اردو ادب امن پسند تحریک

اردو ادب امن پسند تحریک

Share

آج ہمیں ایک نئے اور بلند عزم سے اپنی زبان کے لیئے اکٹھا

18/12/2024

غزل

سبز رو خواب آتے نہ تھے زرد منظر سے تشویق ملتی نہ تھی
زنگ آلود آنکھوں کے بہلانے کو کوئی تکنیک ملتی نہ تھی

وا درریچوں سے چھلکی ہوئی چاندنی بہہ رہی تھی سماوات میں
نیند کے واہمے میں پڑے خواب زادوں کو تبریک ملتی نہ تھی

چٹخنی کو چڑھاتی ہوئی انگلیوں نے کہا اور دیوں نے سنا
پر وہ برفاب خواہش جسے مردہ ہاتھوں سے تحریک ملتی نہ تھی

اب تو سینے سلگتے ہیں اور دل پگھلتے ہیں پر کیسے بھولیں وہ دن
آنگن آنگن سوال اور دو کوئلہ آگ کی بھیک ملتی نہ تھی

دور تک جیسے کچھ بھی نہ تھا چار جانب امڈتے ہوئے ہول میں
دل کی پہلی جسارت تھی اور گنگ ہونٹوں سے توثیق ملتی نہ تھی

اس نے ہم سے کہا رات میں اپنا چہرہ بدل لوں گا ہمزاد سے
اس کی آواز میں وہ تیقن تھا۔۔ ڈھونڈے سے تشکیک ملتی نہ تھی

انس رحمان

23/11/2024

محمود درویش کے لیے

ہم لفظوں کے درمیان سے گزرے
اور میں نے تم سے کہا
تم ان سورماؤں کو اپنے لیے منتخب کر سکتے ہو
بندوق اور تلوار اٹھائے ہوئے
یا ہاتھ میں پھول لیے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے
یہ تمہاری جگہ رجز کہیں گے
اور زندگی کو للکاریں گے
اپنی خوردبین آنکھیں اس کے لباس کی تہوں میں اتار دیں گے
تم مجھ سے کہنے والے تھے
کیا لفظ جلا وطن ہو سکتے ہیں؟
ان کی موت کے ساتھ کیا ہم بھی مر جائیں گے
اور اگر یہ زندہ رہے تو کیا ہم زندہ رہیں گے
جب لائن کاٹ دی گئی
اور ابلاغ کے ذرائع نا معلوم مدت کے لیے بند ہو گئے

انس رحمان

16/11/2024

غزل

تالا بندی کے دن، بےقراری بھری ساعتیں، قفل کھلتے نہیں
کوئی پیہم گھروں سے ادھر چیختا ہے مگر لوگ سنتے نہیں

آنکھ آئینہ ہے ان دنوں کا جو ہم اس زمیں پر نہیں دیکھ پائے
دل انھیں راکھ دانوں کی تمثیل ہے جن میں انگارے بجھتے نہیں

کس سے کہیے ہماری سواری ان اسٹیشنوں پر نہیں رک رہی
ان زمینوں کا اسرار کس پر کھلے راستے جن کو مڑتے نہیں

ان کتابوں میں دفنائیں گے مور پنکھ ان دنوں کے جو کھوئے گئے
اور کہیں گے کہ ہاں اب وہ نمناک منظر نگاہوں میں چبھتے نہیں

کتبے پڑھتے ہوئے ہم بھی گزرے اگر بتیوں کی مناجات سے
مرثیہ کہنے والے کوئی لے بھی پکڑیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ جسم اٹھتے نہیں۔۔۔

خاکروبی کی کوئی عنایت نہیں گرد ہوتے ہوئے جسم پر
دل کا شہتوت جن صحنچوں میں کھلا آنسوؤں ہی سے دھلتے نہیں

انس رحمان

24/10/2024

نظم: سوال

کوئی ہے۔۔۔؟
جو اس تصویر میں بیٹھے وجود کو دیکھے
اور کراہت اپنے بدن پر رینگتی محسوس نہ کر سکے

ا ر

13/10/2024

غزل۔۔۔۔۔

وگرنہ راہِ محبت سے ہی پلٹ جاۓ
وہ ہمسفر ہے تو شانے ملا کے ڈٹ جاۓ

میں اپنے دل کے مخالف سفر پہ نکلوں گا
اب اِس سے بولو مرے راستے سے ہٹ جاۓ

اب ایک دوجے کے اتنے تھکن شناس ہیں ہم
بھلا نہیں ہے اگر عمر ساتھ کٹ جاۓ

میں چاہتا ہوں مجھے خود سے دور لے جاؤ
اب اس سے پہلے کہ میرا دماغ پھٹ جاۓ

وہ میرے ہوتے ہوۓ کس لیے ملال میں ہیں
اسے کہو کہ مرے سینے سے لپٹ جاۓ
ہائم

Want your school to be the top-listed School/college?

URDU hy JIS ka Naam

URDU ADAB

Telephone

Website