سٹوڈنٹ جتنے مارکس پارٹ سیکنڈ میں حاصل کرے گا
اتنے ہی مارکس اسکو پارٹ فرسٹ میں دے دیے جاٸیں گے
تاہم رواں سال میٹرک اور انٹرمیڈیٹ پارٹ سیکنڈ کے وہ سٹوڈنٹس جن کا گزشتہ سال پارٹ فرسٹ کا امتحان نہیں ہوا تھا
ان کو پارٹ فرسٹ میں 3 فیصد اضافی مارکس دینے کی تجویز پر فیصلہ نہ ہو سکا۔
وفاقی وزیرتعلیم کا کہنا ہے صوبوں کی مرضی کے مطابق مذکورہ بالا تاریخوں میں دو یا تین روز کا اگلے سال بھی تمام کلاسز میں سمارٹ سلیبس ہی اپلاٸی ہو گا تاہم اس میں معمولی ردوبدل ہوسکتا ہے۔

10/04/2021
Allama Iqbal Open University 03/02/2021

*Assignment Last Date*
*السلام وعلیکم*

اسائنمنٹ جمع کروانے کی آخری تاریخ نوٹ فرمائے۔

میٹرک اور ایف اے کلاسز کے لیے تمام اسائنمنٹ جمع کروانے کی آخری تاریخ *20 فروری 2021* ہے۔

بی اے بی کام اولڈ یا بی اے بی کام ایسوسی ایٹ ڈگری کلاسز کے لیے تمام اسائنمنٹ جمع کروانے کی آخری تاریخ *15 اپریل 2021* ہے۔

ایم اے، ایم ایس سی اور ایم ایڈ کلاسز کی پہلی اسائنمنٹ جمع کروانے کی آخری تاریخ *28 فروری 2021* ہے۔

بی ایڈ، ADE, ADB, ADC کلاسز کی پہلی اسائنمنٹ جمع کروانے کی آخری تاریخ *21 فروری 2021* ہے۔

ٹیوٹر لسٹ یونیورسٹی صرف ویب سائٹ پر اپلوڈ کرے گی۔ جس کو حاصل کرنے کا لنک یہ ہے۔
*aiou.edu.pk/*

*اسائنمنٹ کی آخری تاریخ میں کوئی توسیع ہوئی تو اطلاع دے دی جائے گی۔ شکریہ*

Allama Iqbal Open University

01/02/2021

وفاقی وزارت تعلیم نے وفاقی سرکاری تعلیمی اداروں کے لیے تعلیمی سیشن 2020-21 کا کلینڈر جاری کر دیا ہے۔وزارت تعلیم کے مطابق نیا تعلیمی سال 2 اگست سے شروع ہو گا۔موسم گرما چھٹیوں کا دورانیہ کم کر کے ایک ماہ کر دیا گیا ہے جو کہ 2 سے 31 جولائی تک ہوں گی۔نوٹیفیکیشن کے مطابق پانچویں اور آٹھویں کے مرکزی امتحانات 18 سے 31 مئی تک ہوں گے۔
پہلی سے چوتھی اور چھٹی اور ساتیوں کے امتحانات ادارے یکم سے 15 جون تک لیں گے۔وزارت تعلیم کی جانب سے جاری کردہ کینلڈر کے مطابق پانچویں اور آٹھویں کر مرکزی امتحانات کے نتائج کا اعلان 30 جون کو ہو گا جب کہ پہلی سے چوتھی اور ساتویں آٹھویں کے امتحانات کے نتائج کا اعلان یکم جولائی کو کیا جائے گا۔

31/01/2021

📚
*"ھ" اور "ہ" مـیں فرق

"ھاں" اور "ہاں" کیا دونوں ٹھیک ہیں؟ اسی طرح "ہم" اور "ھم" اگر فرق ہے تو کیا ہے؟

👈اردو میں دو چشمی *ھ* کا استعمال کمپاؤنڈ حروف تہجی بنانے کے لئے ہوتا ہے۔ مثلاً:
بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، گھ، اور لھ وغیرہ۔

بعض جگہوں پر خوب صورتی یا کسی اور وجہ سے لوگ ابتدا میں *ھ* کا استعمال کرتے ہیں مثلاً "ھم"، "ھماری" اور "ھاں" وغیرہ .

لیکن یہ استعمال درست نہیں ہے۔ اول تو یہ کہ اردو میں *ھ* ابتداء لفظ میں کبھی آ ہی نہیں سکتا۔

کیوں کہ دوچشمی ‘‘ھ’’ کی اکیلی مستقل آواز نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے حرف کے ساتھ ملا کر لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ دو چشمی *ھ* اردو میں ہندی زبان سے اخذ کی گئی ہے اور یہ صرف چند حروف کے ساتھ ہی آسکتی ہے، اردو کے تمام حروف تہجی کے ساتھ نہیں آسکتی مثلاً:
بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، گھ، اور لھ وغیرہ۔
اس کے علاوہ باقی حروف کے ساتھ دوچشمی *ھ* نہیں آتی، جبکہ ‘‘ *ہ* ’’ کی الگ مستقل آواز ہوتی ہے۔
ذیل میں دوچشمی *ھ* اور *ہ* کے چند جملے لکھے جارہے ہیں، انہیں پڑھ کر آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ ان دونوں کے پڑھنے میں کیا فرق ہے اور اُردو زبان میں یہ دو مختلف ھ/ہ الگ الگ کیوں رائج ہیں:

"ھ" 👈 *بھ*: ننھے منے بچے سب کے من کو *بھاتے* ہیں۔
"ہ"👈 *بہ*: لاپرواہ لوگ پانی زیادہ *بہاتے* ہیں۔

"ھ"👈 *پھ*: بچے نے کاپی کا صفحہ *پھاڑ* دیا۔
"ہ"👈 *پہ* : *پہاڑ* پر چڑھنا ایک دشوار کام ہے۔

"ھ"👈 *تھ* : میرا ایک دوست *تھائی لینڈ* میں رہتا ہے۔
"ہ"👈 *تہ*: ابھی تک صرف ایک *تِہائی* کام ہوا ہے۔
"ھ"👈 *ٹھ* : ان دونوں کی آپس میں *ٹھنی* ہوئی ہے۔
"ہ"👈 *ٹہ*: درخت کی *ٹہنی* پر چڑیا *چہچہا* رہی ہے۔

"ھ"👈 *جھ*: آج فضا *بوجھل* سی ہے۔
"ہ"👈 *جہ* : *ابوجہل* اسلام کا سخت دشمن تھا۔

"ھ"👈 *چھ*: ڈاکٹر نے مریض کے جسم سے گولی کا *چَھرّا* نکال دیا ، یا قربانی کے جانور کے گلے پر *چُھرا* پھیر دو۔
"ہ"👈 *چہ*: اس کا *چہرہ* خوشی سے کِھلا پڑ رہا تھا۔

"ھ"👈 *دھ*: یار میرا *دھندہ* خراب مت کرو۔
"ہ"👈 *دہ*: وہ اس کا نجات *دہندہ* بن کر آیا۔

*نوٹ*:- *ڈ* کے ساتھ ‘‘ہ’’ اور *ر* کے ساتھ "ھ" کا جملہ نہیں آتا۔

"ھ"👈 *ڑھ*: میرے گھر کے آگے ڈم ڈم کی *باڑھ* لگی ہوئی ہے۔
"ہ"👈 *ڑہ*: میرے گھر کے پاس بھینسوں کا *باڑہ* ہے۔

"ھ"👈 *کھ*: میرا قلم *کھو* گیا ہے۔
"ہ"👈 *کہ*: ہاں اب *کہو*! کیا *کہنا* چاہ رہے تھے۔

"ھ"👈 *گھ*: جنگلات میں *گھنے* درخت ہوتے ہیں۔
"ہ"👈 *گہ*: اس نے اپنی شادی پر *گہنے* اور دیگر زیورات پہنے ہوئے تھے۔

یہ جملے صرف دوچشمی "ھ" اور "ہ" کے آپس میں فرق واضح کرنے کے لیے بطور مثال لکھے ہیں، اُمّید ہے اس سے آپ مستفید ہوں گے-
🌹🌹🌹

27/01/2021

اس وقت تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جبکہ ” سپر پاور ” امریکا 20ویں نمبر پر ہے۔2020ء تک فن لینڈ دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں مضمون ( سبجیکٹ ) نام کی کوئی چیز اسکولوں میں نہیں پائی جاتی، فن لینڈ کا کوئی بھی اسکول زیادہ سے زیادہ 195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ 19 بچوں پر ایک ٹیچر۔

دنیا میں سب سے لمبی بریک بھی فن لینڈ میں ہی ہوتی ہے، بچے اپنے اسکول ٹائم کا 75 منٹ بریک میں گزارتے ہیں، دوسرے نمبر پر 57 منٹ کی بریک نیو یارک کے اسکولوں میں ہوتی ہے جبکہ ہمارے یہاں اگر والدین کو پتہ چل جائے کہ کوئی اسکول بچوں کو ” پڑھانے” کے بجائے اتنی لمبی بریک دیتا ہے تو وہ اگلے دن ہی بچے اسکول سے نکلوالیں۔خیر، آپ دلچسپ بات ملاحظہ کریں کہ پورے ہفتے میں اسکولوں میں محض 20 گھنٹے ” پڑھائی ” ہوتی ہے۔ جبکہ اساتذہ کے 2 گھنٹے روز اپنی ” اسکلز ” بڑھانے پر صرف ہوتے ہیں۔

سات سال سے پہلے بچوں کے لیےپورے ملک میں کوئی اسکول نہیں ہے اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان بھی نہیں ہے۔ ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے ” میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کہ ہر سوال کو با آسانی حل کرسکتے ہیں “۔

آپ جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھا یا جاتا ہے اور وہ ” اخلاقیات ” اور ” آداب ” ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا “جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں “۔ مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علیؓ کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی۔ بہر حال، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے۔

ہمارے ایک دوست جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔اشفاق احمد صاحب مرحوم کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انہوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے ۔ یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز۔

جاپان میں معاشرتی علوم ” پڑھائی” نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہےپڑھانے کی نہیں اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔ جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔

دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں
جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے، ہمارے بچے ” پبلشرز ” بن چکے ہیں۔ آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیںاور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود نمبر بھی دے دیتے ہیں،
بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کردیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں، جن کے بچے فیل ہوجاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو ” کوڑھ مغز ” اور ” کند ذہن ” کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔ ہم 13، 14 سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کر کے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں، جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے ۔طالبعلموں کا اسکول میں سارا وقت سائنس ” رٹتے ” گزرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میں کوئی ” سائنس دان ” نامی چیز نظر نہیں آئے گی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس ” سیکھنے ” کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی ” رٹّا” لگواتے ہیں۔آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس ” پاسنگ مارکس ” 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کردیے گئے اور ہم میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں
۔علامہ اقبال ؒ کے شعر کا یہ مصرعہ اس تمام صورتحال کی صیح طریقے سے ترجمانی کرتا نظر آتا ہے کہ
۔۔شاخ نازک پر بنے گا جو آشیانہ ، ناپائیدار ہو گا...

Want your school to be the top-listed School/college in Multan?

Click here to claim your Sponsored Listing.

Location

Category

Website

Address


Budhla Road
Multan
60600

Opening Hours

Monday 07:00 - 14:00
Tuesday 07:00 - 14:00
Wednesday 07:00 - 14:00
Thursday 07:00 - 14:00
Friday 07:00 - 12:00
Saturday 07:00 - 14:00