حالات عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (بیان)
Asadullahkhan
M***i Asadullah khan is Islamic scholar and also he graduated from Abdulwali Khan university Mardan . and he got it (M.phil) Degree.

شیخ نظام محمد یعقوبی عباسی حفظہ اللہ تعالی کا مفصل تعارف (قسط4)
اسد اللہ خان پشاوری
شیخ نظام یعقوبی کے شیوخ
33۔شیخ جعفر ابن الحاج سلمی مغربی؛ ان سے حدیث مسلسل بالاولیہ اور الرحلہ فی طلب الحدیث للخطیب البغدادی کا سماع کیا، اور ایک دوسرے کو بطور تدبیج اجازت دی۔
34۔شیخ جلال الدین بن عبداللہ بن دوست سَندی؛ ان سے عام اجازت ہے۔
35۔ شیخ جمیل احمد بن حسین المظاہری، ان سے شاہ ولی اللہؒ کی الفضل المبین سے مسلسل بالاولیہ، مسلسل بالمحبہ کا سماع کیا، اور اجازت عامہ بھی حاصل ہے۔
36۔ شیخ حافظ الیاس، ان سے عام اجازت ہے۔
37۔ شیخ حبیب الرحمٰن بن محمد صابر بن عنایت اللہ الاعظمی، انہوں نے ہندوستان سے تحریری طور پر اجازت دی تھی۔
38۔ شیخ حسن بن حسین باسندوہ حسینی جدی؛ ان سے جدہ میں حدیث مسلسل بالاولیہ، مسلسل بالمشابکہ، مسلسل بالمصافحہ، اور سفینۃ النجاۃ مکمل، اور الفیۃ العراقی مکمل، الفیہ سیرت للعراقی کی بعض مجالس، وغیرہ کا سماع کیا، اور عام اجازت بھی دی۔
39۔ الحسن بن محمد بن الصدیق الغماری؛ بیلجیئم میں اس سے ملاقات کی، اور حدیث مسلسل بالاولیہ کا سماع کیااور عام اجازت بھی دی۔
40۔ شیخ حسین بن محمد بن ہادی السقاف، ان سے عام اجازت حاصل ہے۔
41۔ شیخ حسین عسیران؛ ان سے حدیث مسلسل بالاولیہ کا سماع کیا، انہوں نے اپنا ثبت دیا اور عام اجازت بھی دی۔
42۔ شیخ حماد بن محمد انصاری مدنی، ان سے حدیث مسلسل بالاولیہ کا سماع کیا، اور ان کے گھر میں ان کی زیارت کی تھی، ان کے ساتھ ٹیلیفون پر رابطے ہوتے تھے اور علمی مسائل پر گفتگو بھی ہوتی تھی، ان سے اجازت عامہ بھی حاصل ہے۔
43۔شیخ رحمت اللہ الارکانی،ان سے حدیث مسلسل بالاولیہ، شمائل ترمذی مکمل، نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفکر کا سماع کیا، اور اجازت عامہ دی۔
44۔ شیخ رشید احمد بن حبیب الرحمٰن بن محمد صابر الاعظمی، ان سے اجازت عامہ حاصل ہے۔
45۔رشید بن احمد العلو النجار الحلبی، ان سے اجازت عامہ حاصل ہے۔
46۔ شیخ زہیر الشاویش؛ ان سے بیروت میں ان کے گھر پر "جزء الحسن بن عرفہ العبدی "، اور اجازت عامہ دی۔
47۔ شیخ سالم بن عبداللہ بن عمر بن احمد بن عمر الشاطری؛ ان سے عام اجازت حاصل ہے۔
48۔ شیخ سعد بن سالم باشکیل الخزرجی الحضرمی، ان سے عام اجازت حاصل ہے۔
49۔ شیخ سعید بن مساعد بن عابد الحسینی الحارثی الشافعی؛ ان سے عام اجازت حاصل ہے۔
50۔ شیخ سلیمان الاہدل الزبیدی الیمنی؛ صنعاء یمن میں ان کے گھر میں ان کی زیارت کی، اور ان سے حدیث مسلسل بالاولیہ، منہاج نووی، متن الزبد لابن رسلان، تحریر اللباب للقاضی زکریا الانصاری اور متن الغایہ لابی شجاع کا سماع کیا اور ان کو اجازت عامہ دیا۔
51۔ شیخ شبیر احمد بن احمد، ان سے عام اجازت حاصل ہے۔
52۔ شیخ شکری بن احمد بن علی لحفی الدمشقی؛ ان سے عام اجازت حاصل ہے۔
53۔ شیخ شیر محمد علوی لاہوری، نزیل مکہ مکرمہ، ان سے عام اجازت حاصل ہے۔
آج مطالعہ کر رہا تھا، طالب علم کے لیے اردو اور فارسی میں شاگرد کا لفظ استعمال ہوتا ہے، تہذیب التہذیب میں ابن حجر نے اس کا استعمال کیا ہے۔
«تهذيب التهذيب» (9/ 277):
«وقال العباس بن مُصعب المروزيّ: كان عِكْرِمَة أعلم شاكِرْدي ابن عباس بالتفسير، وكان يَدُور البلدان يتعرَّض.»
شیخ نظام محمد یعقوبی عباسی حفظہ اللہ تعالی کا مفصل تعارف (قسط3)
اسد اللہ خان پشاوری
شیخ نظام یعقوبی کے شیوخ
18۔ شیخ ادریس فاسی فہری، ان سے اجازت عامہ حاصل ہے۔
19۔شیخ ادریس بن ضاویہ عرائشی، ان سے حدیث مسلسل بالاولیہ، کتب سبعہ کے اوائل کا سماع کیا ہے، اور اجازت عامہ بھی حاصل ہے۔
20۔شیخ ادریس بن محمد بن جعفر کتانی رباطی مغربی، ان سے اجازت عامہ حاصل ہے۔
21۔شیخ ارشاد الحق اثری، ان سے اجازت عامہ حاصل ہے۔
22۔شیخ اسماعیل بن علی اکوع یمنی ، ان سے اجازت عامہ حاصل ہے۔
23۔ اسماعیل کانکریا، ان سے لیسٹر برطانیہ میں مسلسل بالاولیہ، کتب ستہ کے اوائل، موطا امام مالک، موطا امام محمد، شمائل محمدیہ، ثلاثیات بخاری، شیخ بدر عالم میرٹھی کا قصیدہ شمائل، نخبۃ الفکر، تفسیر جلالین سورت اعراف اور اول وآخر کا سماع کیا، جبکہ ان سے اجازت عامہ بھی حاصل ہے۔
24۔شیخ اعزاز الحق بن مظہر الحق بن سفر ارکانی مکی، ان سے اجازت عامہ حاصل ہے۔
25۔ شیخ اقبال احمد بن محمد شکر اللہ اعظمی ہندی، ان سے اجازت عامہ حاصل ہے۔
26۔ شیخ اکرم بن عبد الوہاب موصلی ، ان سے اجازت عامہ حاصل ہے۔
27۔شیخ امر اللہ بن عبد اللطیف رحمانی ہندی، ان سے اجازت عامہ حاصل ہے۔
28۔ شیخ انیس الرحمن بن عبد السبحان بن محمد نعمان اعظمی، ان سے حدیث مسلسل بالاولیہ، بخاری شریف کی پہلی حدیث، اور ثلاثیات بخاری کا سماع کیا، جبکہ ان سے اجازت عامہ بھی حاصل ہے۔
29۔شیخ بدر بن عبد الرحمن بن محمد باقر کتانی، ان سے اجازت عامہ حاصل ہے۔
30۔ بدیع الدین راشدی سندی، ان سے مکاتبت کے ذریعہ اجازت حاصل ہے، جبکہ مکہ مکرمہ میں اقامت کے دوران ان کی زیارت کی تھی۔
31۔ شیخ تہامی بن محمد تجانی حدکرتی وزانی مغربی، ان سے اجازت عامہ حاصل ہے۔
32۔شیخ ثناء اللہ مدنی، ان سے درج ذیل کتابوں کا سماع کیا ہے: مسند احمد بن حنبل، صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابوداود ، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، موطا امام مالک، مسندالشافعی (بعض کے علاوہ) ، مسند الحمیدی، خلق افعال العباد، خیر الکلام فی القراءت خلف الامام للامام البخاری، شمائل ترمذی (دو مرتبہ)، بلوغ المرام، منتخب مسند عبد بن حمید، معجم صغیر طبرانی، رسالہ ابوداود فی وصف کتابہ السنن، الایمان لابن ابی شیبہ، اربعین نووی (آخر میں موجود ضبط الفاظ دو مرتبہ پڑھیں)، عقیدہ طحاویہ، نخبۃ الفکر (دو مرتبہ)، کشف المغطا فی فضل الموطا لابن عساکر، الرسالہ للامام الشافعی، المحدث الفاصل للرامہرمزی، الکفایہ للخطیب البغدادی، الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع، للخطیب البغدادی، الالماع الی معرفۃ اصول الروایۃ وتقیید السماع للقاضی عیاض، الفیۃ العراقی، جزء اعتقاد البخاری، قصیدہ غرامی صحیح، لامیۃ ابن تیمیہ، ورقات للجوینی، وغیرہ۔ اور ان سے اجازت عامہ کئی مرتبہ، زبانی اور تحریری ہرطرح حاصل ہے۔
شیخ نظام محمد یعقوبی عباسی حفظہ اللہ تعالی کا مفصل تعارف (قسط2)
اسد اللہ خان پشاوری
شیخ نظام یعقوبی اور ان کی دینی تعلیم
انہوں نے دینی تعلیم کی ابتداء دس سال کی عمر میں کی، ان کے پہلے شیخ، شیخ عبداللہ فارسی کجوی صدیقی شافعی تھے، جو سلطان العلماء شیخ عبدالرحمٰن ملا یوسف کے شاگردوں میں سے تھے، انہوں نے مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ اور دیگر مدارس میں تعلیم حاصل کی تھی۔ان کی وفات کے بعد، ان کے بھتیجے، شیخ علامہ قاضی یوسف بن احمد صدیقی شافعی ازہری ان کے جانشین مقرر ہوئے تو ان سے بھی دینی تعلیم حاصل کی۔
انہوں نے بحرین کے بڑے علماء کی ایک جماعت سے بھی تعلیم حاصل کی اور ان سے استفادہ کیا، جن میں شیخ محمد صالح العباسی بھی ہیں، جو کئی کتابوں اور منظومات کے مصنف ہیں، اسی طرح شیخ محمد بن عبداللطیف آل السعدفقیہ مالکی، اور ان کے بھائیوں شیخ عبدالرحمن اور شیخ ابراہیم وغیرہ سے بھی استفادہ کیا۔
شیخ نظام یعقوبی کے شیوخ:
ان کے شیوخ کی تعداد زیادہ ہے، حروف تہجی کی ترتیب پر ذکر کیا جاتا ہے:
1. ابراہیم بن حسن الاہدل، ان سے عام اجازت حاصل تھی۔
2. ابراہیم بن عبداللہ بن علی،باسند العمودی۔
3. ابراہیم بن محمد بن صدیق غماری؛ ان سے عام اجازت حاصل تھی۔
4. ابو بکر العدنی بن علی بن ابی بکر باعلوی الحسینی، ان سے عام اجازت حاصل تھی۔
5. ابوبکر بن محمد بن ابی بکر التطوانی ، ان سے عام اجازت حاصل تھی۔
6. احمد بن ابی بکر الحبشی، ان سے عام اجازت حاصل تھی۔
7. احمد بن احمد بن محمد بلقاضی العدولی الوجدی المغربی، ان سے عام اجازت حاصل تھی۔
8. احمد بن عبداللہ بن عبدالعزیز الرقیمی القدیمی الشافعی المکی؛ ان سے عام اجازت حاصل تھی۔
9۔ احمد بن قاسم بن علی بن احمد الیقینی الحسنی التہامی؛ ریاض میں ان کے سامنے مسلسل بالاولیہ پڑھی، اور ان سے "الاوائل السنبلیہ" اور اس کے ذیل کی سماعت کی، اسی طرح "الاوائل العجلونیہ" امام ترمذی کی "الشمائل المحمدیہ"، امام بخاریؒ کی "جزء اعتقاد البخاری"، "نخبۃ الفکر"، "قصیدہ غرامی صحیح" اور "لامیہ ابن تیمیہ" اور "اربعین نوویہ"اور امام جوینی کی "الورقات" کی سماعت کی۔
10۔ احمد بن محمد بن یعقوب المنشی، جو جامعہ تعلیم الدین ہندوستان کے شیخ الحدیث تھے، ان سے اجازت عامہ حاصل تھی۔
11۔ احمد بن محمد رمضان دمشقی، اجازت عامہ کے ساتھ۔
12۔ احمد بن محمد صالح الحبال دمشقی، اجازت عامہ کے ساتھ۔
13۔ احمد طنطاوی جوہری جاکرتی، اجازت عامہ کے ساتھ۔
14۔احمد علی بن محمد یوسف دیوان سورتی، ان سے صحیح بخاری، صحیح مسلم، موطا امام مالک، جزء محمد بن عبد اللہ انصاری، شمائل محمدیہ، موطا امام محمد، اوائل اور اواخرصحاح ستہ کا سماع کیا۔ اور اجازت عامہ حاصل کی۔
15۔احمد مختار رمزی، ان سے بھی اجازت عامہ حاصل کی۔
16۔ احمد میاں بن جمیل احمد بن سعید بن احمد بن حافظ امیر تھانوی، ان سے بھی اجازت عامہ حاصل کی۔
17۔ احمد نصیب المحامید، ان سے اجازت عامہ حاصل تھی۔

بسم الله الرحمن الرحيم
*علمِ حدیث کے طلبہ کو قیمتیں نصیحتیں*
بقلم: شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ تعالی
ترجمہ: مولانا محمد یاسر عبد اللہ
(جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی)
برادرِ مکرم مُحب طارق عبد الرحیم ابو یوسف اور برادرانِ مکرمین، سلَّمهم المولى ورَعاهم، وعلَّمَهم ونفع بهم وتولَّاهم.
از عبد الفتاح بن محمد ابو غدہ دعاؤں کا امید وار
السلام عليكم ورحمه الله وبركاته.
بعد از سلام، آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا، اس خبر سے مسرّت ہوئی کہ آپ حضرات نے «المنظومة البيقونية» ہمارے شیخ، علامہ، محدّث وفقیہ حسن مَشَّاط مالکی مکّی رحمہ اللہ تعالی کی شرح سمیت پڑھ لی ہے، اللہ انہیں اجر وثواب مرحمت فرمائے۔ بعد ازاں آپ لوگ «مقدمة الإمام ابن الصلاح» پڑھنا شروع کرچکے ہیں، یہ ایک مبارک کتاب ہے، علمِ مصطلح اور علماء وصلحاء کے ساتھ ادب واحترام کی تعلیم دیتی ہے، اور بعد کی تالیفات کے باوجود ہمیشہ سے علمِ مصطلح کی بہترین کتاب شمار ہوتی ہے۔ اس مقدمہ کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے مؤلف امام، محدّث وفقیہ، جملہ علوم کے ماہرِ فن، مربّی، محقّق ومدقّق، اور فصیح وبلیغ ہیں، رحمه الله تعالى.
آپ نے ذکر کیا ہے کہ آپ حضرات مقدمہ کے بعد کسی ایک یا چند کتابوں کو پڑھنے کے تعلق سے مجھ سے مشاورت چاہتے ہیں، میری خیر خواہانہ رائے ہے کہ آپ ایک بار دوبارہ «مقدمة ابن الصلاح» پڑھیے؛ کیونکہ اسے دوسری بار پڑھتے ہوئے آپ کو ایسی نئی چیزیں دریافت ہوں گی جن سے پہلی بار آپ کا گزر نہ ہوا ہوگا، کسی علم پر دسترس حاصل کرنا، اس میں توسّع سے زیادہ بہتر ہے؛ کیونکہ علم پر دسترس، صحیح معنوں میں اس کے ضبط وتحقیق اور پہلی بار پڑھے ہوئے کی درستی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ جب آپ اس رائے پر عمل کریں گے تو ان شاء اللہ تعالی یہ نکتہ آپ کے سامنے واضح ہوجائے گا۔
آپ جن اہلِ علم کو علمِ مصطلح میں ماہر دیکھ رہے ہیں، مثلًا حافظ ابن الصلاح، حافظ عراقی، ابن حجر، سیوطی، سخاوی اور ان جیسے علماء، وہ اس فن کی امہاتِ علم کتابوں میں سے ہر ایک سے بارہا مرور کرچکے ہیں، ہر شیخ کے سامنے اسے دوبارہ پڑھتے رہے، یوں اپنے سمجھے ہوئے کی درستی میں انہیں تقویت حاصل ہوئی، جن امور کو انہوں نے غلط سمجھا تھا ان کی تصحیح ہوئی، وہ مذاکرہ کرتے، اور پہلے جن امور سے غفلت برتی تھی انہیں توجہ سے پڑھتے۔ لہذا میری رائے ہے کہ آپ مقدمہ کو دوبارہ پڑھیے، اور یہ خیال نہ کیجیے کہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے لیے محض ایک بار کسی کتاب یا علم کو پڑھ لینا کافی ہے، اور ایک بار میں ہی وہ علم ان میں صحت ودرستی کے ساتھ ڈھل جاتا ہے۔ اب ایسی ہستیوں سے روئے زمین خالی ہوچکی ہے، کبھی کبھار کوئی نادر شخصیت ایسی ہوسکتی ہے۔
کم از کم تین بار «مقدمة ابن الصلاح» کا مرور کیجیے، ممکن ہو تو دوسری بار اس کے ساتھ مقدمہ کے حاشیہ عراقی «التقييد والايضاح» کا مطالعہ کیجیے، اور تیسری بار حافظ ابن حجر کی «النكت على كتاب ابن الصلاح» پڑھیے۔ جب آپ حصولِ علم پر صبر کرنا ہی چاہتے ہیں تو اللہ سے مدد مانگیے اور سستی نہ کیجیے۔
مزید براں میری رائے ہے کہ آپ حضرات ابن عبد البر کی «جامع بيان العلم وفضله» کا اجتماعی مطالعہ کیجیے؛ کیونکہ یہ کتاب آسان اسلوب میں علم وادب اور تادیب پر مشتمل ہے، اور عمدہ طباعت کے ساتھ شائع کیے جانے کے لائق ہے، تاکہ ان کی حلاوت ومٹھاس اور نافعیّت میں اضافہ ہو۔ نیز علمِ مصطلح میں مہارت کے لیے آپ لوگوں کو حافظ سمعانی کی کتاب «أدب الإملاء والاستملاء» کا اجتماعی مطالعہ کرنا بھی مناسب ہوگا؛ یہ عمدہ، رقیق ولطیف، اور مُنیف کتاب ہے، اگرچہ کتاب کا نام اس کے مضمون پر دلالت نہیں کرتا ہے۔
اس موضوع میں علمِ مصطلح میں مہارت اور توسّع کی غرض سے حافظ خطیب بغدادی کی کتاب «الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع» (طبع شیخ محمود طحان) بھی پڑھیے، یہ کتاب حلاوت وطراوت، اور نفیس اخلاق وآداب پر مشتمل ہے۔ اسی طرح ابن جماعہ کی كتاب «تذكرة السامع والمتكلم بآداب العالم والمتعلِّم» بھی مفید ہے۔
اختتام میں آپ لوگوں سے امید ہے کہ علمی خدمات کے لیے سماعت وبصارت اور جسم وعزم کی قوت کے لیے دعا فرمائیں گے، اللہ تعالی آپ حضرات کو نافع بنائے، اور حفاظت فرمائے۔
والسلام عليكم ورحمه الله وبركاته.
ریاض 12/ 7/ 1412
آپ کا بھائی عبد الفتاح ابو غدہ
سابقہ موضوع کا تتمہ:
میری کوتاہ نگاہ میں مفید کتب میں سے ایک ہمارے شیخ ظفر احمد تھانوی کی کتاب قواعد في علوم الحديث کا مطالعہ بھی ہے؛ کیونکہ یہ کتاب گوناگوں اور منتخب اصطلاحی ثقافت کی حامل ہے، اور اس کے مؤلف ماہرِ فنون ہیں، اس لیے اس کا مطالعہ کرتے ہوئے مباحث کی عمدہ پیش کش، واضح اسلوب اور ضبط کی بناء پر قاری کو نشاط حاصل ہوتا ہے۔ اس سے فراغت پا کر امام عبد الحی لکھنوی کی کتاب «الرفع والتکمیل في الجرح والتعدیل» کا انتخاب کیا جا سکتا ہے، بلکہ اس سے قبل امام لکھنوی کی ہی دوسری کتاب «الأجوبة الفاضلة للأسئلة العشرة الكاملة» کا مطالعہ زیادہ بہتر ہوگا؛ کیونکہ اس میں مباحث کا تنوّع ہے، قلب ودماغ ایک رنگ سے دوسرے رنگ کی جانب منتقل ہوتے ہیں، جو نشاط اور قوت کا باعث ہوتا ہے۔
میں آپ لوگوں کو تاکید کے ساتھ نصیحت کرتا ہوں کہ مجلس میں حاضری سے قبل اس میں پڑھی جانے والی بحث کا مطالعہ کیجیے؛ یہ عمل مضبوط فہم، دیرپا ضبط، جلدی وتیز رفتار مطالعہ اور نشاط کا سبب ہوگا۔ نیز مشتبہ الفاظ کے ضبط اور ان کے معانی کے دقیق فہم کے لیے کچھ کتبِ لغت کو قریب رکھیے، مثلًا: القاموس المحیط، المصباح المنير، مختار الصحاح، المعجم الوسيط؛ کیونکہ عمومی طور پر ہر طالب علم اور خصوصًا حدیث شریف کے طالب علم کے لیے لغت کا علم نہایت اہم ہے، اس کا اہتمام کیجیے، اللہ تعالی آپ کو توفیق بخشے۔

ڈاکٹر محمد فہیم اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں شعبہ "جینیاتی علوم " کے پروفیسر ہیں، انہوں نے ایگریکلچرل یونیورسٹی پشاور سے Plant Pathology میں ماسٹر اور پھر اسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ پچھلے دنوں وہ جامعہ امداد العلوم الاسلامیہ جامع مسجد درویش پشاور تشریف لائے اور تخصص في الحديث کے طلباء کے سامنے سائنسی علوم اور تحقیق کے موضوع پر گفتگو فرمائی۔
ما كان لعليٍّ عليه السلام اسمٌ أحبَّ إليه من « *أبي تُراب* »، وإن كانَ ليفرح به إذا دُعِيَ بها.
*سهل بن سعد رضي الله عنه.*
وذلك لأن النبي صلى الله عليه وسلم هو الذي سمَّاه به.
الطُّرطُوشي:
«وإذا رأيت الرجل هجامًا على أعراض الناس وثلبهم فقد ماثل عالم الكلاب، فإن دأب الكلب أن يجفو من لا يجفوه ويبتدئ بالأذية من لا يؤذيه، فعامله بما كنت تعامل به الكلب إذا نبحك! ألست تذهب في شأنك ولا تخاصمه ولا تسبه؟ فافعل بمن يهتضم عرضك مثل ذلك».

7 اکتوبر 2023ء نے میری زندگی میں تبدیلی پیدا کی، میں نے تاریخ فلسطین سے متعلق ہزاروں صفحات پڑھے
🌸 تاریخ فلسطین عہد بعہد کتاب کا ترجمہ مکمل ہو گیا ہے الحمدللہ

تاریخ فلسطین عہد بعہد (قسط 154)
شیخ طارق سویدان، ترجمہ : اسد اللہ خان پشاوری
سال 1416ھ 1995ء
فتحی الشقاقی کا قتل:
اس کے بعد اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف اپنی جابرانہ کارروائیوں میں اضافہ کیا اور پوری دنیا میں مجاہدین کا تعاقب کرنے کے لیے فلسطین کی سرحدیں عبور کر لیں، 26 ستمبر 1995 کو مالٹا میں اسلامی جہاد کے رہنما ڈاکٹر فتحی الشقاقی کو قتل کر دیا گیا۔ یہ اسرائیلی انٹیلی جنس موساد کے ہاتھوں ہوا، لیکن یہ عمل بھی فلسطین کے اندر جہادی کارروائیاں روکنے میں ناکام رہا، جہادی کارروائیاں مسلسل جاری رہیں۔
اسحاق رابن کا قتل:
یہ معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو گیا جب ایک یہودی انتہا پسند نے ایک بڑے جشن کے اجتماع میں اسرائیل کے وزیر اعظم اسحاق رابن کو قتل کر دیا، جس کی وجہ یہودی انتہا پسندوں کا امن معاہدے کے خلاف احتجاج تھا، کچھ یہودی جنہوں نے امن معاہدے کو مسترد کر دیا تھا ، انہوں نے وزیراعظم کو قتل کر دیا۔
عرب ممالک اور عرفات کا تعزیت پیش کرنا:
ایک بڑے اجتماع میں اسحاق رابن کا بڑا جنازہ ہوا ، جس میں دنیا کے مختلف ممالک کے صدور اور بڑی شخصیات نے شرکت کی، جس میں عربوں کے وفود نے شرکت کی اور شرکاء میں یاسر عرفات بھی تھے جنہوں نے اسحاق رابین پر سورت فاتحہ پڑھا۔
حماس اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان مذاکرات:
18 دسمبر 1995 کو حماس کے پولیٹیکل بیورو کے نائب چیئرمین جناب خالد مشعل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان سلیم زعنون قیادت میں باہمی بات چیت کے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ حماس کو قائل کیا جاسکے کہ وہ جہادی کارروائیوں کو ترک کر کے فلسطینی انتخابات میں حصہ لے، لیکن حماس نے اپنی طرف سے کارروائیوں کو روکنے سے انکار کر دیا اور فلسطینی اتھارٹی نے بھی حماس کی شرائط کو ماننے سے انکار کردیا، اور یہ معاملہ دونوں جماعتوں کے درمیان زیر التواء رہا، حماس نے اسرائیل کے خلاف اپنی کارروائیاں بڑھا دیں، جبکہ یاسر عرفات اس جہادی کارروائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے، اس لیے اسرائیل نے امن کے معاہدات کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔
موسیٰ ابو مرزوق کی گرفتاری:
مئی کا مہینہ آیا، جس میں اسرائیل، فلسطینی تنظیم اور امریکہ نے مل کر حماس، اسلامی جہاد اور اس کی مالی معاونت کرنے والی تنظیموں کا پیچھا کرنے کے لیے ایک بہت بڑا آپریشن شروع کیا، جس کے نتیجے میں امریکہ نے ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق کو گرفتار کر لیا جو کہ حماس تحریک کے سیاسی بیورو کے سربراہ تھے اور امریکی شہریت رکھتے تھے، انہیں نیویارک ہوائی اڈے سے گرفتار کیا گیا، وہ امریکہ کے دورے پر تھے جبکہ ان پر کوئی تہمت نہیں تھی، 8 مئی 1995 کو امریکی وفاقی جج نے ایک فیصلہ جاری کیا کہ ابومرزوق کو اسرائیل کے حوالے کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ حماس تنظیم سے تعلق رکھتا ہے، حالانکہ ابومرزوق حماس کے سیاسی ونگ کے علاوہ کوئی نمائندگی نہیں کر رہے تھے، اس لیے ابو مرزوق نے اس فیصلے پر اپیل کی ، یہ کیس امریکی عدالتوں میں ایک مدت کے لیے زیر سماعت رہا تھا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ حماس کے دو بازو (ونگ) تھے، جن میں سے پہلا عسکری ونگ تھا، جسے عزالدین القسام بریگیڈز کہا جاتا تھا، اور دوسرا سیاسی ونگ تھا، جو حماس کے ساتھ اس طرح کام کر رہا تھا جس طرح برطانیہ میں آئرلینڈی انقلابیوں کے ساتھ کام کر رہے تھے، چنانچہ امریکہ اور برطانیا آئرش انقلابیوں کی سیاسی ونگ کے ساتھ معاملات چلاتے تھے، اور ان کے درمیان بات چیت اور مکالمے کے ذرائع موجود تھے، تاہم یہ معاملہ عربوں کے ساتھ مختلف تھا، کیونکہ وہ حماس کے دونوں تنظیموں کو دہشت گرد سمجھتے تھے، جس کا کچلنا وہ ضروری سمجھتے تھے!۔

تاریخ فلسطین عہد بعہد (قسط 153)
شیخ طارق سویدان، ترجمہ : اسد اللہ خان پشاوری
عرفات کی غزہ آمد:
5 جولائی 1994ء کو یاسر عرفات غزہ پہنچے ، بڑے ہجوم نے ان کا استقبال کیا ، اس نے یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امریکی سرپرستی میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کے صدر کا عہدہ سنبھالا، تب سے امریکہ امن کے عمل کا باضابطہ سرپرست بنا ہے۔
اردن کا امن کےعمل سے اتفاق:
25 جولائی 1994 کو شاہ حسین نے اردن اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لیے واشنگٹن میں اسحاق رابن کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے، بشرطیکہ اردن اور اسرائیل کے درمیان حتمی معاہدے پر بعد میں اردن میں دستخط کیے جائیں گے، جہاں تک یاسر عرفات کا تعلق تھا انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کو چلانا شروع کیا، اور 16 اگست 1994 کو ان کا پہلا کام یہ تھا کہ انہوں نے حماس، اسلامی جہاد اور امن کے عمل کی مخالف قوتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی مہم شروع کی، اس طرح اوسلو کے امن معاہدہ کا مقصد حاصل ہوگیا، اس معاہدے کی وجہ سے پہلی بار فلسطینیوں کا جو تنازعہ یہودیوں کے ساتھ تھا وہ نکل کر فلسطینی بمقابلہ فلسطینی تنازعہ بن گیا۔
وادی عربہ معاہدہ:
26 اکتوبر 1994 کو اردن کے وادی عربہ میں، اردن اور اسرائیل کے درمیان ایک مستقل امن معاہدے پر دستخط کیے گئے جس کے بدلے میں اردن کو پانی کے حقوق مل گئے، اور امریکہ اردن کی معیشت میں مدد کرے گا، اور اردن کو علاقائی انتظامات میں جگہ دے گا۔
سب سے پہلے غزہ اور اریحا:
جہاں تک فلسطین کا تعلق تھا، اسرائیل اور امریکہ میں یاسر عرفات کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے بعد طے پانے والے حتمی حل کے معاہدے کے اندر، یہ طے پایا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کو صرف غزہ اور اریحا دیا جائے گا، جو کہ پورے فلسطین کے علاقہ کا صرف 2 فیصد بنتا ہے، اور یہ کہ بعد میں دوسرے اور تیسرے مرحلے کے لیے معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے، جس میں دیگر مشکل مسائل بھی حل کیے جائیں گے، جس میں یروشلم کا مسئلہ بھی شامل ہوگا، جس کے بارے میں بحث کرنے سے اسرائیل نے انکار کر دیا تھا اور اسے ملتوی کرنے کے لیے کہاتھا۔
یروشلم میں کمانڈو کا آپریشن:
چونکہ القدس کا مسئلہ فلسطینی عوام کے لیے ایک بنیادی اور اہم مسئلہ تھا، اس لیے تین دن بعد اسلامی مزاحمت نے تل ابیب میں ایک کمانڈو کارروائی کی جس میں 22 صہیونی قتل اور 47 زخمی ہوئے تھے۔ یہ امن کے عمل کے لیے ایک تباہ کن دھچکا اور یہودیوں کے لیے تکلیف دہ واقعہ تھا، کیونکہ انہیں امید تھی کہ اس امن معاہدے سے جہادی کارروائیاں ختم ہو جائیں گی، لیکن جہادی کارروائیاں جاری ہیں۔
عرفات کا فلسطینیوں کو قتل کرنا:
فلسطینی اتھارٹی نے غزہ میں حماس اور اسلامی جہاد کے ایک بڑے مظاہرے کو دبانے کے سوا کچھ نہیں کیا، اور پہلی بار فلسطینیوں کے ہاتھوں 13 مظاہرین کو شہید اور 300 کو گرفتار کیا گیا، اس موقع پر اسلامی مزاحمتی قوتیں فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ ایک بڑے مسئلے میں پڑ گئی، جو امن کے حصول کے لیے پرعزم تھی، اگرچہ انہوں نے انتفاضہ کو دبایا اور اس کو ختم کردیا تھا۔
اردن میں اسرائیل کا سفارت خانہ:
اردن میں، اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ مکمل ہوا، اور اس کے نتیجہ میں اسرائیل میں اردن کا سفارت خانہ کھل گیا، 12 جولائی1994 کو اسرائیل کو سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا، جس کے بعد یہودیوں نے اردن کے اندر کاروبار کرنا شروع کیا، اسرائیلی کمپنیوں نے اردن کی مارکیٹوں کو ڈھونڈنا شروع کیا اور وہاں اپنا سامان پھیلا دیا۔

تاریخ فلسطین عہد بعہد (قسط 152)
شیخ طارق سویدان، ترجمہ : اسد اللہ خان پشاوری
سال 1414ھ 1993ء:
شہید عماد عقل:
اس سال مشہور مرد میداں عماد عقل جو کہ حماس کے اہم ترین رہنما اور علامتوں میں سے ایک تھے، ایک فوجی آپریشن میں شہید ہو گئے تھے، انہیں 60 اسرائیلی بکتر بند گاڑیوں پر مشتمل اسرائیلی فوج نے گھیر لیا تھا، لیکن انہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے، وہ ایک عمارت کی چھت سے ان سے لڑتے رہے اور آخر کار ایک اسرائیلی اینٹی آرمر گولہ نے اس کے جسم کو چھیر پھاڑا، جس سے وہ شہید ہوکر گر پڑے۔
شہید کی تدفین میں شریک ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ہمیں اس کے جسم میں گولیوں کے 70 زخم اور چاقو کے کئی زخم ملے تھے۔
جہاں تک اسرائیل کا تعلق تھا، اس نے عماد عقل کے قتل پر جشن منایا، لیکن یہ جشن زیادہ دنوں تک نہیں چلا، دو ہفتے بعد حماس کا مضبوط ردعمل آیا، کیونکہ حماس نے "آپریشن عماد عقل" کے نام سے ایک آپریشن میں اس کا بدلہ لیا، جس میں انہوں نے ایک کرنل میر مینٹیس کو ہلاک کر دیا، یہ شخص جس کے بارے میں اسرائیلی اخبار ماریو کا کہنا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف نجی جنگ کا دل اور سوچنے والا دماغ تھا اور انتفاضہ کے خلاف اسرائیلی فوج کی علامت تھا۔
سال 1415ھ 1994ء:
شام کے ساتھ امن معاہدہ
اس کے بعد امریکہ نے ملک شام کو ملاقات کی دعوت دی اور یہ ملاقات 16 جنوری 1994 کو صدر حافظ الاسد اور امریکی صدر کلنٹن کے درمیان ہوئی، یہ ملاقاتیں جنیوا میں ہوئیں اور صدر حافظ الاسد نے اسرائیل کے ساتھ سخت شرائط کے ساتھ امن تعلقات قائم کرنے پر اتفاق کیا، شرط یہ تھی کہ اسرائیل گولان سے دستبرداری اختیار کرے گا، چنانچہ اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین نے گولان سے نکلنے کا مجوزہ امن منصوبہ پیش کیا، کہ امن کے مرحلہ وار اتفاق کے ساتھ ساتھ وہ گولان سے سلسلہ وار نکلیں گے، لیکن اس شرط نے شام کے ساتھ امن کے عمل کو روک دیا ہے۔
ابراہیمی مسجد کا قتل عام:
ان مذاکرات کے دوران باروچ گولڈسٹین نامی یہودی آباد کار نے فجر کی نماز کے دوران الخلیل حیبرون کی ابراہیمی مسجد پر دھاوا بول دیا، نماز فجر کے دوران محافظوں اور 29 نمازیوں کو شہید اور درجنوں کو زخمی کر دیا، پھر "کیچ اور کہانا" کی تحریک نے اس کارروائی کی حمایت کی، اور ربی بورگ نے اس عمل کی تعریف کرتے ہوئے فتویٰ جاری کیا، جس میں اس نے کہا تھا کہ باروچ گولڈسٹین نے جو کچھ کیا وہ خدا کی تعظیم اور یہودیوں کا مذہبی فریضَہ ہے۔
اس کے نتیجے کے طور پر، حماس کے بہادر رہنما، انجینئر یحییٰ عیاش کی طرف سے منظم کردہ پانچ بڑے آپریشنز کے ذریعہ اس کا جواب دیا گیا، جس کے بعد حماس نےاسرائیل سے پیشکش کی کہ فلسطینی شہریوں کا قتل عام بند کرنے کے بدلے میں حماس یہودی آباد کاروں کے قتل عام کو روکے گا، لیکن اسرائیل نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے ظلم و ستم کی پالیسی جاری رکھی۔
انتفاضہ کا موقوف ہونا
اس دباؤ کے بعد، حماس اپنی صفوں کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے اپنی کارروائیوں کو پرسکون کرنے پر مجبور ہوئے، خاص طور پر اس کے رہنماؤں کی چھ قیادتوں کی گرفتاری کے بعد، فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن نے فلسطینی عوام سے انتفاضہ کو روکنے کا مطالبہ کیا ، انہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ عہد کیا کہ وہ ان کے حقوق ان کو دلائیں گے، اور فلسطینی عوام کو امن دیں گے، اس فوجی دباؤ اور پرامن دباؤ کے تحت، عظیم انتفاضہ اپنے قیام کے 79 ماہ بعد، اور فلسطینی عوام کے 1,392 شہداء کی شہادت کے بعد، 5 مئی 1995 میں بند ہو گیا، اوسطاً ہر دو دن میں ایک شہید ہوا تھا، شہدا میں 362 بچے شہید ہوئے تھے۔
پہلے انتفاضہ کے نتائج:
ان خساروں اور نقصانات کے باوجود انتفاضہ سے بہت بڑی کامیابیاں اور عالمی فوائد حاصل ہوئے، جن کا خلاصہ ذیل میں دیا گیا ہے:
(1)پوری دنیا کو معلوم ہوگیا کہ مسئلہ فلسطین کا حل ضروری ہے، اور فلسطین پر قبضہ کوبرقرار رکھنا نا ممکن ہے۔
(2)فلسطینی عوام اور ان کے منصفانہ مقصد کے لیے عالمی ہمدردی میں اضافہ ہوا۔
(3)انتفاضہ نے اسرائیلی جمہوریت کے جھوٹ اور اس کے جابرانہ طرز عمل کی حقیقت کو آشکار کیا۔
(4) انتفاضہ نے فلسطینی عوام کے تشخص کو مضبوط کیا اور ان میں آزادی کے بیج بوئے۔
(5)فلسطینی معیشت کو اسرائیلی اداروں پر انحصار سے نجات مل گئی اور ایک متبادل فلسطینی معیشت کے قیام سے اسرائیلی معیشت کو بھی بہت معاشی نقصان ہوا۔
(6)اسرائیلی انٹیلی جنس کے ساتھ کام کرنے والے فلسطینی جاسوسوں اور غداروں کو سخت اور شدید دھچکا لگا۔
(7)انتفاضہ نے ایک نئی، دلیر اور خود اعتماد نسل پیدا کی جو آزادی اور قبضے سے نجات کی خواہش رکھتی تھی۔

تاریخ فلسطین عہد بعہد (قسط 151)
شیخ طارق سویدان، ترجمہ : اسد اللہ خان پشاوری
سال 1413ھ 1993ء:
اوسلو معاہدہ:
یہ صورت حال ایک مدت تک جاری رہی جس کے دوران اسرائیل کو جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے حملوں اور فلسطین کے اندر عزالدین القسام بریگیڈز کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ 13 ستمبر کو اوسلو امن معاہدے کا اعلان کیا گیا، جس میں فلسطین آزادی تحریک PLO نے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا، جس کے بدلے میں اسرائیل PLO کو غزہ اور مغربی کنارے میں خود مختاری کا حق دیں گے، بشرطیکہ پہلے مرحلے میں صرف غزہ اور مغربی کنارے کا صرف ایک شہر اریحا ( Jericho) فلسطینی اتھارٹی کے حوالہ کیا جائے گا ۔
نتیجے کے طور پر، اس معاہدے کی مخالفت کرنے والے فلسطینی دھڑوں نے دمشق میں پی ایل او کے خلاف ایک فلسطینی تحریک کا اعلان کیا، اس حزب اختلاف کی تحریک کے ارکان میں حماس، اسلامی جہاد، پاپولر فرنٹ، ڈیموکریٹک فرنٹ اور دیگر شامل تھے، پی ایل او کے مخالفت میں حزب اختلاف کی نو دھڑوں کی ایک جماعت بن گئی، جنہوں نے اس معاہدے کی شدید مخالفت کا اعلان کیا، اس طرح پوری دنیا میں موجود اسلامی تحریکوں نے بھی اس کی مخالفت کا اعلان کیا، جہاں تک فلسطین کی سب سے بڑی تنظیم الفتح تھی، اس نے اس کی حمایت کا اعلان کیا۔
اوسلو معاہدے کی وجوہات:
لیکن یہ معاہدہ کیوں ہوا؟ اس معاہدے کی وجوہات درج ذیل تھیں۔
(1) تنازعہ کے میدان سے عرب اسٹریٹجک منصوبہ بندی کا پیچھے ہٹنا ، جس کی ابتدا مصر نے کی تھی جو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے ساتھ نکل گیا تھا۔
(2)لبنان سے 1982 میں مزاحمت نکل گئی تھی، اور جنوبی لبنان میں اسرائیل کو لاحق خطرے کا خاتمہ ہوا تھا۔
(3)عرب یکجہتی کا خاتمہ ہوا تھا، اور 1990 میں دوسری خلیجی جنگ کے نتیجے میں ہونے والا بھاری مالی اور فوجی نقصان بھی اس کا سبب تھا۔
(4) خلیجی جنگ کے بعد انتفاضہ کے لیے عالمی حمایت غیر مستحکم ہو گئی تھی، جس میں فلسطینی آواز عراق کے ساتھ شامل ہوئی تھی۔
(5)سوویت یونین کا انہدام، عالمی توازن میں خلل اور دنیا میں طاقت کے توازن کا اسرائیل کی حمایت کرنے والی امریکی ریاست تک محدود ہونا۔
اسلامی تحریک کی اوسلو معاہدے کی مخالفت کی وجوہات:
اسلامی تحریک نے اہم وجوہات کی بنا پر اس معاہدے کی مخالفت کی، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
(1)اسلامی تحریک نے دیکھا کہ اس معاہدہ کے نتیجہ میں جہاد فی سبیل اللہ کا تعطل لازم آئے گا، اور یہ معرکہ حق اور باطل کا ہے، اس میں مذاکرات یا دستبرداری ناممکن ہے۔
(2) علماء کرام اور اسلامی تحریکوں کے رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے ایک شرعی فتویٰ کا سامنا آنا، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ فلسطینی سرزمین کی ایک بالشت حصہ سے بھی دستبرداری جائز نہیں، یہ فتویٰ جاری کرنے والوں میں شیخ یوسف القرضاوی، شیخ محمد الغزالی، شیخ محمد الزحیلی، شیخ عمر الاشقر اور بہت سارے دیگر علماء بھی شامل تھے۔
(3)تحریک نے دیکھا کہ اس معاہدے کے رو سے فلسطین کی 78% زمین پر اسرائیل کے حق کو تسلیم کیا جانا ہے، جس پر اس نے 1948 میں قبضہ کیا تھا، اور یہ وہ چیز ہے جسے تحریک کسی صورت قبول نہیں کرتی۔
(4)اس معاہدے میں القدس کی حیثیت کو بھی واضح نہیں کیا گیا تھا، کیونکہ اس معاہدے میں یہ کہا گیا تھا کہ یروشلم کے بارے میں بعد میں بات کی جائے گی، نیز اس معاہدے میں مہاجرین اور یہودی بستیوں کی حیثیت کو بھی واضح نہیں کیا گیا تھا۔
(5) اس معاہدے میں فلسطینی ریاست کی تشکیل شامل نہیں تھی، جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کے تحفظ اور ان کی آزادی کو معمول کے مطابق استعمال کرنے کی ضمانت نہیں دی گئی تھی۔
(6)اس معاہدہ کے نتیجہ میں مغربی کنارے اور غزہ میں بھی فلسطینیوں کا مکمل کنٹرول نہیں ہوگا، نہ ان کو بیرونی سلامتی حاصل ہوگی، نہ ان کو سرحدوں پر کنٹرول ہوگا اور اسرائیل کی اجازت کے بغیر ان کو قانون سازی کا حق بھی حاصل نہ ہوگا، یہ معاہدہ اسرائیل کو یہ حق دیتا تھا کہ وہ جب چاہے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں داخل ہو سکے۔
(7)یہ معاہدہ فلسطینی فوج کی تشکیل سے بھی روکتا تھا اور اسرائیل کی اجازت کے بغیر فلسطینیوں کو ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔
(8)اس معاہدے میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کو فلسطینی پارلیمنٹ کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی قانون کو ویٹو کرنے کا حق حاصل ہے اگر وہ اسرائیل کے مفادات سے متصادم ہو۔
(9) معاہدے میں یہ بھی شرط رکھی گئی تھی کہ اتھارٹی کو اسرائیل کے خلاف کسی بھی جہادی یا مسلح کارروائی کو دبانا ہوگا، اس طرح فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ہاتھ کا ایک آلہ کار بنتا، جس کے ذریعہ یہ فلسطینی اتھارٹی اور فلسطینیوں کے درمیان اختلاف اور لڑائی کا سبب بنتا۔
(10)معاہدے میں اس بات کی تصریح نہیں تھی کہ مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی فلسطینیوں کی سرزمین ہیں، بلکہ یہ کہا گیا تھا کہ یہ اسرائیلی سرزمین ہیں جن پر فلسطینیوں کو خود مختاری کا حق دیا گیا ہے۔
چونکہ یہ معاہدہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدوں کا دروازہ کھول رہا تھا، اس لیے عرب عوام نے اس کی مخالفت کی اور اسے مسترد کر دیا، لیکن زیادہ تر عرب تنظیموں نے عمومی طور پر اس پر اتفاق کیا اور اس معاہدے کی بنیاد پر غزہ اور اریحا میں باقاعدہ فلسطینی اتھارٹی قائم کی گئی، اور پی ایل او تنظیم نے اس معاہدہ کی بنیاد پر اسرائیل کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کو روکنے پر اتفاق کیا۔

تاریخ فلسطین عہد بعہد (قسط 150)
شیخ طارق سویدان، ترجمہ : اسد اللہ خان پشاوری
سال 1412ھ 1992ء:
عزالدین القسام بریگیڈز:
جن دنوں مذاکرات جاری تھے، حماس نے تحریک حماس کے عسکری ونگ، شہید عزالدین القسام بریگیڈز کے آغاز کا اعلان کیا، جس سے حماس نے اپنے کام میں ایک نیا طریقہ اپنانا شروع کر دیا ، انہوں نے اسرائیل کے خلاف چھوٹی، تکلیف دہ فوجی کارروائیاں شروع کر دیں، اور گوریلا شہادت کا افسانہ ترتیب دینے لگا۔
اوسلو مذاکرات:
جس وقت فلسطین تنظیم امریکہ میں اسرائیل کے ساتھ عوامی سطح پر مذاکرات کر رہی تھی، یاسر عرفات اور اسرائیل کے درمیان اوسلو میں انتہائی خفیہ مذاکرات ہو رہے تھے اور یہ مذاکرات ڈیڑھ سال تک 10 دارالحکومتوں میں 14 دوروں تک سخت رازداری میں جاری رہے۔
اسحاق رابین (Yitzhak Rabin) کا انتخاب:
اسی زمانہ میں اسرائیلی انتخابات کا آغاز ہو چکا تھا اور اسحاق رابین (Yitzhak Rabin) کو وزیر اعظم بنایا گیا، ان کے انتخابی پروگرام میں فلسطینیوں کو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں خود مختاری سے روکنے کا خیال شامل تھا ، اسرائیل نے اس خیال کی وجہ سے اس کو پسند کیا، کیونکہ اس سے انتفاضہ الگ الگ شہروں میں تقسیم ہوجائے گا، جس کی نگرانی اور کنٹرول آسان ہوجاتا۔
حماس کے رہنماؤں کی ملک بدری:
اس کے بعد، 17 دسمبر 1992ء کو اسرائیل نے فلسطین سے حماس کے 400 سے زائد رہنماؤں کو، جن میں اسلامی جہاد تحریک کے کچھ رہنما بھی تھے، جنوبی لبنان بھیج دیا، انہیں ایک خالی صحرائی سرزمین میں چھوڑ دیا اور پھر ان جلاوطن کیے جانے والوں کو فلسطین واپس آنے سے روک دیا، ان جلاوطن کیے جانے والوں میں سے ایک ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی بھی تھے ، جو فلسطین میں حماس کے سرکردہ رہنماوں میں سے ایک تھے، جلاوطن کیے جانے والوں کے معاملے کی خبر پھیل گئی اور اس کے لیے عالمی سطح پر اعتراض اٹھایا گیا، جلاوطن کرنے والوں نے ان کے لیے ایک کیمپ بنایا کھلے آسمان کے نیچے جس کو "مرج الزہور" کہتے تھے، جہاں سے وہ فلسطین نہیں جاسکتے تھے، اسی کیمپ سے فلسطینیوں کے بیانات دنیا اور خبر رساں ایجنسیوں کو سننے کے لیے دیے جاتے تھے۔
حزب اللہ:
اس عرصے میں لبنان کے منظر نامے پر ایک نئی جماعت کا نام ابھرا، جس کا نام شیعہ حزب اللہ تھا، جسے ایران کی بھرپور حمایت حاصل تھی، اس جماعت نے اسرائیلی فوج اور اسرائیلی ایجنٹ جنوبی لبنان کی فوج کے خلاف بڑی فوجی کارروائیاں شروع کر دیں، ان کارروائیوں سے دونوں فوجوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔
القسام اور حزب اللہ کا اسرائیل پر حملہ:
اس دوران عزالدین القسام بریگیڈز نے بھی فلسطین کے اندر بہت بڑی کارروائیاں کیں، جبکہ حزب اللہ جنوبی لبنان سے کاتیوشا (Katyusha)راکٹوں سے اسرائیل پر حملے تیز کرنے لگے، جو اسرائیلیوں بستیوں تک پہنچتے تھے، جب اسرائیل لبنانی یا فلسطینی شہریوں پر بمباری کرتے، حزب اللہ اسرائیلی شہریوں پر حملہ کرتے تھے۔
اکاؤنٹ جمع کروانا:
چنانچہ اسرائیل نے اکاؤنٹنگ کے نام سے ایک آپریشن کیا، جو ایک بہت بڑا آپریشن تھا جس میں اس نے دوبارہ جنوبی لبنان پر حملہ کیا اور زمینی، فضائی اور سمندری راستے سے حزب اللہ پر بمباری کی، جس کے نتیجے میں حزب اللہ نے بڑے پیمانے پر فدائی کاروائیاں کیں، پھر اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان زبانی مفاہمت کی بنیاد پر اسرائیل پیچھے ہٹ گیا، مفاہمت اس بات پر ہوئی کہ اسرائیل شہریوں پر حملہ نہیں کرے گا اس کے بدلے حزب اللہ اسرائیل کے شہروں اور دیہاتوں پر کاتیوشا (Katyusha) راکٹوں سے حملہ نہیں کرے گا۔
حزب اللہ اسرائیل جنگ:
لیکن حزب اللہ نے فوجی کارروائی بند نہیں کیں، بلکہ اسرائیلی فوجی مقامات پر حملے اور کارروائیاں جاری رکھیں، یہاں تک کہ حزب اللہ کی کارروائیاں سالانہ 900 آپریشنز تک پہنچ گئیں، یعنی ہر روز تقریباً تین آپریشنز، جواب میں اسرائیل نے جنوبی لبنان پر بمباری کی، اور گیم دوبارہ شروع ہو گئی، جب بھی اسرائیل لبنان میں شہریوں پر حملہ کرتا، حزب اللہ بھی اسرائیلی شہریوں پر حملہ کرتا، حزب اللہ منظم فوجی طاقت تھی، جو شدت کے ساتھ جواب دیتی تھی۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Location
Category
Contact the school
Telephone
Address
Peshawar