عوام خدا کے بعد سب سے بڑی طاقت ہے۔ اسے نفسیاتی طور پر مفلوج کر کے کنٹرول اور غلام بنایا جاتا ہے۔
Muhammad Nawaz
Education & knowledge
Operating as usual
آزادی اظہارِ رائے
آزادی اظہار رائے ایک بنیادی انسانی حق ہے اور آئین پاکستان اس کی ضمانت دیتا ہے۔
مذہبی ، اخلاقی اور ثقافتی اقدار کے منافی مواد کے علاوہ آزادی اظہارِ رائے کو روکنے کے کسی بھی قانون، ضابطے اور حکم نامے کی کوئی حیثیت نہیں۔۔
اگر کسی شخص محکمے یا ادارے کو کسی کی بات پر کوئی اعتراض ہے تو وہ ہتک عزت اور دوسرے قوانین کے تحت قانوئی کاروائی کا حق رکھتا ہے۔
نوٹ: بولنے سے وہاں روکا جاتا ہے جہاں کچھ چھپانے کے لیے ہو۔
(محمد نواز/21 اگست 2022)
کسی بھی سیاسی قیدی پر کسی قسم کا کوئی بھی تشدد ایک غیر انسانی فعل ہے۔ انگریز نے اسی لیے سیاسی قیدیوں کے لیے جیل میں الگ جگہ بنائی تھی کیونکہ سیاسی لوگ جرم کی بجائے نظریاتی و سیاسی اختلاف وجہ سے جیلوں میں جاتے ہیں جبکہ سیاسی و نظریاتی اختلاف کوئی جرم نہیں ہوتا۔ یہ کہنا سرا سر غلط ہے کہ سیاسی قیدیوں کو عام مجرموں کی طرح زیر عتاب لایا جائے۔
سیاسی اور نظریاتی تغیرات ہی معاشرے میں تبدیلی اور نمو لاتے ہیں۔ انہی نظریات کی وجہ سے غاصبانہ نظام کا خاتمہ ہوتا ہے اور معاشی ومعاشرتی مساوات قائم ہوتی ہے۔
اکثر سیاستدان زندگیاں جیلوں میں گزار دیتے ہیں یا قتل کر دیے جاتے ہیں جو کہ ان کے نظریات اور سیاسی اختلاف کی قیمت ہوتی ہے۔
نتیجہ: سیاسی و نظریاتی اختلاف کوئی جرم نہیں یہ معاشی و معاشرتی بہتری کے لیے اشد ضروری ہے۔ غاصب نظام ہمیشہ مختلف سوچ کو کچلنے کی کوشش کرتا آیا ہے ۔ پسں سیاسی و نظریاتی اختلاف کا احترام نہایت اہم اور ضروری ہے۔
(محمد نواز/19اگست 2022)
۔
ریاست کسے کہتے ہیں۔؟
ریاست ایک جغرافیائی خطہ، جس کی قوم ہو، اس کا نظام ہو اور وہ خودمختار ہو ریاست کہلاتا ہے۔
ریاست چار اجزا سے مل کر بنتی ہے۔
1. علاقہ یا خطہ جس کی حدود ہوں۔
2. منظم عوام جو کہ ایک قوم کی شکل ہو۔
3.سسٹم یا نظام جو کی حکومت کی شکل میں ہو۔
4. خودمختار یعنی فیصلہ کرنے میں آ زاد۔
مثال:-
یہی وجہ ہے کہ آپ
1- انٹارکٹیکا کو ریاست نہیں کہتے جبکہ وہ ایک زمین ہے اور اس کی جغرافیائی حدود بھی ہیں۔
2-افریقہ کی جنگلی قوم کو ریاست نہیں کہتے۔ حالانکہ عوم موجود ہے۔
3-انٹارکٹیکا کا نظام اقوام متحدہ نے بنایا ہے ، وہاں آ نے جانے کے قواعد ہیں۔ صرف نظام سے ریاست نہیں بنتی۔
4-افریقہ کے جنگلی لوگوں کے پاس وسیع علاقہ اور ان کی اپنی زبان ہونے کے باوجود وہ ریاست نہیں کیں کہ ان کا اپنا نظام نہیں۔
5-گرین لینڈ ایک بہت بڑا خوشحال ملک ہے لیکن خودمختار نہ ہونے کی وجہ سے ریاست نہیں۔
نوٹ۔ جن کو لوگ ریاست سمجھ رہے ہیں وہ ریاست نہیں ہیں۔ وہ ریاستی ملازم یا اہلکار ہیں جو کہ درجہ سوم کے تحت آتے ہیں
محمد نواز
10/12/2021
ذراعت ایک لازمی مضمون :
ذراعت کی پیداوار میں اضافے اور جنگلات کی ترقی کے لیے ذراعت کا مضمون میٹرک (نویں، دسویں) اور انٹرمیڈیٹ ( گیارہویں،بارہویں )کے لیے لازم قرار دینا چاہیے۔ تاکہ طالبہ میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد بھی ملک پر بوجھ بننے کی بجائے ملکی پیداوار میں اضافےکے قابل ہو جائیں۔
ذرعی تعلیم کے فوائد :-
(ا)-چھوٹے پیمانے پر بڑی تعداد میں ذرعی قطعات بنجر پڑھے ہیں ،ان پر سبزیاں،دالیں اور دوسری فصلیں کاشت کی جا سکتی ہیں۔
(ب)-گھریلوں سطح پر، باغیچوں ،کیاریوں اور گملوں میں سبزیوں کی پیداوار سے بھی تازہ اور صحتِ مند سبزیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔
(ج)-پھلدار پودوں کی کاشت، شاخ تراشی اور قلم کاری کا علم بھی ان کی تعداد اور پیداوار میں اضافے کا باعث بنے گا۔
(د)- مرغ بانی اور جانوروں کی افزائش،صفائی و صحت کا علم بھی گھریلو سطح پر ڈیری پیداور میں اضافے کا باعث بنے گا۔
نتیجہ: ذراعت کا بنیادی علم ہر طالب علم کے لیے فائدہ مند اور ضروری ہے تا کہ۔
(ا)-محدود پیمانے پر بھی اس علم کے استعمال سے ملکی پیداوار میں اضافے سے بے روزگاری اور مہنگائی میں کمی لائے جا سکے۔ گھریلو ضروریات پوری کرنے کے علاوہ اضافی پیداوار کی منڈی میں فروخت سے آمدنی بھی حاصل کی جاسکتی ہے، جو گھر کی خوشحالی کا باعث بنے گی۔
(ب)-یہ علم کل ملکی غذائی ضروریات کے تحفظ کا بھی باعث بنے گا ۔
(ج)- خوراک کی کمی یا ذخیرہ اندازی سے مہنگائی کے اثر کی زائل کرے گا۔
(د)- گھریلوں پیداوار سے پرانی اور غیر معیاری خوراک سے بچا جائے گا،جو صحت مند معاشرہ بنانے میں مدد گار ثابت ہو گا۔
( محمد نواز /1 مئی 2023)
قومی خزانے میں پسے کیوں نہیں؟۔
پاکستان میں خزانہ خالی ہونی کی دو وجوہات ہیں۔
1- دفاعی سازوسامان
پاکستان دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے جو امریکہ اور یورپ سے جنگی سازوسامان خریدتا ہے۔ چونکہ بیرونی دنیا سے ڈالرز میں خریدوفروخت کی جاتی ہے اس لیے زرمبادلہ کے ساتھ ساتھ بھاری قرض بھی لے کر خرچ کیا جاتا ہے۔ ان اخراجات کا سالانہ دفاعی بجٹ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کو دفاعی بجٹ میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ دفاعی بجٹ اور دوسرے اخراجات ملا کر دفاعی اخراجات بجٹ کےستر سے اسی فیصد تک پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں تک تیل ، ادویات اور دوسری اشیاء درآمد کرنے کا سوال ہے تو ان کا بوجھ مذکورہ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
2- حکومتی پیسے کی کثیر تعداد سرکاری اشرافیہ کی مراعات پر خرچ ہوتی ہیں۔ جس کا تخمینہ 14 سے 16 ارب ڈالر سالانہ بنتا ہے۔ یہ انگریزی کا بنیا ہوا مراعات کا نظام ابھی تک جاری ہے جو کہ ادارہ جاتی کرپشن کی ایک قسم ہے۔
نتیجہ: پاکستان کے لامحدود دفاعی اخراجات اور انگریز کے بنائے ہوے بھاری مراعات کے نظام نے عام عوام کو تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا ہے۔ حکومت کے پاس عوام پر خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں بچتا ۔ چنانچہ ملک میں بے روزگاری، مہنگائی اور لاقانونیت ایک فطرتی امر ہے۔
بہتری۔ بیرونی قرض اور مراعات پر صرف ہونے والی رقم تعلیم، صحت ،زراعت اور صنعتی ترقی پر خرچ ہونی چاہیے تاکہ ملک قرص والی غلام معیشت سے نکل کر پیداواری معیشت کی طرف بڑھے۔ اگر اس غاصبانہ نظام میں بہتری نہ لائی گئی تو پاکستان کی معیشت خراب سے خراب تر ہو گی ، چاہے کوئی بھی حکومت آئے ۔
نوٹ:١-کرپشن دنیا کے ہر ملک میں ہوتی ہے کسی میں زیادہ اور کسی میں کم۔ قومیں ناانصافی کے نظام سے تباہ ہوتی ہیں۔
٢-حکومتیں مطلق کرپشن نہیں کر سکتیں۔ حکومتوں کا کام معاشرے اور اداروں کو کرپشن سے روکنا ہوتا ہے۔ اسی طرح سیاست دانوں پر زیادہ تر کرپشن کے الزامات ہوتے ہیں تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جاسکے ۔
(محمد نواز/2جون 2022)
کسی بھی بچت کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں۔
اگر روس اور یوکرین سے سستا تیل اور گندم لے بھی لیں تو جو زرمبادلہ بچے گا وہ پھر بھی عوام پر خرچ نہیں ہوگا۔ جیسے سبسڈی ختم کرنے سے جو اضافی آمدنی حاصل ہو رہی ہے وہ عوام کے فلاحی منصوبوں پر خرچ نہیں ہو رہی۔
نتیجہ:پہلے بنیادی مسائل کا ادراک اور ان کی درستگی لازمی ہے۔ غلط بنیادوں پر ناپائیدار عمارت ہی تعمیر ہوتی ہے۔پاکستان کے بنیادی معاشی ڈھانچے میں تبدیلی کی ضرورت ہے جو باقی دنیا کے ہم آہنگ ہو ۔ اس وقت پاکستانی ایک یکتا ماحول میں پرورش پارہے ہیں۔
(محمد نواز /٣جون٢٠٢٢ )
پارٹنرشپ
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پارٹنرشپ میں چلتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ باری باری ہر ایک کے ساتھ پارٹنرشپ کرتی ہے۔ جو پارٹنرشپ سے باہر ہوتا ہے وہ انقلابی بن جاتا ہے۔ جو پارٹنرشپ میں ہوتا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے لیے وقف ہوتا ہے۔
پارٹنرشپ ایک گول چکر ہے جو عوام کو مایوسی کے بعد امید اور امید کے بعد مایوسی کے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔ اس سےبہتری کی صورت کبھی نہیں نکل سکتی۔
نتیجہ: پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما کسی حد تک اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں ہیں اور یہ سیاسی جماعتیں چاہتے ہوے بھی کوئی خاظر خواہ بہتری نہیں لاسکتی۔ ان سیاسی جماعتوں کو بھی بغیر اختیار کے ہی اقتدار ملتا ہے۔
بہتری: عوام کو سیاسی جماعتوں سے ہٹ کر خود اپنے مسائل کی وجوہات کو سمجھ کر ان کا تدارک کرنا یے۔
نوٹ: دنیا میں عوامی انقلاب بغیر لیڈر کے ہوتا ہے ، عوام کی ایک سوچ ان کی لیڈر ہوتی ہے۔ یورپ اور فرانس کے انقلاب میں کوئی لیڈر نہیں تھا۔
(محمد نواز /٣جون ٢٠٢٢ )
Damage control phenomenon
(اختیار کسی اور کا , ذمہ داری کسی اور کی)
یہ ایک ایسا phenomenon ہےجس کے تحت کوئی شخص، ادارہ یا گروہ اپنی غلطی ، بدعنوانی یا ظلم وجبر کو چھپانے اور سزا سے بچنے کے لیے ذمہ دار کسی دوسرے کو ٹھہراتا ہے۔ یعنی اختیا کسی اور کا اور ذمہ داری کسی اور کی۔
جیسے پہلے پی ٹی آئی کو damage control کے طور پر استعمال کر کے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو بدنام کیا گیا ، اب ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو damage control کے طور ہر استعمال کر کے پی ٹی آئی کو بدنام کیا جائے گا۔ 1971 میں بھی ذولفقار علی بھٹو کو استعمال کر کے damage control کیا گیا تھا۔ اور بعد میں بھٹو کے خلاف اسلامی نظام کو damage control کے تحت استعمال کیا گیا۔ نیوٹرل ہونا بھی damage control کا حصہ یے۔
نتیجہ: اصل کردار damage control کے تحت عوام کی نظروں سے ہمیشہ بچتے اور چھپتے رہے گے۔پس تحقیق سے نتائج اخذ کرنے ہوں گے۔
محمد نواز
١٤/اپریل/٢٠٢٢
تنقید ایک بنیادی حق
عوام کسی بھی ادارے ، محکمے یا اس کے کسی بھی فرد کی کارکردگی پر تنقید کر سکتے ہیں- یہ سب عوام کے ملازم ادارے ہیں۔ جو بھی عوام کے ٹیکسوں سے معاوضہ لیتا ہے وہ عوام کو جواب دہ ہے۔ جہاں تنقید سے روکا جاتا ہے وہاں کچھ چھپانے کے لیے ہوتا ہے۔ اور یہاں چھپانے کے لیے کرپشن اور لاقانونیت ہے۔
تنقید یا آزادی رائےکو روکنے والا کوئی بھی قانون عوام کلی طور پر مسترد کرتی ہے۔
ہر محکمے اور ادارے کو تنقید کی کسوٹی سے گزارنا ہر شہری کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
تنقید ایک سنت طریقہ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تنقید یا تو اصلاح کرتی ہے یا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
محمد نواز
١٦/اپریل/٢٠٢٢
پاکستان میں حکومتوں کا وقت پورا نہ کرنے کی بنیادی وجہ
١-اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے تمام وزراءاعظم کو وقت سے پہلے گھر بھجوایا گیا ہے، اس کی بڑی وجہ عوام کے شعوری ارتقاء کو روکنا ہے، تاکہ وہ کارکردگی کی بجائے ظلم سے گھر بھیجے گئے مظلومیت کے شکار پرانے نمائندوں کو دوبارہ ووٹ دیتے رہیں اس طرح نمائندوں کی فلٹریشن کا عمل سست پڑنے سے غاصب نظام میں تبدیلی نہ لائی جاسکے۔۔
٢- دوسرا محکموں کے مالی مفادات اور وسائل کا حصول اس بات کا متقاضی ہے کہ حکومتوں کو کمزور رکھا جائے اور ان کو وقت سے پہلے فارغ کر کے ان کے خلاف کرپشن کا بیانیہ بنا کر عوام کو ان اس کے پیچھے لگا کر اپنا بچاؤ کیا جائے۔
نتیجہ: بڑھتا ہوا عوامی شعور مالی مفادات کے بنیادی مسئلے سے آگاہ ہو رہا ہے۔ اور یہ بڑھتی آگاہی اس غاصب نظام کی بنیادیں ہلا رہی ہیں۔
(محمد نواز/31 مارچ 2022)
عدلیہ کی انتظامی آزادی انصاف کے لیے تباہ کن۔
عدلیہ صرف فیصلہ کرنے میں آزاد ہونی چاہیے ،جبکہ انتظامی طور کنٹرول میں رہنا ضروری ہے۔ انتظامی آزادی کی وجہ سے ملک میں انصاف کا بہران پیدا ہوگیا ہے ۔ لاکھوں کی تعداد میں مقدمات التواء کا شکار ہیں۔ عوام کی زندگیاں مقدمات میں گزر جاتی ہیں لیکن مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے۔ عدلیہ کا نظام بہتر کرنااور ججوں کا احتساب ناممکن ہو چکا ہے۔
حکومتیں عوام سے ووٹ لینے اور وعدوں کے باوجود عدالتی نظام کو بہتر کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں ، کیونکہ عدالتیں انتظامی طور پرحکومت اور پارلیمنٹ کے کنٹرول میں نہیں۔
نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ججز اپنے آپ کو حکومتی ملازم ماننے سے انکاری ہیں۔ جبکہ حکومت(ریاست) کے تین ادارے ہوتے ہیں ، پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ۔ یہ بیانیہ بنایا گیا ہے کہ صرف انتظامیہ ہی حکومت ہےاور عدلیہ ایک علیحدہ آزاد ادارہ ہے۔ جبکہ حقیقت میں انتظامیہ تو صرف حکومت کا ایک ادارہ ہے ۔ حکومت اسے کہتے ہے جس کا حکم نامہ پورے ملک پر چلے۔
حکومت انتظامیہ کو براہ راست کنٹرول کرتی ہے جبکہ پارلیمنٹ حکومتی ارکان کی اکثریت اور عدلیہ کو حکومت قوانین کے ذریعے چلاتی ہے ۔
ہر شخص جو قومی خزانے سے تنخواہ وصول کرتا ہے وہ سرکاری ملازم ہے۔ ریاست اس ملک کو کہتے ہیں جو خود مختار ہو۔ یہ بیانیہ بھی بنایا گیا ہے کہ ریاستی ملازم ، ریاستی ملازم بھی حکومتی ملازم ہوتا ہے۔ گھر کا ملازم درحقیقت گھر کے مالک کا ملازم ہوتا ہے
ججز سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آپ کی حکومت کون ہے۔ اگر حکومت کا حکم نامہ پورے ملک پر نہیں چلے گا تو افراتفری، فساد ، لاقانونیت، من مانی اپنے عواج پر ہوگی۔ لہزا عدالتی بہران کا پیدا ہونا ایک فطری نتیجہ ہے۔
خلاصہ: کسی بھی محکمے ، ادارے یا فرد کو اپنے دائرے سے باہر نکلنے کی اجازت دی جائے گی تو وہ پورے معاشرے کی تباہی کا باعث بنے گا۔ لاقانونیت اور من مانی اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکلنے کا دوسرا نام ہے۔
نتیجہ: عدالتی بہران اور انصاف کی اب تر حالت سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ عدالتی نظام میں بنیادی تبدیلی لا کر عدلیہ کو قابل احتساب اور جواب دہ بنایا جائے۔ انتظامی کنٹرول حکومت اور پارلیمنٹ کے پاس ہونے سے عوامی ضروریات کے مطابق نظام بہتر سے بہتر بنانے میں نہایت آسان اور قابل تنقید ہو گا۔
(محمد نواز/19ستمبر 2022)
بناوٹیں
ظالم ہمیشہ مظلوم کے روپ میں آتا ہے ۔
قانون شکن ہمیشہ قانون کے محافظ کے روپ میں آتا ہے۔
بیگار ہمیشہ مجبور کے روپ میں آتا ہے۔
مانگتا ہمیشہ سخی کے روپ میں آتا ہے۔
کام چور ہمیشہ محنتی کے روپ میں آتا ہے۔
منافق ہمیشہ راست باز کے روپ میں آتا ہے۔
بد خواہ ہمیشہ خیر خواہ کے روپ میں آتا ہے۔
(محمد نواز/2 نومبر 2022)
معاشرے میں بنیادی بہتری کیسے ؟
سائنس کا کہنا ہے کہ بچے تین سے سات سال کی عمر تک سب سے زیادہ سیکھتے ہیں اور وہ سیکھا ان کی بنیاد بن جاتا ہے۔ اگر انہیں اس عرصے میں صحیح تعلیم و تربیت دی جائے تو وہ بہترین انسان بن سکتے ہیں۔
صحت مند بچے صحت مند مستقبل کی ضمانت ہیں ، صحت کے بغیر جسمانی اور ذہنی کمزوری لازم ہے جس کا نتیجہ پست کاکردگی کی صورت میں نکلتا ہے۔
مندرجہ بالا دونوں لوزمات کو کیسے عملی جامہ پہنایا جائے۔
1۔ بہترین تعلیم و تربیت کے لیے پرائمری سکول کے نظام کی بہتری۔
اساتذہ کی تربیت:
اساتذہ کی بنیادی تربیت لازمی ہے۔ اساتذہ کو سکھایا جائے کہ بچے کی کردار سازی کیسے کرنی ہیں۔ بچوں کو جھوٹ سے بچنے اور اپنی غلطی تسلیم کرنے کا طریقہ کیسے سکھایا جائے۔ سچ بولنے پر ان کی غلطی معاف کی جائے جبکہ جھوٹ کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ کیسے ہر ایک کی طرف مسکرا کر دیکھا جائے۔کسی دوسرے کی غلطی پر بھی خود میں معذرت کرنے کی ہمت کیسے پیدا کی جائے۔
جسمانی صفائی ستھرائی کے ساتھ ماحول کو صاف کرنے کا عملی طریقہ کیسے سکھایا جائے۔قدرتی ماحول ، سڑک ، فضا پارک ، دریا و سمندر کو کیسے اپنا سمجھا جائے اور پھر اس کی حفاظت و قدر کی جائے۔چھوٹوں اور بڑوں کے ساتھ شفقت اور ادب سے پیش آنے کا عملی طریقہ کیسے سکھایاجائے۔ ایک دوسرے سے نفرت کے کیا نقصانات ہیں اور ہمدردی و تعاون عملی طور پر کیسے کیا جاتا ہے۔ کسی بھی قسم کے کام سے عار کی بجائے اس سے محبت کے لیے ہاتھوں سے انجام دے کر اس کی اہمیت بڑھائی جائے۔
نتیجہ: بچوں کا ظاہر و باطن ایک جیسا بنانا بہت ضروری ہے تاکہ معاشرے سے منافقت ختم کی جا سکے اور ایک پرامن اور خوشحال معاشرہ وجود میں آسکے ۔
اس مقصد کے لیے نرم مزاج کی حامل خواتین اساتذہ پرائمری تعلیم کے لیے موضوع ہیں۔ بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے نفسیاتی مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کے لیے بھی ماہر نفسیات کی خدمات بہت ضروری ہیں۔ یورپی ممالک میں پرائمری سطح پر تربیت کا بہترین نظام اپنایا گیا ہے ۔ کیوں کہ یہی بچے بڑے ہو کر ملک کو سنبھالتے ہیں۔
تعلیم:
تعلیم کی بہتری کے لیے ضروری ہے سکولوں کی عمارات مکمل اور جدید تعلیمی ضروریات مثلآ ، کرسیاں ،ٹیبل سائنس ، آرٹ، کمپوٹر لیبز، کھیل کا سامان وغیرہ سے لیس ہوں ۔ اساتذہ کی تعداد طلبہ کے تناسب سے پوری کی جائے۔ پرائمری میں پانچ جماعتیں ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں استاد دو یا تین ، جن کے لیے تمام جماعتوں کے تمام مضامین پڑھانا ناممکن ہوتا ہے۔
ہر جماعت میں تیس سے زیادہ تعداد نہیں ہونی چاہیے تاکہ معلم ہر ایک کو انفرادی توجہ دے سکے۔ اسی طری استاد کو چاہیے کہ ہر بچے کے میز پر جا کر اسے اپنے ہاتھوں سے کام کرنا سکھائے اور ساتھ اس کی حوصلہ افضائی کرے۔ بچوں کی غلطی کرنے سے نہ ڈرایا جائے بلکہ حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ غلطی سے سیکھیں گے لہزا غلطی بہت ضروری ہے، جس سے وہ نئے تجربات کریں گے اور ان کے سیکھنے کے عمل میں جامعیت اور تیزی آئے گی۔
استاد بچوں کو خصوصی عزت دیں تاکہ ان میں عزت نفس مجروح ہونے کے بجائے خود اعتمادی اور ہمت پیدا ہو ۔ تاکہ انھیں جو کام بھی پسند ہو اسے صحیح و خطا کے ظریقے سے بغیر ہچکچاہٹ کے انجام دے سکیں۔
2- صحت:
غذائیت:صحت مند بچے بہترین پاکستان کی ضمانت ہیں۔ صحت مند اور تعلیم یافتہ بچیے جب بڑے ہو کر عملی میدان میں جائیں گے تو وہ ہر شعبے میں بہتر کارکردگی دکھائیں گے۔ بہتر پیداوار سے حکومت کو زیادہ آمدنی ہوگی اور اس طرح حکومت ہر شعبے کی ترقی میں سرمایہ کاری کر سکے گی۔ اس کے بر عکس غیر صحت مند افراد معاشرے پر بوجھ ہونے کے ساتھ ملکی پیداوار میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔ لہزا حکومتیں قرضے لے کر نظام مملکت چلاتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید قرض کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔
پرائمری اور ہائی سکول تک تمام بچوں کو غذائیت سے بھر پور دوپہر کا کھانا (لنچ) مہیا کرنا حکومت کی بنیادی زمہ داری ہے۔ تا کہ بچوں کی صحیح نشونما ہو ، وہ غذائی قلت کا شکا ہو کر لاغر اور کمزور نہ رہ جائیں۔ غذائیت سے بھر پور بچے جب بڑے ہو کر کام کریں گے تو ان کی کارکردگی بہت بہتر ہوگی ، ملکی پیداوار زیادہ ہونے کی وجہ سے حکومت کی آمدنی زیادہ ہوگی، جو ملکی ترقی کے ساتھ بیرونی قرضے سے بھی بچائے گی۔
علاج:
تمام طالب علموں کا مفت اور معیاری علاج بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ پرائمری اور ہائی سکول کے بچوں کا طبی معائنہ سکول میں ہی کیا جائے۔ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کو یقینی بنایا جائے۔ انہیں بیماریوں سے بچنے میں مدد دی جائے اور بیمار بچوں کا علاج کیا جائے تاکہ بیماری کی وجہ سے وہ کمزور اور لاغر نہ رہ جائیں جو بعد میں معاشرے پر بوجھ بنیں۔ لہزا بیماریوں سے محفوظ بچے اپنی عملی اور قومی زندگی میں بہترین نتائج دیںنے کے قابل ہوں گے۔
نتیجہ: حکومت کی بنیادی زمہ داری ہے کہ وہ بنیادی تعلیم اور بچوں پر سرمایہ کاری کرے تا کہ با تربیت ، تعلیم یافتہ ، صحت مند، پھلتا پھولتا اور پر امن معاشرہ وجود میں آئے ۔
(محمد نواز/18 فروری 2023)
آئی ایم ایف اور پاکستان
آئ ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں پاکستان ایک مہینے کے اندر دیوالیہ ہو جائے گا۔ کیوں کہ خزانے میں 1.22 بلین ڈالر رہ گئے ہیں۔
آئی ایم سے معاہدہ اسٹیبلشمنٹ کا تھا۔ بنیادی ضروریات پر سبسڈی ختم کر کے اضافی پیسہ دفاع کی مد میں جا رہا ہے۔
اگر سبسڈی ختم کر کے اضافی آمدنی پیداواری منصوبوں پر لگائی جاتی تو پیداوار زیادہ ہونے سے مہنگائی میں کمی اور روزگار میں اضافہ ہوتا۔
نتیجہ: پاکستان کے وسائل عوامی فلاح وبہبود اور ترقیاتی منصوبوں پر صرف نہ ہونے کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری ایک لازمی نتیجہ ہے۔
حل: بنیادی اصلاحات کے بغیر پاکستان کی معیشت بدتر سے بدترین کی طرف جاتی رہے گی چاہے کوئی بھی اچھی حکومت کیوں نہ ہو۔ معیشت کو اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول سے نکال کر حکومت کے ہاتھ میں لانا لازمی ہے۔
(محمد نواز/٣جون ٢٠٢٢)
جنگی جنون اور معاشی عدم مساوات
جدید اور پرامن دنیا کے استحکام کے لیے لازمی ہے کہ اقوام کو جنگی جنون سے نکال کر ترقی کی طرف گامزن کیا جائے۔ ایٹمی اور مہلک ہتھیار رکھنے کی اجازت کسی ملک کو نہیں ہونی چاہیے۔ جنگی جنون بھی اقوام کو صنعتی اور معاشی ترقی سے دور رکھنے کا بہانہ ہے۔ جو اقوام جنگی جنون کا شکار ہیں وہ معاشی اور معاشرتی عدم مساوات کا شکار ہیں۔ انھیں جعلی جنگی خوف اور تفاخر کی بھینٹ چڑھا کر ذاتی مالی مفادات حاصل کیے جا رہے ہیں
(محمد نواز/29 مئی 2022)
Safari train Murree
Welcome to Murree
حکومتوں کی اقسام
اپنی نوعیت کے اعتبار سے حکومتوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
اول:- جمہوری حکومت
1.یہ ایسی حکومت ہے جو عوام کی مشاورت ، اعتماد اور حمایت سے بنتی اور ختم ہوتی ہے۔
2-ایسی حکومت" امرو بین شورہ" کے اسلامی اصول پر قائم ہوتی ہے جو کہ ایک فطرتی اور ارتقائی نظام ہے۔
3-یہ حکومت عوامی اعتماد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کو ہر وقت عوامی فلاح کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔
4- فیصلے میں تمام عوام شامل ہوتی ہے لحاظہ نتائج کا بوجھ بھی سب نے ہی اٹھانا ہوتا ہے۔ چنانچے غلط فیصلے کے نتیجے میں سب ہی اصلاح کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
5-جمہوری حکومت میں کمزور طبقہ اکثریت میں ہونے کی وجہ سے حکومت میں آجاتاہے ،جس کی وجہ سے وہ اوپر اٹھنا شروع یو جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ معاشرے میں برابری اور دولت کی منصفانہ تقسیم شروع ہو جاتی ہے۔ ایک فلاحی معاشرہ وجود میں آنا فطرتی امر ہو جاتا ہے
7-جمہوریت کا ایک لازمی نتیجہ آزاری رائے کی صورت میں نکلتا ہے لوگوں کی سوچ اور فکر میں تنوع ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ تخلیقی لحاظ سے پھلتا پھولتا ہے۔
8-جمہوریت سے سب کی فلاح وابستہ ہوتی ہے اس لیے ہر کوئی اس کا تحفظ کرتا ہے۔
9-قیادت کی صلاحیت کے ہر فرد کے لیے حکومت میں پہنچنے کا ، راستہ، طریقہ اور فضا ہر وقت موجود ہوتی ہے ، جس کا معیار (merit)عوامی اعتماد ہے۔ ہر صلاحیت اظہار چاہتی ہے اور اظہار کا پرامن طریقہ جمہوریت میں ہے۔
عوام اپنی صحیح و خطا سے بہتر سے بہتر قیادت منتخب کرتی ہے۔
مثال:-
1-برطانیہ نے اپنے جمہوریظام کے تحت آدھی دنیا فتح کی۔ وہاں کسی وزیراعظم کو بادشاہ کی طرح اپنی حکومت کے ختم ہونے کا ڈر نہیں تھا۔ اور ان کے فیصلے بھی عوامی فیصلے اور ذمہ داری کا بوجھ بھی سب پر۔ برطانیہ آج بھی ایک بہترین فلاحی معاشرہ ہے جو کہ ان کی جمہوریت کا ثمر ہے۔
دوم۔:- بادشاہت یا ملوکیت
اس طرز حکومت میں ایک فرد واحد کی حکومت ہوتی ہے اور یہ حکومت اس کی اولاد اور خاندان میں نسل درنسل منتقل ہو تی ہے
حکومت کی یہ قسم سب سے قدیم ،صدیوں پرنی ہے جو آج بھی وجود رکھتی ہے۔
اس حکومت میں بادشاہ سب سے پہلے اپنی حکومت کو قائم رکھنے اور اس کے تحفظ پر توجہ دیتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ
1-بادشاہ اور سلطنت کے خلاف اظہار رائے نہیں ہو سکتا۔
2-زیادہ وسائل بادشاہت اور بادشاہوں پر صرف ہونے سے عوام کا معیار زندگی بادشاہو سے کم تر ہو گا
3-تعلیم اور ماشرے کا ڈھانچہ ایسا بنایا جائے گا جو بادشاہت کے خلاف نہ جائے۔
4-تحقیق اور سوچنے کی صلاحیتیں مفلوج ہو جاتی ہے جس سے ایک تابعدار اور بے شعور قوم پیدا کی جاتی ہے۔
5- عوم کی سوچ میں تنوع کم ہونے کی وجہ سے معاشرہ تخلیقی اعتبار سے جمود کا شکار ہوجاتا ہے
5-قیادت کی صلاحیت کے حامل افراد کو آگے انے کا موقع نہیں ملتا، چنانچہ وہ اکثر بغاوتیں کرکے حکومت لینے کی کوشش کرتے ہیں، جو کہ ایک فطری امر ہے۔
فوائد۔
بادشاہت کے اپنے کچھ فائدے بھی ہیں۔
1-بادشاہ اپنی سلطنت کوعومی غصے سے بچانے کے لیے ، عوام کی فلاح و بہبود کا بھی خیال رکھتا ہے۔
2-بادشاہت اپنی اولاد یا خاندان میں منتقل ہونے کے ضروری ہے کہ عوام بھی ان کو بھی تسلیم کرے، جنانچہ بادشاہ سلطنت کو ایک بہترین نظام مہیا کرتا ہے تاکہ نئے سلطان کو مسائل کا سامنا نہ کونا پڑے۔
3-فیصلے بادشاہ خود کرتا ہے اور اس کی ذمہ داری بھی خود لیتا ہے، لحاظہ بادشاہ بھی اپنی اصلاح کا عمل جاری رکھتے ہیں
مثال:- سعودی عرب میں بادشاہت قائم ہے جو نسل در نسل قائم ہے۔ اس بادشاہے کا فطرتی نتیجہ یہ ہے کہ
1- بادشاہت کے خلاف کوئی بھی رائے کا اظہار نہیں کر سکتا۔
2- زیادہ عوام خوشحال اور اکثریت شہنشاہت کو پسند کرتی ہے۔ عوام کے پاس بعض آزادیاں اور بعض قدغنیں بھی ہیں۔
3- وہاں ایک خاص سوچ کے لوگ پیدا کیے جاے ہیں، جن کا مقصد بادشاہت کو فائدہپہنچانا ہوتا ہے۔
سوئم:-
گروہی یا فوجی حکومت۔
حکومت کی یہ شکل صرف تیسری دنیا کے مالک میں پائی جاتی ہے۔ جس میں ایک گرہ طاقت کے زور پر حکومت کرتا ہے۔
فوجی حکومت, حکومت کی سب سے بدترین شکل ہے، اوراس کا وجود بیسویں صدی میں ظہور پذیر ہوا، جب انگریزوں اور یورپیوں کے نوآبادیاتی نظام کو تحفظ دینے اور عوام کو محکوم رکھنے کے لیے نئی طرز کی فوجیں تخلیق کی گئیں ۔ ان فوجوں کو حکومت کرنا سکھایا گیا جبکہ ان کا کنٹرول نو آبادیات نے پنے پاس رکھا۔
جیسا کہ اس گروہ کو حکومت کرنے کا وہ تجربہ اور صلاحیت نہیں ہوتی جو عوامی اعتماد والےباصلاحیت افراد یا شاہی خاندان میں پائی جاتی ہے، اس لیے یہاں کی عوام کے حالات سب سے زیادہ بدتر ہوتےہیں۔ یہ حکومت ایک گروہ طاقت کے زور پر حاصل کرتا ہے۔ اس حکوت کا لازمی نتیجہ
1-گروہ کے خلاف اظہار رائے پر مکمل پابندی۔
2-تعلیمی اور معاشرتی ڈھانچہ گروہی مفادات کے تحفظ کے لیے ترتیب دیا جانا۔
3-یہ گروہ فیصلے خود کرتا ہے مگر برے نتائج کا ذمہ نہیں لیتا۔
4- نتائج کا زمہ نہ لینے کی وجہ سے یہ گروہ اپنے ذاتی مفادات سے آگے کم ہی سوچ سکتے ہیں، چنانچہ یہ طبقات ملکی وسائل سے خوشحال اور عوام غریب ہو جاتی ہے۔
5-معاشرتی طبقاتی تقسیم اسی حکومت میں سب سے زیادہ پروان چڑھتی ہے۔
6-عوام کو غیر ضروری اور غیر حقیقی مسائل میں الجھا کر اپنی حکومت کو بچایا جاتا ہے۔
6-اگر حالات ان کے کنٹرول سے باہر ہوں تو یہ حکومت چھوڑ کر سازگار حالات کا انتظار کرتے ہیں۔
7-یہ گروہ ہمیشہ مسیحا کے روپ میں آ کر عوام کے دل میں جگہ بناتا ہے۔
8-یہاں قیادت کی اہلیت کے افراد کو کچلا جاتا ہے۔ اس وجہ سے یہاں افراتفری ایک معمول ہوتا ہے۔
مثال:-
1-مصر ، میانمار، پاکستان۔ ان ممالک میں افواج کی حکومت ہے اور ملکی وسائل کا زیادہ حصہ انہی کے پاس ہے جبکہ عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔
2-افغانستان اور ایران جہاں مزہبی گوہوں کی حکومت ہے ۔ مزہبی گروہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک نظریہ کے تحت حکومت لیتےہیں جبکہ مالی مفادات ان کا محرک نہیں ہوتے۔
نوٹ :-
خدا کے بعد عوام سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے۔ لیکن اس بڑی طاقت کو تعلیم اور شعور کی کمی، آپس میں تفریق پیدا کر کے، غیر حقیقی حطرات سے ڈرا کر نفسیاتی طور پر کمزور کر کے محکوم بنایا جاتا ہے۔ چنانچہ عوام اپنے آپ کو کمزور ، بے بس، بے اختیار سمجھ کر کسی مسیحا کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہے۔
منزل:-
عوام کو جہمہوری نظام کے ثمرات حاصل کرنے کے لیے اس سطح کا شعور حاصل کرنا ہوتا ہے۔ عوام کو اکثر آخری دو طرح کے نظاموں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک کٹھن ، صبر آزما اور مشکلات سے بھر پور جدوجہد ہے۔ شعور کا وہ درجہ حاصل کرنے کے لیے عوام کو بعض اوقات نسلوں کی قربانی دینی ہوتی ہے۔
(محمد نواز/21 جنوری 2022)
تنقید ایک بنیادی حق
عوام کسی بھی ادارے ، محکمے یا اس کے کسی بھی فرد کی کارکردگی پر تنقید کر سکتے ہیں- یہ سب عوام کے ملازم ادارے ہیں۔ جو بھی عوام کے ٹیکسوں سے معاوضہ لیتا ہے وہ عوام کو جواب دہ ہے۔ جہاں تنقید سے روکا جاتا ہے وہاں کچھ چھپانے کے لیے ہوتا ہے۔ اور یہاں چھپانے کے لیے کرپشن اور لاقانونیت ہے۔
تنقید یا آزادی رائےکو روکنے والا کوئی بھی قانون عوام کلی طور پر مسترد کرتی ہے۔
ہر محکمے اور ادارے کو تنقید کی کسوٹی سے گزارنا ہر شہری کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
تنقید ایک سنت طریقہ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تنقید یا تو اصلاح کرتی ہے یا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
(محمد نواز/17اپریل 2022)
Permafrost melting
Due to warming climate the permafrost in arctic region is melting, causing huge destruction to land, forests and infrastructure.
This condition is also raising the sea level, gradually sinking low lying areas.
(Muhammad Nawaz/15 March 2022)
Hail storm in Barrian Murree
پیداواری اخراجات میں کمی اور نتائج
ائی ایم ایف نئے مذاکرات میں مذید پیداواری اخراجات یعنی ترقیاتی اخراجات میں کمی کروائے گا۔ اس کے نتیجے میں صنعتی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے معیشت قرض پر ہی چلے گی۔ پاکستان میں 80 فیصد سے زائد اخراجات غیرپیداواری ہیں، جن میں سے کثیر حصہ دفاع اور سرکاری اشرافیہ کی مراعات اور ویلفیئر میں خرچ یو جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی یے کہ مراعاتی اخراجات کو ختم کیا جائے اور غیرہیداواری دفاعی اخراجات کم کر کے پیداواری معیشت میں اضافہ کیا جائے تاکہ پاکستان میں صنعتی ترقی کا آغاز ہو اور خوشحالی کا سفر جاری رکھا جا سکے۔
محمد نواز
٢٢\اپریل \٢٠٢٢
پاکستان میں لائبریری کی رکنیت کے حصول کے مسائل۔
میرے ذاتی تجربے کے مطابق پاکستان میں پبلک لائبریری کی رکنیت کے لیے ،سیکیورٹی فیس،قومی شناختی کارڈ کے ساتھ سرکاری افسر سے تصدیق بھی لازمی ہے۔ جس میں آخری شرط بہت کٹھن اور وقت طلب ہے۔ میری رائے میں رکنیت کا پیچیدہ طریقہ کار لوگوں کو کتب خانوں سے دور رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتب خانے اکثر خالی ہوتے ہیں۔ کسی کو لائبریری کی رکنیت کا مشورہ بھی دیں تو وہ مشکل طریقہ کار سن کر ارادہ ہی ترک کر دیتا ہے۔
2016 ،نیوکاسل انگلینڈ میں مجھے لائبریری جانے کا اتفاق ہوا تو لائبریری انتظامیہ نے نہ صرف مجھے خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا بلکہ مجھے مفت میں لائبریری کا کارڈ جاری کر کے لائبریری کا مستقل رکن بنا دیا ۔ میرے لیے لائبریری کی تمام کتب اور آن لائن سرچ کے لیے کمپیوٹرز کی رسائی ناقابل یقین حد تک آسان ہو گئی۔ اس کے علاوہ مجھے باقاعدگی سے لائبریری سے متعلق الیکٹرانکس میلز بھی آنا شروع ہو گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ انگلینڈ کی لائبریریوں میں جم غفیر نظر آتا ہے۔
نتیجہ: اگر کتب خانوں میں عوام کا داخلہ آسان بنایا جائے تو کتب بینی کا شوق پروان چڑھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتب خانے اکثر خالی ہوتے ہیں۔ کسی کو لائبریری کی رکنیت کا مشورہ بھی دیں تو وہ مشکل طریقہ کار سن کر ارادہ ہی ترک کر دیتا ہے۔
2016 ،نیوکاسل انگلینڈ میں مجھے لائبریری جانے کا اتفاق ہوا تو لائبریری انتظامیہ نے نہ صرف مجھے خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا بلکہ مجھے مفت میں لائبریری کا کارڈ جاری کر کے لائبریری کا مستقل رکن بنا دیا ۔ میرے لیے لائبریری کی تمام کتب اور آن لائن سرچ کے لیے کمپیوٹرز کی رسائی ناقابل یقین حد تک آسان ہو گئی۔ اس کے علاوہ مجھے باقاعدگی سے لائبریری سے متعلق الیکٹرانکس میلز بھی آنا شروع ہو گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ انگلینڈ کی لائبریریوں میں جم غفیر نظر آتا ہے۔
نتیجہ: اگر کتب خانوں میں عوام کا داخلہ آسان بنایا جائے تو کتب بینی کا شوق پروان چڑھ سکتا ہے۔
(محمد نواز/13مارچ 2022)
پاکستان کے قوانین اور ضابطے عوام کے لیے مشکلات کیوں پیدا کرتے ہیں؟
یہ فطرتی اصول ہے کہ جو بھی قانون یا قاعدہ بنائے گا وہ سب سے پہلے اپنا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔ کسی بھی غلط کام کی ذمہ داری لینے سے اپنا بچاؤ کرے گا۔
پاکستان میں قوانین اور قاعدے عوام کے منتحب نمائندوں کی بجائے محکمے خود بناتے ہیں، نتیجے کے طور پر عوام کے لیے مشکلات ہیں۔ اور کام میں غفلت کی ذمہ داری کے تعین اور جوب دہی کا بھی کوئی طریقہ کار وجود پزیر نہیں ہو سکتا۔
ادارہ جاتی اور قانونی بدعنوانی کی بنیاد بھی اسی وجہ سے ہی پڑتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں قوانین عوام کے نمائندے بناتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے محکمے ذمہ دار اور عوام کو جوابدہ ہیں۔ محکموں کی زمہ داری اور کام سے غفلت پر سزا کے طریقہ کار کا وجود ہونا فطری امر ہے۔
نتیجہ: پاکستان میں بھی جمہوری ادارے مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ قوانین بھی عوامی حق میں بننا شروع ہو جائیں گے۔
(محمد نواز/ 13 مارچ 2022)
بادشاہت اور آمریت کا ارتقائی سفر
بادشاہت:
1.بادشاہت ,مطلق بادشاہت سے طاقتوربادشاہت اور کمزور پارلیمنٹ
2. طاقتور بادشاہت اور کمزور پارلیمنٹ سے طاقتوربادشاہت اور متوازن پارلیمنٹ ۔
3.طاقتوربادشاہت اور متوازن پارلیمنٹ سے آئینی بادشاہت اور مضبوط پارلیمنٹ
4. آئینی بادشاہت اور مضبوط پارلیمنٹ سے رسمی بادشاہت اور طاقتور پارلیمنٹ ۔
آمریت
1. آمریت سے صدارتی نظام
2. صدارتی نظام سے جزوی صدارتی اور کمزور پارلیمانی
3. جزوی صدارتی اور کمزور پارلیمانی نظام سے کمزور صدارتی اور مضبوط پارلیمانی نظام
4. کمزور صدارتی اور مضبوط پارلیمانی نظام سے مکمل اور مضبوط پارلیمانی نظام اور رسمی صدارت۔
خصوصیات
1. موجودہ پارلیمانی نظام صدارتی نظام کی جدیدارتقائی شکل ہے، جس میں پارلیمنت طاقتور اور صدر رسمی ہوتا ہے۔
2. ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد دونوں نظام اس درجے میں پہنچ چکے ہیں جہاں اقتدار کی صلاحیت کے حامل افراد کو اقتدار حاصل کرنے کا پرامن اور واضح راستہ میسر آ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے جمہوری دنیا میں اقتدار کے لیے جنگ وجدل تقریباً ختم ہو چکا ہے۔
نوٹ۔ مضبوط پارلیمانی اور رسمی صدارت کے نظام میں ہر شخص اپنے آپ کو صدر منتخب ہونےکے مقابلے میں بھی پیش کر سکتا ہے جبکہ رسمی بادشاہت میں ایسا نہیں ہو سکتا ۔یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں بھی رسمی بادشاہت سے رسمی صدارت کی طرف منتقلی کی بحث جاری ہے۔
نتیجہ: جدید جمہوری نظام ایک لمبے اور کٹھن ارتقائی سفر کے بعد وجود میں آیا ہے اور یہ ارتقاء کے ساتھ مزید بہتری کی طرف جائے گا۔ جو لوگ امریت اور بادشاہت کی سوچ رکھتے ہیں تو اب ایسے نظام کو استحکام نہیں ۔کیونکہ ارتقاء کا راستہ ہمیشہ آگے کی طرف ہی جاتا ہے۔
(محمد نواز/ 7 مارچ 2022)
Green Gold
The mountains of Pakistan
In Pakistan, almost 61% geographical area is mountainous. It is considered that atleat 21 % area of a country must be reserved for forests , so sustainable environment and ecosystem can be maintained. The benefits of forests are uncountable for any country and how Pakistan can earn from forests.
Sustainable ecosystem:
Forest ecosystem provides habitats for plants, herbs and animals .It is also a home of biodiversity and eighty percent of the world's known terrestrial plant and animal species can be found in forests . So forests play basic role in our food chain.The benefits provided by forest ecosystems include: goods such as timber, food, fuel and bioproducts.
Sustainable environment:
Forests are the cause of pleasant and clean environment due to their role in rain , production of oxygen and carbon dioxide absorption. forests provide natural resistance against disaster by providing drainage area to reduce the magnitude of floods and intensity of cyclones. They purify the air we breathe, filter the water we drink. Similarly release of water vapour through leaves makes the environment pleasant in summar days and hinders cold air to hit the population in winter.
Pakistan mountains as green gold:
Forests are recognized as an integral part of national economies, providing a wide range of production inputs, environmental goods, food, fuel, medicines, household equipment, building material and raw materials for industrial processing.Individual forest ecosystems provide many protective, scientific and commercial services, ranging from living space and food to climate regulation and genetic resources. At the national level, however, countries are interested in their entire forest system and how they contribute collectively to national development as sources of goods and services, as forms of insurance against excessive risk and as economic and social assets.Sources of revenue, foreign exchange and financial equity.
Forests supply materials for domestic industry, for export and for import substitution in the form of wood, fibre, processed products, energy and a wide variety of medicinal, ornamental and speciality forest products.
Timber typically has been a primary source of capital for forested nations, through the trade of wood for currency, the use of forests as equity for loans and debt relief and the exchange of
61% area of Pakistan comprisis of mountains so, these mountain can be rurned into green mountains. Such huge forests will beings tremendous exonomic opportunities for the people of country. In sustainable forestry adult trees are cut down and new afforestation is carried on. The trees cut down can be turned into useful products or sold as tember in international market for revenue. The canadian and finnish sustainable forestry provides wood , wood products and tember to most of the world. Canadian two third forestry products exported contributing 24.6billion USD in its GDP.The forest industry is the main source of income for many regions in Finland. It accounts for approximately 20 per cent of all Finnish exports.
How sustainable forestory is possible?:
Sustainable forest management has to keep the balance between three main pillars: ecological, economic and socio-cultural. Successfully achieving sustainable forest management will provide integrated benefits to all, ranging from safeguarding local livelihoods to protecting biodiversity and ecosystems provided by forests, reducing rural poverty and mitigating some of the effects of climate change.
The formula for the cutting of forests is such as to cut the forests into paches or randomly per year. For example the adult age of pine tree is 80 years ,then whole forest must be divided into 80 sections. Each section must be cut and then planted in the same year. If this process is continued then last section will take its turn in 80th year and mean while the plants of first section will become adult (80 years old) again ,ready to cut in next year. So, this loop will continue and forest will remain intact with all its benefits.
Other economic benefits:
1. Rise in Water table
Sustainable forest will absorb most of rain water so it will rise underground water table . This will provide the sustaiainable rivers with round the years, clean water sufficient for crop production in the plains and for human consumption.
2. Tourism
The beauty of wildlife, peace, quiet and pure air are factors that attract tourists.Greenery attracts every human ,so forests will increas the tourism in the country resulting in tourism economy growth.
3. Reduction of soil erosion
Rain water erode the fertile soil and leave behind sterile layer. Similarly erode soil deposition in to water reservoirs decreases their life. Forests and trees make an essential contribution to food security by helping to maintain the environmental conditions needed for agricultural production. They stabilize the soil, prevent erosion, enhance the land's capacity to store water, and moderate air and soil temperatures.
4.Sustainable hydropower
Sustainable forests will being sustainable rivers with continous supply of water from forest underground water table. These rivers can be used for hydropower generation, which is clean energy. Hydropower is playing basic role in country's economy interm of running factories, transport and house hold appliances ,creating large number of jobs and other economic benefits.
5. Sustainable energy.
Sustainable forest also provide sustainable electricity. Wood is used to generate heat which is used for steam and steam is used to run electric generator. Other methods can be used to turn wood in to bio energy. This burning wood will release carbon dioxide into the atmosphere but newly planted trees will encorporate this gas into their body so no net increase of carbon dioxide will be in the atmosphere. The priduction of bio energy will reduce the dependence of Pakistan on imported fossil fuels,results in decreaing the import bill.
6. How are forest important to the local communities?
For these rural communities and indigenous peoples, the forest is a critical source of water, timber, wildlife, and identity. Forest resources lie at the heart of their social, political, and economic life as the primary source of livelihood, nutrition, and employment.
How to grow sustainable forests in Pakistan?:
1. There must be a national policy in this regard.
2. The government must allocate funds and the capacity of forest department must be enhanced.
3. The mountains and hills of each tesile and District must be planted by the respective forestry department .
4. Trees must be planted in colaboration with the local governments of village and tehsile and the people of that areas so the their involvement will creat ownership for them and they will protect and preserve the forests.
5. The revenue of the trees must be utilized for public welfare by the provincial and local government in a transparent mechanism opened to the public ,so they can realized that forest are realy bringing benefits for them. This transprency will increase confidence of the public and they will look positively to the growth and protection of forests.
6. Plants nurseries must be established in each village , town or union council . Easy access to these nerseries will encourage people to plant trees.
7. Government must ensure the provision of quality plants in the nurseries so that public investment may not go in waste.
Conclusion:
Large area of mountains of Pakistan could bring prosperity and environmental benefits in the country. A comorehensive approach is necessary by government for sustainable forestory. Civil society must raise voice for this untaped Green Gold.
Muhammad Nawaz
17/02/2022
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Location
Category
Address
Sarban Colony
Abbottabad, 22010
Asslam o Alaikum, I am Qari Jamil Ur Rehman from Husnul Quran Academy based in Pakistan.
Abbottabad
We are providing well Qualified Home and Online Tutors. Our teachers are MS and PhD level. Class 1st - 8th Matric O/A levels Intermediate 3 DAYS FREE DEMO CLASSES. For More details and queries Contact on WhatsApp and Call: 03447166144
Muqadas Tower, Near Small Industry Chowk, Mansehra Road Mandian
Abbottabad
Sarhad Group of Colleges is providing education for F.Sc (Pre Eng, Pre Med...) DAE (Civil, Electrical, Electronics and Telecom). Our Colleges are Sarhad Group of Colleges, Sarhad College of Technology, Sarhad College of Business Administration.
Lifeline Softskills Murree Road
Abbottabad, 22010
Affiliated distance education service provider.
Narrian Road
Abbottabad, 22010
Stock Trading is a very lucrative business but more than 80 % investors / traders are in loss because they adopt this business without actually learning anything about it. Stock Trading requires appropriate knowledge of the Stock Market and its trends.
Adjacent Zari Tarqiati Bank Mansehra Road
Abbottabad, 22010
Amazon Training Institute And Service Provider
Life Line Soft Skills Institute, Office # 125, 126, 1st Floor Allied Bank Plaza, College Road Mandian
Abbottabad, 22010
Abbottabad, 22020
It's a learning platform of Quran majeed. We offer you Tarjuma, tafseer and tajweed of Quran Pak. Tutors of different subjects are also available till metric. Tutors of Madrasa courses are available. Timings can be managed according to your ease.