Aj ki nyki
Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Aj ki nyki, Education, .
Operating as usual
مولانا روم رح فرماتے ہیں ..
ایک شخص مسجد میں نماز ادا کرنے کیلئے اندھیری رات میں گھر سے نکلا ,
اندھیرے کی وجہ سے ٹھوکر لگی اور وه منہ کے بل کیچڑ میں گر گیا ..
کیچڑ سے اٹھ کر وه گھر واپس گیا اور لباس تبدیل کر کے دوبارہ مسجد کی طرف چل دیا .
ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ دوبارہ ٹھوکر لگی اور وه دوبارہ کیچڑ میں گر گیا ..
کیچڑ سے اٹھ کر وه ایک بار پھر گھر واپس گیا اور لباس تبدیل کر کے مسجد جانے کیلئے دوبارہ گھر سے نکل آیا .
اپنے گھر کے دروازے پر اسے ایک شخص ملا جو اپنے ہاتھ میں ایک روشن چراغ تھامے ہوئے تھا,
چراغ والا شخص چپ چاپ نمازی کے آگے آگے مسجد کی طرف چل دیا ..
اس بار چراغ کی روشنی میں نمازی کو مسجد تک پہنچنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا اور وه بخیریت مسجد تک پہنچ گیا .
مسجد کے دروازے پر پہنچ کر چراغ والا شخص رک گیا ..
نمازی اسے وہیں چھوڑ کر مسجد میں داخل ہو گیا اور نماز ادا کرنے لگا .
نماز سے فارغ ہو کر وه مسجد سے باهر آیا تو اس نے دیکھا چراغ والا شخص اس کا منتظر ہے تاکہ اسے دوبارہ چراغ کی روشنی میں گھر تک چھوڑ آئے ...
جب نماذی گھر پہنچ گیا ..
تونمازی نے اس اجنبی سے پوچھا,
آپ کون ہیں ؟
اجنبی بولا ...
سچ بتاؤں تو میں ابلیس ہوں .
نمازی کی حیرت کی انتہا نہ رہی ..
اس نے پوچھا ..
تجھے تو میری نماز ره جانے پر خوش ہونا چاہئے تھا ...
پھر تو چراغ کی روشنی میں مجھے مسجد تک کیوں لایا ؟
ابلیس نے جواب دیا ..
جب تجھے پہلی ٹھوکر لگی تو الله نے تیرے عمر بھر کے گناه معاف فرما دئے ._
جب دوسری ٹھوکر لگی تو تیرے سارے خاندان کو بخش دیا ._
مجھے فکر ہوئی کہ اب اگر تو ٹھوکر کھا کر گرا تو کہیں الله تیرے سارے گاؤں کی مغفرت نه فرما دے ,,
اس لئے چراغ لے کر آیا ہوں کہ تو بغیر گرے مسجد تک پہنچ جائے ....
(حکایت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ)
گھر میں داخل ھوا تو دیکھا بیوی بیٹھی رو رھی ھے!
کیا ھوا؟
میں نے پوچھا
یہ آنکھیں کیوں لال کر رکھیں ھیں
سب خیریت تو ھے نا
آج ، اس کمینے نے ، بیوی کے کہنے پہ اس بڑھیا کو پھر مارا ھے
وہ پھر ھچکیوں سے رونے لگی
تمہیں کیا
وہ اس کی ماں ھے ، تمہاری نہیں
اور پھر بڑھیا زبان چلاتی ھو گی
بہو کے معاملت میں دخل دیتی ھوگی
میں نے اس کا غم غلط کرنے کے لیے کہا
زبان چلاتی ھو گی؟
معاملات میں دخل دیتی ھوگی؟
آپ کو کچھ پتا بھی ھے ، اس بیچاری کو فالج ھے
اٹھنے بیٹھنے کے لیے سہارے کی محتاج ھے
اٹک اٹک کر اپنی بات پوری کرتی ھے
بیوی نے تلخی سے جواب دیا
پہلے تم نے کبھی بتایا نہیں کہ اس کو فالج ھے
میں نے انجان بنتے ھوۓ کہا
ھزار دفعہ تو بتایا ھے, مگر آپ کو کپڑوں کے علاوہ کچھ یاد رھے نا
بیوی بولی
اچھا چھوڑو, ھم کر بھی کیا سکتے ھیں ؟
میں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی
میرا دل کرتا ھے کہ بڑھیا کو اپنے گھر لے آؤں کچھ دنوں کے لیے
میری بیوی نے کہا.
کیا, کیا کہا؟
پاگل ھو گئ ھو ۔۔ پرائ مصیبت اپنے گلے ڈالو گی ۔۔ مجھے اس کی سوچ پہ غصہ آگیا ۔۔
صرف ھفتے بھر کے لیے ۔۔ اس نے میرے غصے کو نظر انداز کرتے ھوۓ کہا ۔۔ شاید وہ پہلے سے ھی سب پلان بنا کے بیٹھی تھی ۔۔
نہیں ، نہیں ۔۔ یہ ناممکن ھے ۔۔ اور پھر وہ کیوں دینے لگا اپنی ماں ھم کو ۔۔ میں نے کہا ۔
اس کی بیوی کئ مرتبہ کہہ چکی ھے کہ بڑھیا ، کہیں دفع تو ھو نہیں سکتی ، کتے کی سی جان ھے ، مرتی بھی نہیں ۔۔ بیوی نے کہا
اچھا ، یہ کہتی ھے وہ ۔۔ میں نے بیوی کا دل رکھنے کے لیے کہا ۔۔
بس اب آپ مان جائیں اور اس کو اپنے گھر لے آئیں ۔۔ یہ کہتی ھوۓ وہ میرے پہلو میں آ بیٹھی ۔۔ اور یہی اس کا خطرناک حملہ ھوتا ھے ، اپنی بات منوانے کا ۔۔۔
اچھا جی اب اس بڑھیا کو گھر لانے کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈال رھی ھو ۔ اور یہ تو سوچو کہ تم اس کوسنبھال بھی لو گی ؟ ۔۔ میں نے کہا
اپنے بچے تو ھیں نہیں ، میں بھی گھر میں سواۓ ٹی وی دیکھنے کے اور کیا کرتی ھوں ۔۔ چلو وہ آ جاۓ گی تو میرا دل بھی بہلا رھے گا ۔ اس نے اداسی سے کہا
ھماری شادی کو دس سال ھو گۓ تھے ۔۔ مگر اولاد سے محرومی تھی ۔۔
میں نے سوچا -- چلو بات کر کے دیکھنے میں حرج نہیں ھے ۔
کونسا ، وہ اپنی ماں ، ھمیں دینے پہ راضی ھو جاۓ گا ۔۔
اگر راضی ھو گیا تو ۔۔؟ میں نے سوچا
پھر بھی ایک ھفتے کی ھی تو بات ھے ۔۔۔
اگر بعد میں اپنے ھی گلے پڑ گئ تو ۔۔ اچانک مجھے خیال آیا ۔۔۔
اگر وہ بڑھیا مستقل گلے پڑ گئ تو ۔۔ میں نے اپنے خدشے کا اظہار ، بیوی سے کیا ۔۔
یہ تو اور اچھی بات ھے ۔۔ اس نے خوش ھوتے ھوۓ کہا ۔۔
سچ کہتے ھیں ۔۔ عورت بے وقوف ھوتی ھے ۔۔ میں نے دل میں سوچا ۔۔
اگلے دن شام کو کافی سوچ بچار کے بعد میں ان کے گھر گیا ۔ کچھ بات کرنے کے بہانے ، ڈرائنگ روم میں بیٹھا ۔ اس نے جھوٹے مونہہ بھی چاۓ کا نہیں پوچھا تو میں نے اپنے پلان کے مطابق اس سے کہا کہ میری بیوی ، فالج کا علاج قران پاک سے کرنا جانتی ھے ۔ اور وہ آپکی والدہ کا علاج کرنا چاھتی ھے ۔
یہ سن کر اس نے کسی خوشی کا اظہار نہ کیا ۔ تو میں نے بات جاری رکھی ۔۔ کہ اس میں مسئلہ یہ ھے کہ آپ کی والدہ کو ھفتہ بھر ھمارے ھی گھر پر رھنا ھو گا ۔۔ آپ فکر نہ کریں ، ھم ان کا اچھے سے خیال رکھیں گے ۔۔ یہ سن کر اس کے چہرے پہ شرمندگی اور خوشی کے ملے جلے اثرات پیدا ھوۓ ۔۔
اس نے تھوڑی سی بحث کے بعد اجازت دے دی ۔ میں نے اٹھتے ھوۓ کہا کہ علاج میں پندرہ بیس دن بھی لگ سکتے ھیں۔ اس نے اور بھی خوشی محسوس کی ۔
کہنے لگا ۔۔ سلیم صاحب ، میں تو چاھتا ھوں کہ میری ماں ٹھیک ھو جاۓ ، بھلے مہینہ لگ جاۓ ۔۔
اور یوں ، اس طرح ، اماں ، مستقل ھماری ھی ھو کے رہ گئیں اگلے دن ، وہ بڑھیا ھمارے گھر منتقل ھو گئ ۔ بس وہ بڑھیا کیا تھی ۔۔ سفید روئ کا گالہ سی تھی ۔ نور کا اک ڈھیر سا تھا ۔ لاغر سی ، کمزور سی ۔ جیسے زمانے بھر کے غم ، اس کے نورانی جھریوں بھرے چہرے پہ تحریر تھے ۔ آنکھوں کے بجھتے چراغ ۔ کپکپاتے ھونٹ ۔
مناسب خوراک اور دیکھ بھال نہ ھونے کی وجہہ سے حالت اور زیادہ خراب تھی ۔۔
میری بیوی تو تن ، من ،دھن سے اس کی سیوا میں جٹ گئ ۔ اس کے لیے ھر چیز نئ خریدی گئ ۔۔ بستر ، کمبل ، چادریں ، کپڑے ۔۔
اچھی خوراک ، اور خدمت سے اماں کے چہرے پہ رونق آنے لگی ۔۔
پتا ھی نہ چلا ،مہینہ گزر گیا ۔۔ پہلے اس کی بہو ھر دو دن بعد آتی رھی ۔ پھر چار دن کا وقفہ ھوا ، پھر ھفتہ ھونے لگا ۔ اماں کو واپس لے جانے کی بات نہ اس نے کی ، نہ ھم نے ۔۔
دوسرا مہینے میں وہ ایک ھی دفعہ آئ ۔ گھر کی مصروفیت کا رونا روتی رھی ۔ تیسرے مہینے کے بعد ، اس نے آنا بند کر دیا ۔۔ میں نے بیوی سے کہہ دیا کہ اب اماں ، تمہاری ذمہ داری بن گئ ھے ، اب تم سنبھالو ۔ بیوی نے خوشی کا اظہار کیا ۔
یہ غالبن ساتواں مہینہ تھا کہ اس آدمی کو اس کی بیوی نے قتل کردیا اور بعد میں وہ خود بھی پکڑی گئ ۔
اور یوں اماں صرف ھماری ھی ھو کے رہ گئیں ۔
ادھر جیسے جیسے اماں کی توانائ بحال ھورھی تھی اور چہرے پہ رونق ، مسکان آنے لگی تھی ۔ ویسے ویسے ، میرا کاروبار ترقی کرنے لگا ۔ ایسے لگتا تھا جیسے مجھ پر دھن برسنے لگا ھو ۔ سال بھر میں میری تین دکانیں ھو چکیں تھیں ۔ تیسرے سال ھم تینوں ، میں ، بیوی اور اماں نے حج کی سعادت حاصل کی ۔ گلستان جوھر میں پانچ سو گز کا بنگلہ خرید کر وھاں شفٹ ھو گۓ ۔
اماں ، ھمارے ساتھ سات سال رھیں ، ھر پل ان کا ھمیں دعائیں دیتے گزرتا ۔اور ھم میاں بیوی ، خوشی سے پھولے نہ سماتے ۔
۔ عجیب کرامت یہ ھوئ کہ اماں کی برکت اور دعاؤں سے ، اللہ رب العزت نے مجھے اولاد سے نوازا ۔۔
آج وہ ھمارے درمیاں نہیں ، مگر ان کی کمی شدت سے محسوس ھوتی ھے ۔ جیسے کوئ اپنا کہیں کھو گیا ھو ۔ ھم نے بھی کبھی ان سے ان کا نام تک نہ پوچھا ۔ بس ان سے اک خلوص کا رشتہ تھا ۔
پچھلے دنوں ، میری بیوی بہت خوش تھی ۔ وجہہ پوچھی تو کہنے لگی ۔ میں نے ایک خواب دیکھا ھے ۔۔
کیسا خواب ۔۔؟
میں نے دیکھا ۔ کہ محشر کا دن ھے ۔ اور سب حیران و پریشان کھڑے ھیں ۔ ان میں ، میں بھی کھڑی ھوں کہ اتنے میں ، اماں آئیں اور میرا ھاتھ پکڑ کر کہنے لگیں ۔ منیرہ ، ادھر آ ، میرے ساتھ ، تجھے پل صراط پار کرا دوں ۔ میں ان کے ساتھ چلی ، ھم ایک باغ سے گزرے ، تھوڑی دیر میں باغ ختم ھوا تو ایک بڑا سا میدان آگیا تو اماں کہنے لگیں ، بس ھو گیا پل صراط پار ۔۔ میں حیران ھوئ ۔ تو وہ بھی زور سے ھنسے لگیں ۔ پھر میری آنکھ کھل گئ ۔۔
مبارک ھو بھئ ۔۔ بہت اچھا خواب ھے مگر تمہیں میرا خیال نہ آیا ۔ ؟
قسم سے میں اتنی پریشان تھی کہ ۔۔
چلو ۔ خیر ھمیں بھی کوئ نہ کوئ مل ھی جاۓ گا جو پل صراط پار کرا دے ۔۔
آمین ۔۔ بیوی نے جیسے دل کی گہرائیوں سے کہا ۔۔
اور پھر اس کو میں نے یہ نہیں بتایا کہ ایسا خواب میں بھی دیکھ چکا ھوں بس فرق یہ تھا کہ اماں نے میرا ھاتھ پکڑتے وقت کہا تھا ، چلو ، تمہیں منیرہ کے پاس لے چلوں وہ پل صراط کے پار ، تمہارا انتظار کر رھی ھے..!
کس خوش فہمی میں ہیں آپ؟؟؟
آپکو کیا لگتا ہے آپکے مرنے کے بعد آپکے رشتےدار آپکی دوستیں آپکی اولاد آپکے بہن بھائی قرآن پڑھ پڑھ کے آپکو بخشوا لیں گیں؟؟؟
یہ اولادیں آپکے لیے قرآن پڑھیں گیں ؟؟ جو آج آپکے کہنے پر نماز پڑھنے نہیں اٹھتی
یہ رشتےدار آپکے لیے دعا کریں گیں جن سے آپکی لڑایاں ہی ختم نہیں ہوتی یہ دوستیں آپکے لیے فاتحہ پڑھیں گیں؟؟؟؟؟؟ جو آج دین پہ آنے کی وجہ سے آپکا مذاق اڑاتیں ہیں۔۔
یہ بہن بھائی آپکے لیے صدقہ خیرات کریں گیں جو عید کے عید ملتے ہیں
اے غافل بھولے انسان خلوص کے زمانے گزر گیۓ ہیں قیامت قریب ہے
یہ افراتفری کا دور ہے یہاں لوگ زندوں کو صدیوں تک بھولے بیٹھے ہیں مرنے کے بعد تجھے کون یاد رکھے گا
اپنی آخرت کی فکر خود کریں اپنے لیے قرآن خود پڑھیں اور نماز ادا کریں یہی عقلمندی ہے
جب حضرت آدمؑ کا وصال ہونے لگا تو
حضرت آدمؑ اپنے غم میں روتے تھے، حضرت جبرائیلؑ نے فرمایا: "اے حضرت آدمؑ! آپ کو کیا غم ھے؟"۔
آپ نے فرمایا:"اے جبرائیل! مجھے یہ غم ھے کہ جس جنت سے مجھے نکالا گیا ھے پھر میں اس میں داخل ہو جاؤں گا یا نہیں؟"۔
حکم الٰہی نازل ہوا:"اے آدم آسمان کی طرف دیکھ لو، یہ جنت تمہارے لئے تیار ھے۔"
حضرت آدمؑ نے جنت کو دیکھا اور خوش ہو کر جان دیدی۔
لیکن جس وقت ہمارے نبی کریمؐ بیمار ہوئے، ایّامِ مرض میں ایک دن حضرت جبرائیلؑ آئے۔ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا:
"اے جبرائیل! کوئی خوشخبری ہو تو سنا دو۔" حضرت جبرائیلؑ نے کہا: "یا رسول اللہ! آپ کے استقبال کی خاطر دوزخ آپکے جانے سے پہلے ٹھنڈی کر دی گئی ھے۔ اور جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے گئے ہیں، حورانِ جنت اور ملائکہ آپؐ کے استقبال کے لئے جنت کے دروازے پر کھڑے ہیں۔"
حضور نبی کریمؐ نے یہ بات سن کر فرمایا: "((مالی وللنار ولی وللجنۃ)) جبرائیل نہ مجھ کو جہنم سے کچھ مطلب ہے نہ جنت سے تعلق ھے۔ یہ بتاؤ کہ میری امت کے لئے تیار کیا کیا گیا ھے؟"۔
حضرت جبرائیل نے عرض کیا:"جنت حرام ھے تمام امتوں پر جب تک آپؐ کی امت خود نہ جائے۔"
حضرت نوحؑ کی عمر وصال کے وقت ساڑھے تیرہ سو برس تھِی، جب ملک الموت ان کے پاس آئے تو حضرت نوحؑ ملک الموت کی صورت دیکھ کر گھبرائے اور یہ کہا کہ: "اے ملک الموت! تم نے بہت جلدی کی " ملک الموت نے کہا: "اے نوح! تیرہ سو برس میں بھی آپ کا دل دنیا سے بیزار نہیں ہوا؟"
حضرت نوحؑ نے فرمایا:"اے ملک الموت میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ میں کسی ایسے مکان میں داخل ہوا کہ جس کے دو دروازے ہیں ایک سے میں اندر آیا، دوسرے دروازے سے تم مجھے لینے آ گئے، ٘میں اس مکان میں ذرا بھی نہ ٹھہرا"۔ مگر جب حضور نبی کریمؐ کے پاس ملک الموت آئے تو ملک الموت سے اپنے حق میں بات بھِی نہ کی، فرمایا:"جبرائیل امین کہاں ہیں؟ اے ملک الموت! جب تک جبرائیلؑ کی زبانی امت کی مغفرت کی بشارت نہ سنوں گا، اس وقت تک جان نکالنے کی اجازت نہ دوں گا" (سبحان اللہ) جب حضرت موسٰیؑ کے پاس وصال کو پیغام، گھبرا گئے۔ ملک الموت کو طمانچہ مارا، جب وفات پانے پر راضی ہوئے تو یہ کہا: "مجھے بیت المقدس کی سرزمین میں پہنچاؤ" وہاں پہنچا کر میری جان نکلے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیت المقدس پہنچایا تب ملک الموت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جان نکال کر لے گئے۔ حضور نبی کریمؐ سے حضرت جبرائیل نے عرض کیا:"اگر آپ کی خوشی ہو تو آپ کی وفات کے بعد آپؐ کے جسم مبارک کو جنت میں پہنچاؤں؟" فرمایا:"نہیں مجھے میری امت کے اندر رہنے دو، یہیں اپنی امت کے لئے استغفار کروں گا" آپ پر امت کے اعمال پیش ہوتے ہیں، اگر امت کی نیکیاں زیادہ ہوتی ہیں تو آپ اللہ تعالی کا شکر کرتے ہیں اور اگر گناہ زیادہ ہوتے ہیں تو اپ بارگاہ الٰہی میں استغفار کرتے اور امت کے لئے بخشش کی دعا مانگتے ہیں، پھر کس طرح آپ کی امت آپ پر جان قربان نہ کرے۔❤
❤❤❤صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم❤❤❤