غزل
سبز رو خواب آتے نہ تھے زرد منظر سے تشویق ملتی نہ تھی
زنگ آلود آنکھوں کے بہلانے کو کوئی تکنیک ملتی نہ تھی
وا درریچوں سے چھلکی ہوئی چاندنی بہہ رہی تھی سماوات میں
نیند کے واہمے میں پڑے خواب زادوں کو تبریک ملتی نہ تھی
چٹخنی کو چڑھاتی ہوئی انگلیوں نے کہا اور دیوں نے سنا
پر وہ برفاب خواہش جسے مردہ ہاتھوں سے تحریک ملتی نہ تھی
اب تو سینے سلگتے ہیں اور دل پگھلتے ہیں پر کیسے بھولیں وہ دن
آنگن آنگن سوال اور دو کوئلہ آگ کی بھیک ملتی نہ تھی
دور تک جیسے کچھ بھی نہ تھا چار جانب امڈتے ہوئے ہول میں
دل کی پہلی جسارت تھی اور گنگ ہونٹوں سے توثیق ملتی نہ تھی
اس نے ہم سے کہا رات میں اپنا چہرہ بدل لوں گا ہمزاد سے
اس کی آواز میں وہ تیقن تھا۔۔ ڈھونڈے سے تشکیک ملتی نہ تھی
انس رحمان
اردو ادب امن پسند تحریک
آج ہمیں ایک نئے اور بلند عزم سے اپنی زبان کے لیئے اکٹھا
محمود درویش کے لیے
ہم لفظوں کے درمیان سے گزرے
اور میں نے تم سے کہا
تم ان سورماؤں کو اپنے لیے منتخب کر سکتے ہو
بندوق اور تلوار اٹھائے ہوئے
یا ہاتھ میں پھول لیے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے
یہ تمہاری جگہ رجز کہیں گے
اور زندگی کو للکاریں گے
اپنی خوردبین آنکھیں اس کے لباس کی تہوں میں اتار دیں گے
تم مجھ سے کہنے والے تھے
کیا لفظ جلا وطن ہو سکتے ہیں؟
ان کی موت کے ساتھ کیا ہم بھی مر جائیں گے
اور اگر یہ زندہ رہے تو کیا ہم زندہ رہیں گے
جب لائن کاٹ دی گئی
اور ابلاغ کے ذرائع نا معلوم مدت کے لیے بند ہو گئے
انس رحمان
غزل
تالا بندی کے دن، بےقراری بھری ساعتیں، قفل کھلتے نہیں
کوئی پیہم گھروں سے ادھر چیختا ہے مگر لوگ سنتے نہیں
آنکھ آئینہ ہے ان دنوں کا جو ہم اس زمیں پر نہیں دیکھ پائے
دل انھیں راکھ دانوں کی تمثیل ہے جن میں انگارے بجھتے نہیں
کس سے کہیے ہماری سواری ان اسٹیشنوں پر نہیں رک رہی
ان زمینوں کا اسرار کس پر کھلے راستے جن کو مڑتے نہیں
ان کتابوں میں دفنائیں گے مور پنکھ ان دنوں کے جو کھوئے گئے
اور کہیں گے کہ ہاں اب وہ نمناک منظر نگاہوں میں چبھتے نہیں
کتبے پڑھتے ہوئے ہم بھی گزرے اگر بتیوں کی مناجات سے
مرثیہ کہنے والے کوئی لے بھی پکڑیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ جسم اٹھتے نہیں۔۔۔
خاکروبی کی کوئی عنایت نہیں گرد ہوتے ہوئے جسم پر
دل کا شہتوت جن صحنچوں میں کھلا آنسوؤں ہی سے دھلتے نہیں
انس رحمان
نظم: سوال
کوئی ہے۔۔۔؟
جو اس تصویر میں بیٹھے وجود کو دیکھے
اور کراہت اپنے بدن پر رینگتی محسوس نہ کر سکے
ا ر
غزل۔۔۔۔۔
وگرنہ راہِ محبت سے ہی پلٹ جاۓ
وہ ہمسفر ہے تو شانے ملا کے ڈٹ جاۓ
میں اپنے دل کے مخالف سفر پہ نکلوں گا
اب اِس سے بولو مرے راستے سے ہٹ جاۓ
اب ایک دوجے کے اتنے تھکن شناس ہیں ہم
بھلا نہیں ہے اگر عمر ساتھ کٹ جاۓ
میں چاہتا ہوں مجھے خود سے دور لے جاؤ
اب اس سے پہلے کہ میرا دماغ پھٹ جاۓ
وہ میرے ہوتے ہوۓ کس لیے ملال میں ہیں
اسے کہو کہ مرے سینے سے لپٹ جاۓ
ہائم
URDU hy JIS ka Naam
URDU ADAB