
Most powerful picture on internet today 🙌🏽
Learn to Lead...!!!
Most powerful picture on internet today 🙌🏽
Arm Wrestling Resident Officer Vs. Director Student Affairs BZU
The University shall open w.e.f Wednesday the 19.11.2024 with physical appearance.
بڑے شہروں میں دیہاتی لڑکوں کے ساتھ ایک بڑی ٹریجدی یہ ہوجاتی ہے کہ حادثاتی طور پر کسی ایلیٹ سے ملاقات ہوجاتی ہے، اس کے ساتھ کافی کا ایک کپ پیتا ہے اور یہی سے اس کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔
پھر یہ دیکھتا ہے کہ یہ برگر تو بہت اچھے لوگ ہیں، ان کے ساتھ بیٹھنے سے تو عقل و خرد کے نیے دریچے کھلتے ہیں۔
یہی سے یہ بھی برگر بننے کی کوشش شروع کرتا ہے، لیکن یہ بے چارہ تو بَن کباب ہوتا ہے۔ برگر کی نقل اتارتے اتارتے اس کی کھال اتر جاتی ہے لیکن یہ برگر نہیں بن پاتا۔
پھر یہ زندگی بھر شاخت کے بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔
ایسے میں مجھے محمد حسن عسکری کی یہ عبارت یاد آتی ہے:
"صوبہ سرحد میں مجھے ایک جاہل ترین آدمی ملا۔ وہ ایک گریجویٹ تھا۔ موجودہ کالجوں کی کچی پکی تعلیم، آزاد خیالی اور ترقی پسندی نے اسے عجیب چیز بنا دیا تھا۔ اس کی زندگی میں کوئی مرکزیت باقی نہیں رہی تھی۔ اسے یہ بھی احساس نہیں تھا کہ انسانی زندگی کےلیے کن کن باتوں کی ضرورت ہے۔ اس کے دماغ نے اتنے انمل، بے جوڑ اثرات قبول کیے تھے کہ بالکل باؤلی ہنڈیا بن کر رہ گیا تھا۔ مستقل بے اطمینانی اور ہر چیز سے مخاصمت اس کی فطرتِ ثانیہ ہوگئی تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ جب اس قسم کی بے اطیمنانی بڑی مقدس چیز بن سکتی تھی کیونکہ اس کا عمل اور چیزوں کے ساتھ ساتھ خود آدمی کی اپنی ذات پر بھی بڑی شدت سے ہوتا تھا۔ اس قسم کی بے اطمینانی کے نمونے دستو فسکی نے بڑی فراوانی سے پیش کیے ہیں مگر جب سے یہ عقیدہ رائج ہوا ہے کہ اصل خطا ماحول کی ہے، آدمی اپنی ذات سے معصوم واقع ہوا ہے، اس وقت سے یہ اندازِ نظر خود پسندی کی ایک شاخ بن گیا ہے۔ آدمی ہر چیز سے غیر مطمئن رہتا ہے سوائے اپنے آپ کے۔ چنانچہ اس نوجوان کی آنکھوں سے ایک مہلک بے گانگی ٹپکتی تھی۔ کسی چیز کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں اپنائیت سے چمک پیدا نہیں ہوتی تھی۔ ہر چیز کی مخالفت کرنا اور ہر چیز سے غیریت محسوس کرنا اس کے نزدیک گویا سب سے بنیادی جمہوری حق تھا۔ اگر اسے میر کا یہ شعر:
وجہ بے گانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
سنایا جاتا تو اسے انتہائی مہمل معلوم ہوتا۔ یہ آزاد خیالی اور ترقی پسندی کا المیہ۔”
محمد حسن عسکری، عسکری نامہ (لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ء)، ۳۳۴-۳۵۔
ایک ہفتہ کے لیے یونیورسٹی بند تمام امتحانات ملتوی ۔۔۔۔۔
ہمارے تعلیمی اداروں کا اخلاقی افلاس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری جامعات میں "جانوروں کے حقوق" پر سیمینار ہوتے ہیں؛ اچھی بات ہے۔
ہماری جامعات میں "صنفی تشدد" پر علمی کانفرنس منعقد کیے جاتے ہیں؛ بہت اچھی بات ہے۔
ہماری جامعات میں "موسمیاتی تبدیلی" پر مباحثے کرائے جاتے ہیں؛ ضرور کرائے جانے چاہئیں۔
لیکن
ہماری آنکھوں کے سامنے فلسطین میں نسل کشی ہورہی ہے۔ کتنی جامعات نے اس نسل کشی پر کوئی سیمینار، کوئی کانفرنس، کوئی مباحثہ کرایا؟
قانون کے طلبہ کےلیے مختلف مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز مقامی اور بین الاقوامی سطح پر "موٹ کورٹ کمپٹیشن" کراتی ہیں؛ طلبہ اور ان کے اساتذہ کو بین الاقوامی دوروں کے لارے بھی دیے جاتے ہیں؛ ان مقابلوں کو مختلف طریقوں سے گلیمرائز بھی کیا جاتا ہے؛
لیکن کسی جامعہ کے شعبۂ قانون کو، یا کسی مقامی یا بین الاقوامی این جی او کو، یہ توفیق کیوں نہیں ہوتی کہ وہ فلسطین میں جاری نسل کشی پر بین الاقوامی قانونِ جنگ، حقوقِ انسانی کے بین الاقوامی قانون، قبضے کے متعلق بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی فوجداری قانون اور ایسے دیگر قوانین کے تحت کوئی موٹ کورٹ کمپٹیشن کرے جس میں مثال کے طور پر نیتن یاہو کو، یا اس کے وزیرِ دفاع کو، ملزم کی حیثیت سے عدالت میں پیش کیا جائے، اس پر مقدمہ چلایا جائے اور اس پر ان قوانین کا اطلاق کرتے ہوئے فیصلہ سنایا جائے؟
یہ سوالات قانون کے اساتذہ کے وھاٹس ایپ گروپ میں کچھ عرصہ قبل میں نے اٹھائے، جس گروپ میں ملک بھر سے بہت سی جامعات کے اساتذۂ قانون شامل ہیں، تو ایک عجیب ہوُ کا عالم تھا۔ پھر کسی نے ایک کنکر مارا، یعنی اعلان کیا کہ وہ اپنی جامعہ میں اس طرح کا پروگرام کریں گے؛ اس کے بعد چند اور کنکر بھی مارے گئے۔ تھوڑی بہت ہلچل شروع ہوگئی ہے؛ لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
اسلام آباد کی ایک بڑی یونیورسٹی کے متعلق معلوم ہوا کہ اساتذہ کو طلبہ کے ساتھ ہفتہ وار سیمینار منعقد کرانے کےلیے کہا گیا اور اساتذہ سے موضوعات طلب کیے گئے۔ ایک ٹیچر نے کہا کہ اس نے فلسطین اور بین الاقوامی قانونِ جنگ پر بات کرنی ہے۔ اسے کہا گیا کہ کوئی اور موضوع دیں، اپنے لیے اور ہمارے لیے مسائل نہ کھڑے کریں! اس نے جواب دیا کہ مسائل آپ کےلیے ہوں تو ہوں، مجھے پروا نہیں ہے، چلیں آپ صرف بین الاقوامی قانونِ جنگ پر ہی سیمینار کرائیں، لیکن بولنا میں نے اس میں بھی فلسطین پر ہی ہے۔ اس کے بعد سے انھیں سیمینار کا موقع ہی نہیں دیا جارہا۔
ہائے گائیز! کوئی کلائنٹ دفتر میں ملنے آئے، یا باہر کسی جگہ میٹنگ ہو، چائے پہ دوست اکھٹے ہوں اور نیا بنے والا دوست یا جاننے والا اگر پہنچے تو باتوں باتوں میں بلا وجہ یہ ضرور باور کروا دیتا ہے کہ اُس کے پاس گاڑی ہے
“میں گاڑی پارکنگ میں نہیں باہر سڑک پہ ہی کھڑی کر آیا ہوں”
“مجھے جلدی آنا تھا صرف اسی لیے بائیک پہ نکلا، ٹریفک کا رش تھا ورنہ میں نے گاڑی نکالی پھر گھر میں کھڑی کر دی، بس رش کی وجہ سے”
“میں پوری کوشش کرتا ہوں گاڑی پہ نکلوں، سموگ کی وجہ سے تو بائیک پہ نکلا ہی نہیں جاتا، اور بچے تو اب بائیک پہ بیٹھتے ہی نہیں”
نوٹ: اور چھیانوے فیصد لوگ گاڑی کی چابی سامنے ٹیبل پہ ضرور رکھتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ مجھے لگا میں آپ سے پوچھ لوں
اہم نوٹ: میرے ایک دوست نے گاڑی کی بٹن والی جدید چابی بنوائی ہوئی، وہ اپنا بائیک پارکنگ میں کھڑا کرتا ہے، میز پہ گاڑی کی چابی رکھ کر بھرپور اعتماد سے بیٹھتا ہے، اُس کا کیا کرنا ہے؟
مہنگے پرائیویٹ سکول کے سوئمنگ پول سے بچے کا تولیہ گم ہو گیا
بچے کی ماں نے شکایت کی، عجیب بات ہے کہ اتنے مہنگے سکول میں بھی بچے چوریاں کرتے ہیں
پرنسپل صاحبہ نے کہا کہ۔ایسا ہر گز نہیں ہے۔ کوئی بچہ غلطی سے لے گیا ہوگا۔ ویسے آپ اپنے بچے کے ٹاول کی کوئی نشانی بتا سکتی ہیں کیا؟؟؟
بچے کی ماں نے بتایا۔۔سفید رنگ کا تولیہ تھا
پرنسپل صاحبہ نے کہا۔۔تقریبا" سبھی ٹاول سفید رنگ ہی کے ہوتے ہیں۔ کوئی اور نشانی بتائیں
بچے کی ماں نے کہا۔۔ٹاول کے ایک کونے پر
Hotel Marriott
لکھا ہوا ہے
طلبہ کو سہولیات تو دینی نہیں ہے ہا ذلیل کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا ۔۔۔۔۔۔ باہر کے ملکوں سے اعلیٰ ڈگریاں تو لے لیتے ہیں ۔۔۔۔۔مگر سیکھتے کچھ نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔شدید مزمت۔۔۔۔
حکومت کہتی ہے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔۔۔
افسوس
یہ یونیورسٹی آف لاہور ہے اور یہاں کیا سکھایا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
Ment!on that legend😂
New session 2024