Dr. Imran Javaid

Dr. Imran Javaid

Professor of Mathematics, Career Counselor and BETTER PAKISTAN Aspirant.

Operating as usual

22/09/2023

تحقیق کا مطلب یہ ہے کہ آ پ کو مختلف حقائق کو سمجھنا ہے، ان حقائق کے درمیان تعلق کو سمجھنا ہے اور نئے نتیجے نکالنے ہیں تاکہ معاشرے کو فائدہ ہو۔

حقائق سمجھنے کے لئے اور ان کے بیچ کے تعلقات کو سمجھنے کے لئے ، یا ان حقائق اور ان تعلقات کا فائدہ سمجھنے کے آ پکا ایم فل یا ایچ ڈی طالب علم ہونا ضروری نہیں۔ ہر شخص ، ہر شعبے میں یہی کر رہا ، ایم فل ، پی ایچ ڈی والوں کے نتائج کو چانج کر سرٹیفکیٹ یا ڈگری دی جاتی ہے، باقی جگہوں پر ڈگری کی طلب یا ہدف نہیں ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ یونیورسٹی مسائل حل کرنے کی جگہ ہے تو وہ معاشرے کے مسائل ہی ہوتے ہیں ۔ ان مسائل کی سمجھ ان سے متعلقہ حقائق سے جڑی ہو تی ہے اور پھر ان حقائق کو سمجھ کر , ان کا تعلق سمجھ کر حل تجویز کر نا ہدف ہوتا ہے۔ ٹرمینالوجی اور ٹیکنالوجی کے تبدیل ہونے سے intuition پر ، سوچ پر ، حقائق پر ، انکے تعلقات پر اثر پڑتا ہے۔ اس لئے وقت کے ساتھ ساتھ سب تبدیل ہونا ضروری رہتا ہے۔

رپورٹر حقائق کو رپورٹ کرتا ہے، برائے نام سا کمنٹ اور بات ختم۔ تجزیہ کار مختلف رپورٹرز کی اطلاعات پر کہانی بناتا ہے اور کہانی بیچتا ہے۔ کہانی بنا نا اور کہانی بیچنے کا فن سیکھیں ، حقائق کی اطلاع دینے سے بات کہیں نہیں جائے گا۔

میتھ پڑھنے والے کا دکھ بالکل مختلف ہے، یہ حل دیتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کس مسئلے کا حل دیا۔ حل استعمال کرنے والے اس حل میں تبدیلی نہیں کر سکتے ، اسی لئے اس وقت دنیا میں دو میجر والی ڈگریوں کا رواج پڑھ رہا جن میں سے ایک میتھ ہوتا ہے، دوسرا بزنس ہو سکتا ہے، اکنامکس ہو سکتا ہے ، information science ہو سکتی ہے، information security ہو سکتی ہے، اور یہ لسٹ لمبی ہے۔ میتھ والوں کو یہ سمجھنا ہے کہ تھوڑا بہت دائیں بائیں دیکھنے سے ان کے لئے بہت سے کیریئر اور سکوپ۔

گھر سے سیدھے یونیورسٹی اور یونیورسٹی سے سیدھے گھر جانے والے دنیاداری کے رولے نہیں سمجھتے اور جب تک رولے نہیں سمجھ آ ئیں ، تو پھر گھر سے یونیورسٹی والے بھی suffer کرتے رہیں اور جو پرابلمز وہ بھی موجود رہیں گے۔ علم، حکمت عملی اور مستقبل کی سوچ صرف ٹرمینالوجی جان لینے سے نہیں آ جائیں گے۔

کچھ سیدھے سادھے اور مشہور سوال جن کے جواب کے لئے آ پ کو ہر وقت تیار رہنا ہے، وہ یہ ہیں ، آ پ کیا پڑھ، پڑھا رہے ہیں ، وہ سب پڑھنے پڑھا نے کا کیا فائدہ ہے، آ پ کے مضمون کی چند ٹرمز ، ان ٹرمز کا ربط ، آپ کے پاس نیا کیا ہے، آ پ کی موجودگی سے کسی آ رگنازیشن کو کیا فائدہ ہو گا۔

علم حاصل کریں اور اس کا فائدہ بھی سوچیں ۔ تحقیق کریں ، بہت زیادہ کریں لیکن یہ بتاتے رہیں کہ اس اس مسئلے کا حل دے چکا میں تاکہ معاشرہ فائدہ لے سکے۔

ڈاکٹر عمران جاوید

22/09/2023

کسی بھی ڈگری یا پروفیشنل کیریئر کے پیچھے نوجوان اور ان کے خاندان روزگار کے لئے جاتے ہیں ۔ آ ج کل سب کمپیوٹر سائنس اور آ ئی ٹی کے پیچھے ہیں ۔ یہی حال 1999 اور دو ہزار میں بھی تھا۔ میں بھی گھر سے کمپیوٹر سائنس کا شوق لے کر نکلا تھا۔ ہوم ورک کرنے کی عادت تھی تو پتہ چلا کہ میتھ نہ آ تا ہوا تو بات نہیں بنے گی۔ سٹرانگ کمپیوٹر پروفیشنل کو سٹرانگ میتھ نہ آ ئے تو survive نہیں کر سکتا ، یہ بتایا گیا۔ جتنی عقل تھی ، اس کے مطابق یہ طے کیا کہ رش میں نہیں پھنسنا اور سٹرانگ رہنا ہے تو پہلے میتھ پڑھ لوں اور ساتھ ساتھ کمپیوٹر سائنس چلا لوں گا۔ میتھ میں داخلہ لے لیا اور خبر ہوئی کہ کچھ نہیں آ تا ، صرف نمبر ہی نمبر ہیں۔ کمپیوٹر سائنس کا شوق hold کیے بنا گزارا ہی نہیں تھا۔

اس وقت پچاس ہزار بہت بڑی رقم تھی ، کالج لیکچرر پانچ چھ ہزار کے ساتھ بہتر کمانے والے سمجھے جاتے تھے۔ کمپیوٹر سائنس والے پچاس پچاس ہزار پر کام کر رہے تھے کہ پتہ چلا کہ مارکیٹ پر مشکل آ گئی ہے اور لوگوں کو نوکریوں سے نکال رہے ہیں ۔ ہمارے سیشن کے کمپیوٹر سائنس والے دوستوں نے بھی مایوسی کی باتیں شروع کر دیں اور میرا کمپیوٹر سائنس کا شوق حالات اور میتھ کے تھیورمز کے نیچے دب گیا ۔

امریکی 9/11 کی وجہ سے 2003 کی پہلی سہ ماہی کے اخبارات میں تواتر سے موقع دکھنے لگے۔ اس وقت سے پہلے پی ایچ ڈی کا رواج نہ تھا اور ایک دم سے سکالرشپس والی پی ایچ ڈیز کا رواج پڑ گیا اور میری پوری ایم ایس سی کلاس کا داؤ لگ گیا ۔ میری ایم ایس سی کلاس کے وہی پانچ سات لوگ پی ایچ ڈی نہ کر پائے جو خواہشمند نہیں تھے ، باقی سب پی ایچ ڈی ہیں اب۔

آ ج حالات 1999 سے برے ہیں ، آ بادی زیادہ ہے، کمپیوٹر سائنس واحد راستہ اس لئے نہیں دکھ رہا کہ کمپیوٹر سائنس کو لیکر کیریئر پلان کر لیا ہے بلکہ اس لئے دکھ رہا ہے کہ باقی سب شعبوں سے کوئی امید نہیں ۔ یہ لمحہ فکریہ ہے ہم سکھانے والوں کے لئے ۔ ہم وہ نہیں سکھا پائے کہ معاشرے کے ساتھ چلتا۔ نوجوان وہ سیکھنے کے بعد contribute کرتے ، اس سارے کھیل میں خیر ہماری بھی نہیں ۔

ہمارا نظام مجبور نہیں کرتا کہ نیا سیکھا جائے ، جس کو نوکری مل گئی ، اسکا کام پرانے سے چل جاتا ہے۔ تحقیق کا فائدہ، تعلیم کا فائدہ ، ڈگری کا فائدہ ، کورس کا فائدہ ، موضوع کا فائدہ ، یہ موضوعات ہمارے نہیں ہیں ۔

اب مارکیٹ ہمیں پیسنے پر آ گئی ہے ، نفسا نفسی کا عالم ہے ، یہ ایسا سال ہے کہ لوگ فیس ادا نہ کر پانے کی وجہ سے بچے کو تعلیم سے دور کر رہے ہیں۔ بے بسی آ نکھوں میں واضح دکھتی ہے ۔ مشکل وقت قوموں پر آ جاتے ہیں ، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ سدھرنے والی سمت میں قدم اٹھتا ہی نہیں ہے۔ اگر کبھی چار قدم اٹھ جائیں تو مفاد کی کشتی میں کچھ وقت بعد چالیس قدم پیچھے۔

غربت کے مارے ہوئے ، فیس ادا کرنے کی مشکل کا شکار جوان جب سیکھنے والے کے پاس آ جائیں تو اب یہ دنیا وی فر ض بھی ہے اور رب کے ہاں بھی اس کا جواب دینا ہے کہ سکھانے والے نے خیر کے عمل میں کتنا حصہ ڈالا ۔ ہم پڑھانے والوں ، سکھانے والوں کو نئی دنیا کے معاملات سیکھنے سکھانے ہیں اور اگر نوکری کو relevant رکھنا ہے تو پہلے اہداف ، کیریئر ، لرننگ outcomes کو اپنے clients/students کو سمجھانا ہو گا، مارکیٹ کرنا ہو گا، سوسائٹی کو convince کرنا ہو گا کہ ان کے کس فائدے کا ، کیا سکھایا جا رہا ہے اور نوجوان کیا contribute کر ے گا۔

کسی خاص ڈگری میں سب گھس گئے تو سب رل گئے ۔ ہمارے پاس بہت غلطیوں کی اب گنجائش نہیں ہے۔ AI کے اس دور chatbots ڈھونڈیں جن سے تعلیم پر جدید اور مفید بات چیت ہو سکے۔ chatbots کے دور میں بھی اگر راستے سمجھ نہ آ ئیں ، کیریئر پلاننگ نہ ہو پائے تو پھر سدھار مشکل ہے۔

ڈاکٹر عمران جاوید

21/09/2023

The old idea of a teacher is obsolete; the internet and mobile devices are how people are learning.

Robert Kiyosaki

21/09/2023

گزشتہ سال کی یادوں سے

اخبار میں خبر چھپ گئی کہ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کا تعلیمی نظام جدید تقاضوں سے 60 سال پیچھے ہے، اب شور پڑا ہوا ہے، ابھی پانچ سات دن اور پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر آ پ آ نکھیں کھولیں تو آ پ کو پتہ نہیں لگتا اس بات کا؟ اقوام متحدہ کو اتنی دور سے پتہ لگ گیا، آ پ کو اتنے پاس سے نہیں لگا۔ یہ خبر کوئی نئی نہیں ، سب کو سب پتہ ہے لیکن سب کی دعا ہے بلی مجھ کبوتر کو نہ کھائے ۔ اگلے سال ہم 61 سال پیچھے ہوں گے، پچھلے سال کون سا ہم ٹاپ ٹین میں آ رہے تھے۔ ہمارے ہاں سدھرنا ہی تو سب سے مشکل کام ہے۔ جسکا داؤ لگ گیا ، وہ ڈٹا پڑا ہے کہ ہم تو جی لیں ، اسکے بعد کسی اور کی ۔۔۔ سن لیں گے۔

مفادات اور وہ بھی جن کا داؤ لگ گیا ، ان کا مفاد راہ کی بڑی رکاوٹ ہے۔ جو رہ گئے وہ اس کوشش میں ہیں کہ ان کا بھی داؤ لگ جائے ۔ ریاضی پڑھنے کا ایک فائدے یا نقصان یہ ہے کہ پیٹرن نسبتاً جلدی دکھ جاتا ہے، ماڈلنگ کی بھی علت پڑی ہوئی ہے۔ جتنا علم پیدا ہورہا ہے، اور جو جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں ، اس کے بعد ہمارا موجودہ ماڈل تو مکمل فیل ہے۔ اس کا حل بھی مشکل ہے کیونکہ ہم بہت قانونی لوگ ہیں، حقیقت کچھ بھی کاغذ ٹھیک رکھتے ہیں۔

کاغذ ٹھیک نہ رہیں تو بہت رولا پڑتا ہے ۔ گزشتہ دو سالوں میں بچوں کے بہت نمبر آ ئے تو رولا پڑ گیا، اس سال فیل ہو گئے تو رولا پڑ گیا۔ یہ تو مسئلہ ہی نہیں اور بحث ہی نہیں کہ ، ان معصوموں کو کچھ آ تا بھی ہے یا نہیں۔ کاغذ ٹھیک رہنے چاہیں، لوگ اور ادارے کاغذ ہی تو دیکھتے ہیں۔ کاغذ ٹھیک رہ گئے ، باقی سب تباہ ہو گیا۔

بچے جوان ہوکر بھی کاغذ کے چکر میں رہتے ہیں، ڈگری والا کاغذ ، استاد سے امتحان کے بارے اس لئے پوچھا جاتا کہ کاغذ ٹھیک رہے ۔ کاغذ ٹھیک ہو گیا، قانونی تقاضے پورے ہو گئے۔ اگلا مسئلہ ہے معاشرے کے تقاضوں کا۔ معاشرے کے تقاضوں کی سمجھ ہی نہیں، انسان اور بالخصوص مسلمان اسکے ذمے ہے contributeکرنا ، فائدہ پہنچانا، contribute کرنے کے خواہشمند پیدا ہو جائیں، contributeکرنے لگ جائیں، پانچ سال میں بہت کچھ بدل جائے گا۔ یہی پاکستانی ملک سے باہر جاکر بھی تو contributeکرتے ہیں۔

حل کی طرف آ تے ہیں، سادہ سا حل ہے، کاغذ سے پہلے لائیںcontribute کرنے کی خواہش کو۔ استاد لیکچر کو تین حصوں میں تقسیم کریں ۔ پہلا حصہ ٹرمینالوجی اور لٹریچر میں موجود اپلیکیشنز یا case studies ، دوسرا حصہ اس ٹرمینالوجی کا مارکیٹ میں استعمال اور آج ہو نے والی تحقیق ، تیسرا حصہ ، مضمون اور متعلقہ سکلز کا مستقبل ۔

ٹرمینالوجی کو رٹا مار مار کر جو مرضی کرلیں ، استعمال نہیں کریں گے، نہیں سمجھ آ ئے گی ، نہ ہی یاد رہے گی۔

تتے توے پر اچھلنے کی بجائے اب ہمیں آ ہستہ آ ہستہ سدھار کی طرف جانا ہے۔ یہ کہتے ہو ئے مجھے یہ احساس ہے کہ میرے ملک میں دو ایم ایس سی استاد 25 سے زائد مختلف کورسز پڑھا کر قوم کا مستقبل بنا رہے ہیں ۔ اب مستقبل بنے گا یا کچھ اور ، یہ ظاہر ہے۔ جس کا بس چلے ، وہ تو خود کو بچائے ۔ ہاتھ پاؤں تو مارنے چاہییں ۔

سوچا کریں ، کہانی سوچنے سے شروع ہوتی ہے اور سوچ سے ہی آگے چلتی ہے۔

ڈاکٹر عمران جاوید

21/09/2023

ریجیکشن بہت ہی نارمل چیز ہے، آ پ بہت محنت سے کوئی پراڈکٹ ڈیزائن کریں ، خود کو تیار کریں ، پھر بھی ریجیکشن اور embarrassment یعنی کہ ذلالت کے لئے تیار رہیں۔

مارکیٹنگ ایک حقیقت ہے، ایک لاکھ لوگوں کے سامنے آ پ کا آ ئیڈیا یا پراڈکٹ جائے اور پانچ سو کو متاثر کر لے، آ پ تو بہت کامیاب ہیں۔ ریجیکشن کا تناسب ہمیشہ بہت زیادہ رہتا ہے۔ کو ئی آ پ کو ویلیو نہ کرے تو دل پر نہ لیں، ریجیکشن پر فلمی ڈائیلاگز نہ ماریں یا ڈرامے نہ کریں، سہہ جائیں۔ infinite patience چاہیے، اگر ذرا سی بات پر چیخیں نکل آ تی ہیں تو ساری زندگی تکلیف میں گزرے گی۔

سیاست دان اور کاروباری لوگ ریجیکشن کو حقیقت مانتے ہیں۔ انکو ہر کسی کی acceptance کی توقع ہی نہیں ہوتی۔ ریجیکشن ہینڈلنگ ایک بہت ہی ضروری سکل ہے, اس کے فائدے سمجھیں ۔

کوئی آ پ کو میسج کا جواب نہ دے، کوئی آ پ کی بات کو نظر ا نداز کرے ، یہ بھی ریجیکشن کی کیٹیگری میں آ تا ہے۔ عادی ہو جائیں۔ آ پ تب استعمال ہونگے جب آ پکی ضرورت ہو گی۔

عاشقوں سے معذرت کے ساتھ ، عملی زندگی میں 'تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی'، یہ اپروچ ہی چلے گی۔ پلاسٹک کا دل ہونا چاہیے، جس میں 'چب' پڑیں اور نکل جائیں، ٹوٹنے والا دل ہونا ہی نہیں چاہیے۔

آ داب
ڈاکٹر عمران جاوید

21/09/2023

یہ خواہش چھوڑ دیں کہ ہمیشہ نصاب اپڈیٹ ہو، جتنا لمبا چوڑا پراسیس ہے نصاب اپڈیٹ کرنے کا، اتنی دیر میں بہت کچھ اور ایڈ ہو چکا ہوگا۔ یہ کام تواتر سے ہونا چاہیے لیکن اس کے مراحل ہیں۔ اب پیمانے طے کرنا ہو نگے۔ ٹیچر کا اپڈیٹ ہونا نصاب اپڈیٹ ہونے سے زیادہ ضروری ہے۔ جو میں پڑھاتا ہوں، وہ کیا ہے ، اس کا فائدہ کیا ہے ، اس میں کس قسم کی جدت ہے، استاد کو ان سوالوں کے جواب دینے ہیں ۔

استاد قوم کا محسن ، ڈاکٹر قوم کا مسیحا ، اور ایسے جانے کتنے فضول نعرے جوڑ رکھے ہیں ۔ پروفیشنل اپروچ چاہیے ۔ نہ مفت میں کو ئی احسان کر رہا ہے اور نہ ہی کہیں مفت کی مسیحائی میسر ہے۔ اگر کہیں آ پ کو کیش نہیں دینا پڑ رہا تو وہ آ پ کے ٹیکس کی وجہ سے۔

ڈاکٹر عمران جاوید

20/09/2023

کچھ لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ ڈگری مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ انکو کہیں نہ کہیں دنیا داری بھی سمجھ آ جا ئے گی۔ یہ سوچ بالکل غلط ہے ، دنیا داری علیحدہ کھیل ہے اور ٹیکنیکل ٹرمینالوجی سیکھنا علیحدہ ۔ تعلیم کا کھیل دنیا داری اور ٹیکنیکل ٹرمینالوجی کو جاننے سے شروع ہوتا ہے اور کھیل کے اگلے مراحل میں آ پ کو دونوں کو جوڑنا ہے۔ ایک سائیڈ سیکھ لی اور دوسری کی سمجھ نہیں تو تعلیم کا مکمل فائدہ نہیں ۔

ڈاکٹر عمران جاوید

20/09/2023

یادوں سے

معاشرے کے مسئلے کیا ہیں اور میرا سبجیکٹ اور اس کی ٹرمینالوجی استعمال کر کے ان میں سے کون کون سے حل ہو سکتے ہیں ۔ ریاضی کو لیکر جب اس سوال کا جواب ڈھونڈ نا یا سوچنا شروع کرتا ہوں تو گوگل کی دنیا میں نئے سے نئے مسئلوں اور بالخصوص کاروبار ی مسئلوں کے ساتھ ریاضی کی رشتہ داری سمجھ آ تی ہے۔ پوری سمجھ آ تی یا نہیں ، یہ ایک اور سوال ہے۔

کوئی بھی مضمون جو آ پ کو آ تا ہے اور ان ٹرمینالوجی اور ٹیکنیکل know-how آ پ کو ہے ، اس کو گوگل کی مدد سے دنیا داری سے ضرور جوڑیں۔ فزکس ، کیمسٹری ، بائیو کیمسٹری ، بائیو ٹیکنالوجی ، بائیو انفارمیٹکس ، وغیرہ وغیرہ ان مضامین کے مختلف مسائل کے حل میں شدید مانگ ہے ۔ ہمارا سارے کا سارا مسئلہ مائنڈ سیٹ ہے۔ فالوور مائنڈ سیٹ یا مرید مائنڈ سیٹ ہمارے موجود ہ نظام کا سب سے بڑا سائیڈ ایفیکٹ ہے۔ اب ہمیں اتنی نئی سوچ اور اتنے ایڈونچر کی ضرورت ہے کہ نوجوان میں حوصلہ اور اعتماد ہو کہ وہ کچھ بھی نیا کر سکتا ہے۔

کاروبار، نفسیات اور قانون کی سمجھ چھوٹی عمر میں دینا ضروری ہے۔ نظام تعلیم جانے کب بدلے ، ماں باپ کی ذمہ داری بڑھ گئی ، انہوں نے خود بھی پڑھنا ہے اور اولاد کو بھی نئی راہ سوچنے کا حوصلہ دینا ہے۔

ہماری اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مضمون کوئی بھی ہو ، ہمارے ہاں صرف استاد تیا ر کئے جاتے ہیں جو پڑھنے کے بعد صرف پڑھا سکتے ہیں ۔ پڑھ پڑھ کر اور پڑھا پڑھا کر اور وہ بھی پرانا ، ہم کدھر جائیں گے۔ پڑھانے والوں کی مزید ڈیمانڈ ختم ہے اور جو پڑھا رہے ہیں ، کچھ وقت تک انکو بھی یہ میسج ملنا شروع ہو جائے گا کہ آ پ کی ضرورت نہیں ۔ تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اور وہ بھی سرکاری اداروں میں پڑھانے والے تیا ر کئے جاتے ہیں اور مسئلہ یہ ہے کہ اب معاشرے کو مزید ضرور ت نہیں ۔

جیسے کچھ داغ اچھے ہوتے ہیں ، اسی طرح کچھ مسئلے بھی اچھے ہوتے ہیں ۔ پڑھانے کی نوکریاں ختم ہونے سے مسئلہ تو پیدا ہوا ہے لیکن یہ اچھا مسئلہ ہے ، اب معاشرہ مجبور ہے کہ دنیاداری ، کاروبا ر ، سائنس کو سمجھنے والے پرابلم سالوور پیدا کرے جو معاشرے کی سہولت اور مسئلوں کا سوچیں ۔

مجھے اکثر اوقات لگتا ہے کہ میرے ہم عصر ، مجھ سمیت ریٹائر نہیں ہونگے ، نکال دیئے جائیں گے۔ میرے لئے سوال یہ ہے کہ اگر نوکری سے نکال دیا جا وں تو پڑھانے کے علاوہ مجھے کیا آ تا ہے۔ ذاتی طور پر میں اب ہر وقت اپنی تعلیم اور سوچ کو اس طرح تبدیل کرنے کے پیچھے لگا ہوا ہوں۔ مجھے معاشرے کو اس کے مسئلوں کا حل دیناہے۔ یہی ہدف دنیامیں سب ماہرین کا ہے۔

کچھ تعلیمی اداروں کو بند کرتے وقت یہ کہا جائے گا کہ یہاں سرکاری ملازم تیار کئے جاتے تھے ، اب ضرورت نہ رہی ، اس لئے اب ادارہ بند ہے۔ رزلٹ اچھا نہیں آ یا ، نمبر اچھے نہیں آ ئے، اب یہ تو سوال ہی نہیں ۔ اب تو سوال یہ ہے کہ ایک اور سال گزر گیا اور ابھی جوانوں کو ایسا کچھ نہیں آ یا جس کا فائدہ معاشرے کو دے سکیں۔ ایک دوست بتا رہا تھا کہ دنیا کہ کچھ جدید یونیورسٹیاں اب گارنٹی دیتی ہیں کہ اگلے پانچ سال کے اندر اندر ہمارا گریجویٹ آ پ کی تما م جدید سکلز کی ضرورت پوری کرے گا ورنہ یونیورسٹی پر ذمہ داری ڈالی جا سکتی ہے۔ پانچ سال بعد آ نے والے بدلاؤ کی یونیورسٹی ذمہ دار نہیں ہے۔ ہماری صورت حال یہ ہے کہ کہیں بھی ایک سیکنڈ کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ صورت حال یہ ہے کہ ہم ان مسئلوں کا حل سمجھ رہے ہیں جو دنیا کئی سال پہلے حل کر چکی ہے اور ان کا حل سمجھتے سمجھتے ڈگری ختم یا ڈگری موصول ۔

یونیورسٹی کلاس روم ڈسکشن کا پلیٹ فارم ہوتا ہے، جس کا وقت تین حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے ، ایک حصہ میں ٹرمینالوجی اور پہلے سے حل شدہ مسئلے ڈسکس ہو ں، دوسرے حصے میں اس ٹرمینالوجی کے ساتھ آ ج کونسے مسئلے حل ہو رہے ہیں اور تیسرے حصے میں مستقبل کے بارے سوچا سمجھا جائے ۔

ہمارے ہاں اکثریت کے پاس ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے کوالٹی آف ایجوکیشن کو امپروو کرنا ۔ ہمارا مسئلہ صرف کوالٹی نہیں ، content of education بھی ہے ۔ پرانا پڑھا پڑھا کر اور جتنا مرضی اچھا پڑھا لیں ، آ پ تعلیم کی ضرورت کا ایک تہائی پورا کر رہے ہیں ۔ دو حصے چھوڑ کر بات کیسے بنے گی۔

سوچیے گا کہ ٹرمینالوجی کہا ں استعمال ہوگی، کن مسئلوں میں ، فائدہ بھی سوچئے گا۔ سمجھ نہ آ ئے تو آ ن لائن پلیٹ فارمز پر دنیا کے حل کئے مسئلے سمجھ لیں ، پھر انکو پاکستانی رنگ دے لیں۔

ڈاکٹر عمران جاوید

20/09/2023

یادوں سے

نوکیا مارکیٹ میں آ یا، مارکیٹ پر راج کیا، راج ختم ہو گیا ، کیوں کہ اس سے بہتر اور زیادہ پرکشش موبائل ڈیوائسز آ گئیں۔ سوچ لیجئے، بدلنا کیوں ضروری ہے۔ کیسے بقا ممکن ہے جب مارکیٹ ہی بدل گئی۔

جوانوں کو مارکیٹ کی جدت کو سمجھنا ہے ، دنیا میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنا ہے، سیاست اور مارکیٹ کا تعلق سمجھنا ہے۔

نوکیا بہت اچھا تھا، لیکن replace ہو گیا۔ مجھے بعض اوقات لگتا ہے کہ مجھے اور میرے ہم عصر وں کو ساٹھ سال کی عمر تک یہ سسٹم برداشت نہیں کرے گا، نکال دے گا۔ کوئی مانے یا نہ مانے ، مارکیٹ پریشر معاشرے بدل دیتا ہے۔

ایک انقلاب آ نے کو ہے جس میں جوان بابوں کی نوکریاں چھین لیں گے کیونکہ بابے outdated ہو جائیں گے نوکیا کی طرح۔ مستقبل اب ایسا ہی ہے ، اگر آپ اپڈیٹڈ ہیں تو ہی بچے ہوئے ہیں۔ بقا کی لڑائی بہر حال جاری رہتی ہی ہے۔

جوانوں کا بدلنا بہت ضروری ہے۔ بدلو میرے جوان کہ بدلے پاکستان۔

ڈاکٹر عمران جاوید

19/09/2023
19/09/2023

2021 کی تحریر جب پٹرول 124 روپے لیٹر تھا اور آ ہ و بکا جاری تھی

اگر ہم نے احتیاط نہ کی، یا یوں کہہ لیں کہ ایمرجنسی نہ لگائی تو ہم بہت ہی فرسٹریٹڈ معاشرہ بننے جارہے ہیں۔ صرف نوکری کی سوچ کے ساتھ تعلیم دی جا رہی ہے ، سرکاری نوکریاں ختم ہو گئیں، پنشن کا بوجھ اتنا بڑھ چکا کہ قوم اٹھا نہ پائے گی، پرائیویٹ اداروں کے لئے ہمارے ہاں ماحول ہی سازگار نہیں۔

درآمد ذیادہ ، برآمد کم ، پروڈکشن کم ، ضرورت یا consumption زیادہ ، دونمبری کے تحفظ کے لئے ایسوسی ایشن اور یونین موجود، سیمنٹ کی قیمت بڑھا دیں یا چینی کی، وہی حکومت، وہی اپوزیشن اور عام آ دمی کے حصے میں صرف چیخیں۔

ہمارے ملک کی خبریں ہماری ساری زندگی میں تو ایسی ہی رہیں۔ جب تیل سترہ روپے لیٹر تھا ، تب بھی آ ہ و بکا ایسی ہی تھی اور آ ج 124پر بھی وہی ہے۔ بہت کچھ کہنے سمجھنے کا ہے۔ جوانوں کو بچا لیں ہم تو پہی کا میا بی ہے۔

جس معاشرے میں 2021 میں جب ڈاکٹر وں کی تین سیٹوں پر چھ سو درخواستیں آ رہی ہوں اور اسکے باوجود ہر قابل بچے کو اسی شعبے میں جھونکی جائیں ، وہ معاشرہ لگتا ہے سدھرنا ہی نہیں چاہتا۔ بچے کو تو عقل نہیں ہے، تجربہ نہیں ہے ، جو اسکے پڑھانے والے ہیں ، جو والدین ہیں وہ جانے کیوں کبوتر بنے ہوئے ہیں۔

کاروبار سکھانا پڑے گا، ٹیکنالوجی سکھانی پڑے گا اور کاروبار ہی کرنا پڑے گا۔ وہ دن گئے جب نوکریاں زندگی گزارنے کو کافی تھیں۔ مجھ جیسوں کی لگی ہوئی ہے، جوانوں کے لئے آ سان نہیں ہے۔

سوچیں ، بدلیں ۔

ڈاکٹر عمران جاوید

19/09/2023

یونیورسٹی تنقید اور تخلیق یعنی کہ مسائل حل کرنے کی جگہ ہوتی ہے۔ یونیورسٹی میں ہر کوئی تنقید میں لگا ہوتا ہے تاکہ خامیاں ، کمزوریاں سمجھ کر کچھ بہتر کیا جا سکے۔ تنقید تو ویسے بھی ہمارا قومی مشغلہ ہے، سدھار ہو کیسے اس پر ہی ڈیڈ لاک ہوتا ہے کیونکہ کسی نہ کسی کے مفاد کو چوٹ پہنچتی ہے۔ research سے بات innovation اور کمرشلائزیشن کی طرف شروع ہی ہوئی تھی کہ ریورس گیئر لگ گیا۔ اب ہر گلی محلے میں بی ایس شروع ، مطلب یونیورسٹی کا معاملہ گلی محلوں کی نظر ہو گیا ۔ یونیورسٹیوں کو طالب علم اس لئے کم ملنے شروع ہو گئے کہ یونیورسٹی کی فیس زیادہ ہے۔ یونیورسٹیوں کی انتظامیہ نے بھی معیار گرا لیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اب کیا ہو گا؟

یونیورسٹی کیا ہوتی ہے، کیوں بنا ئی جاتی ہے، یہ تو سوال ہی نہیں ، سولہ سالہ تعلیم کا ہدف کیا ہوتا ہے، یہ بھی سوال ہی نہیں ۔ جوانوں کا بھی وقت ضائع کیا جارہا ہے اور قوم کا بھی۔ اتنی ڈگریاں ، اتنی ڈگریاں کہ فرق ہی نہیں پڑتا ڈگری سے۔ اسکے بعد کیا، یہ نہ طالب علم کو پتہ، نہ اسکے استاد کو اور نہ سرکار کو۔ پتہ نہیں کس کام پر لگ گئے سب۔ سدھار تو سدھار کی خواہش اور پھر ضروری حرکات کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ غریب ماں باپ فیس کی بچت تو کر لیں گے لیکن اس کے بعد کیا ۔۔
کبھی کبھی ایسے لگتا ہے جیسے سوچنے پر پابندی لگی ہو ئی ہو ہماری قوم پر ۔ سوچیں ، انجا م سوچیں ۔

ڈاکٹر عمران جاوید

19/09/2023

ٹیچر کو فالو کرنا ناکامی کو گلے لگانے کے مترادف ہے۔ ٹیچر کی سنیں، سمجھیں مگر سوچیں اپنا۔ ٹیچر کو فالو کرنا کیا ہو تا ہے ؟ ٹیچر سے سیکھا جاتا ہے اور کوئی بھی ٹیچر نہ سب سکھاتا ہے ، نہ سکھا سکتا ہے۔ پڑھیں اپنا اور پلان بنائیں اپنا۔ ٹیچر سے آگے جانے اور زیادہ جاننے میں ہی کامیابی کا کوئی چانس ہے۔ دنیا کا کوئی گریٹ ، ٹیچر کی وجہ سے گریٹ نہیں ہے اور دنیا کے کسی بھی گریٹ ٹیچر کے سارے طالب علم گریٹ نہیں ہیں ۔

ڈاکٹر عمران جاوید

19/09/2023

کسی منفی شخص کے ساتھ رہنا بہت مشکل کام ھے ۔ یہ لوگ ہماری ساری توانائ اور پوزیٹیوٹی نچوڑ لیتے ھیں۔
ایسے میں اگر ہماری اپنی ذات کمزور ھو اور ارتقاء پر محنت کم ہو تو ھم بھی فورا خالی ھوجایئں اور پھر منفی ھوجایئں۔
یہاں کچھ چیزیں یاد رکھنے والی ھیں۔
1۔ فوکس دوسرے شخص یا اس کے کاموں پر سے ھٹانا اور خود پر مرکوز رکھنا۔
2۔ دوسرے کو بدلنے کی آرزو یا جستجو کو محور و مرکز نا بنانا
3۔ دوسرے کو جو ھے جیسا ھے کہ بنیاد پر تسلیم کرنا
4۔ بحث و مباحثہ سے اجتناب
5۔ بات ماننے کے بجائے ویلیڈیٹ کرنا اور جب تک دم میں دم ھے حوصلہ سے سننا۔
6۔ جب خود کمزوری محسوس کریں یا جذبات منفی ھونے لگیں تو معذرت کرکے اٹھ جانا
"فی الحال میرے لئے یہ باتیں سننا ممکن نہیں۔۔پھر کبھی کرتے ھیں۔"
7 ۔
کے اصول یاد رکھنا۔
8۔ دعا کرنا
منفی لوگ خود سخت مشکل میں ھوتے ھیں۔۔ان کی اصل جنگ اپنے ساتھ چل رہی ھوتی ھے۔ ان کی باتوں کو پرسنل لینے کی تک نہیں بنتی۔
اگر منفی بات سے زیادہ تکلیف محسوس ھونے لگے تو توجہ اس کے بجائے خود پر مرکوز کرنا، اپنے جذبات کا تجزیہ کرنا ضروری ھے۔ اس کے لئے معذرت کرکے اٹھ جایئں اور خود کو توجہ دیں۔

عام طور پر منفی لوگ ججمنٹل باتیں کرتے ھیں۔نیتوں پر شک اور ھمارے اندر کی دنیا کے حال و احوال کے بارے میں ایسے بات کرتے ھیں جیسے وہ ھمارے اندر بیٹھے ھیں خدانخواستہ اللہ کی طرح ان کو سب پتہ ھے-
یہ یاد رکھنا ضروری ھے کہ
اگر ھمارے بارے میں اللہ کے بعد کسی کو کچھ اندازہ ھے تو وہ ھم خود ھیں۔کسی تیسرے چوتھے بندے کی بات صرف اس کی ذاتی رائے یا تجزیہ ھے حقیقت بلکل نہیں"
اس لئے furious ھونے کے بجائے curious ھوجایئں۔
خود کو ٹھنڈا کریں۔ اور کلیئرلی کہیں
"اچھا آپ کا یہ خیال ھے۔۔آپ ایسا سمجھتے ھیں۔"
اگر حملے تابڑ توڑ ھوں تو واضح کردیں
" میرے یا کسی اور کے اندر کی کہانی، نیت کا حال ۔۔۔صرف اللہ کے علم میں ھے۔ اور کچھ مجھے خود پتہ ھے۔۔۔آپ کی رائے زنی درست نہیں۔"

یہ بات اس وقت زوردار اور با اثر ھوگی جب سیلف کیئر اور خود آگاہی کی وجہ سے آپ کرسٹل کلیئر ھو۔
اگر آپ خود کلیئر نا ھوں یا شک کا شکار ھوںگے تب سمجھ لیں کہ منفی لوگوں کے لئے سافٹ ٹارگٹ بنے رہینگے۔۔۔۔!

(Copied)

19/09/2023

2019 کی یادوں سے

یہ سمجھ لیجئے انسان برابر لیکن منفرد ہوتے ہیں۔ مختلف انسانوں کا دماغ ایک رفتار سے کام نہیں کرتا۔ سیکھنے کے دوران اپنا موازنہ دوسروں کے ساتھ مت کیجئے۔

ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جب روزگار کا تعلق صرف مہارت سے ہوگا ۔ ڈگری تو ہر کسی کے پاس ہوگی ۔ ہمارے جوانوں کو skill اور self education کے بارے سوچنا پڑے گا ۔ ڈگری تو الماری میں رہ جانی ہے ، معاشرے نے صرف یہ دیکھنا کہ آپ اسکے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ ڈیمانڈ سپلائی اور معیشت ہی مستقبل کے پیشے طے کر تی ہے۔ جیسے جیسے artificial intelligence کی پروڈکٹس سامنے آئیں گی، مارکیٹ ڈیمانڈ مزید بدلے گی۔

یاد رکھیے رٹو طوطے جتنے مرضی نمبر لیں لیں ، لیڈر نہیں بن سکتے، بچا کھچا کھا ئیں گے۔ نمبر لیں ، ضروری ہیں لیکن سیکھ کر تاکہ ہر اگلی جماعت میں زیرو سے سٹارٹ نہ کرنا پڑے۔ منصوبہ بنائیں اپنے بہتر مستقبل کا ۔ سوچیں کہ اب سے پانچ سال بعد آپ خود کو کہا ں اور کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ پلان بنائیں اور پھر اس پلان کو مستقل بہتر کریں۔
رویے اور نفسیات کی سائنس سمجھیں، یہ بہت اہم ہیں لیکن ignored ہیں۔

ڈاکٹر عمران جاوید

19/09/2023

مسئلہ تعلیمی نصاب کا نہیں ہے، تعلیمی نظام کا نہیں ہے، ان دونوں پر بحث بھی outdated ہو گئی ۔ مسئلہ یہ ہے کہ تعارفی کورسز کو رٹا مارنا کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں دے رہا ، نہ دے گا۔ examination phobia سے بات آ گے بڑھانی پڑے گی۔ introductory course اس کے بعد advanced course اور پھر implementation via projects والی سکیم چلے گی۔ one fit for all کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے اور ہمارے جوان نما بچوں کو ہمیں پلاننگ کرنی سکھانی ہے۔

کیریئر ٹائٹل سے کہانی شروع ہو گی، سکل سیٹ ٹارگٹ بنے گا اور پھر ڈگری وغیرہ تک بات جائے گی اور پلان مستقل ریویو بھی ہو گا اور امپروو بھی۔ کیریئر ، کاروبار ، مہارت ، ان میں سے کچھ بھی مستقل نہیں ۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ مجھے نظام لمبے عرصے تک برداشت نہیں کر ے گا اور مجھے کیریئر کو نئی شکل اور ہدف دینا پڑے گا۔ ہمارے نظام کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد مارکیٹ رئیلٹیز ہم سے جانے کیا کیا کرائیں گی۔

جتنے جدید کیریئر ہیں وہ میتھ ، سٹیٹ ، کمپیوٹر کے کندھوں پر چلتے ہیں ، ان تینوں میں سے ایک کے کورسز کو ترجیح بنا کر خود کو بے روزگار تیار کرنے والی بات ہے۔ پرانے نظام میں پرانے افراد کے ذاتی مفاد کی وجہ سے گروتھ مشکل رہتی ہے۔ جوانوں کو جدید ترین اور مفید ترین کی ضرورت ہے۔ ان کا جدید ترین اور مفید ترین پرانے نظام اور افراد کی اندھا دھند تقلید سے تو حاصل نہیں ہو پائے گا۔

جتنے جدید کیریئر ہیں ، ان کے ٹرینر ہمارے ملک میں ہیں ہی نہیں ۔ اس لئے ہمارے جوانوں کو پلان فالو کرنا ہیں ، پرانے ٹرینرز سے کورسز پڑھنے ہیں ، جدت کا تڑکا یوٹیوب ، گوگل ، چیٹ جی پی ٹی اور آ ن لائن سرٹیفکیٹس سے لگائیں ۔

ڈاکٹر عمران جاوید

18/09/2023

کیا ہمارے ملک میں آ پ ادارہ بتا سکتے ہیں جس کا کام واضح ہو اور اس طرح کا کو ئی پیمانہ موجود ہو جو ادارے کی پرفارمینس چانج سکے، جب ادارے کے لئے پیمانہ کوئی نہیں تو اس ادارے میں کام کرنے والے افراد کے لئے کیسے ہو گا۔ جو ادارے باقی اداروں پر حاوی ہیں ، ان کا پورا زور اپنی برتری قائم رکھنے پر لگا ہوا ہے۔

جب تک اداروں کے اہداف ، ان میں کام کرنے والے افراد کے اہداف واضح نہیں ہونگے، کسی قسم کی بہتری ہو ہی نہیں سکتی۔ اداروں کی گروتھ اپنے اہداف کے ساتھ ہوتی ہے اور افراد کی گروتھ کا ادارے کی گروتھ سے تعلق ہونا ضروری ہے۔

نوکر کے پاس اپنی نوکری کا جواز ہو نا چاہیے اور ادارے پر بھی یہی معیار لاگو ہونا چاہیے ۔ ملکی حالات اچھے نہیں اور جن کی زمہ داری ہے اچھا کرنے کی، انکو پرواہ نہیں ۔ قیمت عام آ دمی بھرے گا۔

18/09/2023

بارہ سال اردو، چودہ سال انگریزی اس لئے پڑھی پڑھائی جاتی ہے کہ الفاظ کا ذخیرہ اکٹھا ہو، دل ، دماغ ، دنیاداری ، سمجھداری وغیرہ وغیرہ کی باتوں کا اظہار کیا جا سکے ، سوچ کو بول کر ، لکھ کر ، بتایا جا سکے، سمجھایا جاسکے، اپنا فائدہ بتا یا جا سکے۔

میتھ کا تڑکا لگایا جاتا ہے کہ تاکہ مسئلوں کی حدود و قیود طے کی جا سکیں ، ماڈل کے طور پر سو چا ، سمجھا، سمجھایا جا سکے ، حل کیا جا سکے۔ خیالی پلاؤ کو پیپر پر اتارنے کے لئے اظہار کی قابلیت چاہیے ۔ خیالی پلاؤ پکے گا تو حقیقت میں کوئی بہتر چیز وجود میں آ ئے گی۔

ساری زبانیں بشمول میتھ اور کمپیوٹر کی زبان کے، سوچ کے اظہار کے لئے ہیں ، سوچ ہوگی تو اظہار ہو گا۔

ڈاکٹر عمران جاوید

17/09/2023

دوصفحات کا کھیل

Letter of motivation
ہو یا پھر

statement of purpose,
یہ آ پکی expression یا اظہار کی قابلیت کا امتحان ہیں۔ پہلی جماعت سے لیکر بارہویں جماعت تک اردو اور چودہویں جماعت تک انگریزی پڑھ پڑھ کر ، پڑھا پڑھا کر ہدف صرف یہی ہے کہ اظہار یا expression کی قابلیت پیدا کی جائے ۔ letter of motivation یا statement of purpose کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ یونیورسٹی والے یا متعلقہ ادارے والے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انکی یونیورسٹی یا ادارے میں داخلہ یا نوکری کے لئے آ پکو کیا چیز motivate کر رہی ہے، آ پکا مقصد کیا ہے پی ایچ ڈی کرنے کا یا جاب کرنے کا۔

پی ایچ ڈی کے لئے یا جاب کے لئے letter of motivation نہ لکھ پائیں تو دو مسئلے سامنے آ گئے، ایک تو یہ کہ دماغ خالی ہے اور ایسا کوئی خیال نہیں جس کو منظم کر کے معاشرے کے فائدہ کا کچھ کیا جا سکے اور دوسرا یہ کہ اظہار کی قابلیت اور اظہار کے فن پر کچھ سو چا ہی نہیں ۔ یہ دونوں مسئلے اس بات کی علامت ہیں کہ تعلیم کے ساتھ آ پ نے وہ سلوک نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھا۔

Letter of motivation اور statement of purpose
کے بارے مستقل سوچتے رہیں ، یہ آ پ کو ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ کا سکالرشپ دلوا سکتے ہیں ، آ پ کو معاشرے میں اپنا کردار سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں ، آ پ کو آ پ کی قابلیت کا اندازہ کروا سکتے ہیں ، اگر آ پ بارہ سال اردو پڑھ کر اور چودہ سال انگریزی پڑھ کر دل اور دماغ کو استعمال کرکے دو اچھے صفحے نہیں لکھ سکتے تو اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرو۔ نظام تعلیم ا چھا ہے یا برا، آ پ نے اردو اور انگریزی بہت وقت پڑھ لی، vocabulary، tenses, summaries ، comprehension, essays, stories, letters اور پتہ نہیں کیا کیا ، یہ سب اسی لئے پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے کہ آ پ کو اظہار کا طریقہ آ ئے ، لکھ سکیں ، بول سکیں۔

دو صفحے شاندار قسم کے جو کسی کا دل جیت سکیں ، آ پ کو کسی قابل منوا سکیں ، آ پ کی قابلیت کا ثبوت ہوں ، آ پ کی سمجھداری کا ثبوت ہوں ، متعلقہ اداروں کے بارے آ پ کی جانکاری اور معلومات کا ثبوت ہوں، آ پ کیا کر پائیں گے ، اس چیز کا اعلان ہوں، صرف دو صفحات کی گیم ہے۔ لکھ لو گے؟ سوچو۔

ڈاکٹر عمران جاوید

17/09/2023

ہمارے ملک میں سیاسی تجزیہ نگاروں کی بھرمار ہے۔ ہر سطح پر دکھتے ہیں۔ زیادہ آ بادی ، زیادہ جوانوں کے ملک میں جوانوں کے معاملات، روزگار ، انکی تعلیم پر بہت سے لوگوں کی تجزیہ نگار ی چاہیے۔

تعلیم کے مقاصد، تعلیم کا طریقہ کار، تعلیم اور ٹیکنالوجی وغیرہ وغیرہ توجہ مانگتے ہیں۔ صاحب شعور لوگو ں کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔

17/09/2023

More than 90% of our students dont know how capable they are. They have abilities worth gold, dont polish them and sell them really cheap. Poor career choice, tough environment and lack of decision power has been so destructive for our youth. Young boys and girls must focus on self analysis, self education, self esteem and so on.

17/09/2023

پرانے استاد کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کیلئے چھٹی پر جانا پڑا تو ایک نئے استاد کو اس کے بدلے ذمہ داری سونپ دی گئی۔
نئے استاد نے سبق کی تشریح کر چکنے کے بعد، ایک طالبعلم سے سوال پوچھا۔
اس طالب کے ارد گرد بیٹھے دوسرے سارے طلباء ہنس پڑے۔ استاد کو اس بلا سبب ہنسی پر بہت حیرت ہوئی، مگر اس نے ایک بات ضرور محسوس کر لی کہ کوئی نا کوئی وجہ ضرور ہوگی۔
طلباء کی نظروں، حرکات اور رویئے کا پیچھا کرتے آخرکار استاد نے یہ نکتہ پا لیا کہ یہ والا طالب ان کی نظروں میں نکما، , احمق، پاگل اور غبی ہے، ہنسی انہیں اس بات پر آئی تھی کہ استاد نے سوال بھی پوچھا تو کسی پاگل سے ہی پوچھا۔
جیسے ہی چھٹی ہوئی، سارے طلباء باہر جانے لگے تو استاد نے کسی طرح موقع پا کر اس طالب کو علیحگی میں روک لیا۔ اسے کاغذ پر ایک شعر لکھ کر دیتے ہوئے کہا، کل اسے ایسے یاد کر کے آنا جیسے تجھے اپنا نام یاد ہے، اور یہ بات کسی اور کو پتہ بھی نا چلنے پائے۔
دوسرے دن استاد نے کلاس میں جا کر تختہ سیاہ پر ایک شعر لکھا، اس کے معانی، مفہوم، ابلاغ اور تشریح بیان کر کے شعر مٹا دیا۔ پھر طلباء سے پوچھا؛ یہ شعر کسی کو یاد ہو گیا ہو تو وہ اپنا ہاتھ کھڑا کرے!
جماعت میں سوائے اس لڑکے کے ہچکچاتے، جھجھکتے اور شرماتے ہوئے ہاتھ کھڑا کرنے کے اور کوئی ایک بھی ایسا لڑکا نا تھا جو ہاتھ کھڑا کرتا۔ استاد نے اسے کہا سناؤ، تو لڑکے نے ازبر یاد کیا ہوا شعر سنا دیا۔
استاد نے لڑکے کی تعریف کی اور باقی سارے لڑکوں سے کہا اس کیلئے تالیاں بجائیں۔ سارے طالبعلم حیرت و استعجاب سے دیدے پھاڑے اس لڑکے کو دیکھ رہے تھے۔
اس ہفتے وقفے وقفے سے، مختلف اوقات میں اور مختلف طریقوں سے ایسا منظر کئی بار ہوا، استاد لڑکے کی تعریف و توصیف کرتا اور لڑکوں سے حوصلہ افزائی کیلئے اس کیلئے تالیاں بجواتا۔
دوسرے طلباء کی نظریں، رویہ اور سلوک اس کے ساتھ بدلنا شروع ہو گیا۔
اس طالب نے بھی اپنے آپ کو بہتر اور افضل سمجھنا شروع کر دیا، اپنی ذات پر بھروسہ کرنے لگا، غبی اور پاگل کی سوچ سے باہر نکل کر عام طلباء بلکہ بہتر کی جانب بڑھنا شروع ہو گیا۔ اپنی صلاحیتوں کو بہتر استعمال کرنے لگا، پر اعتماد ہوا، دوسروں جیسا پڑھنے لگا بلکہ دوسروں کے ساتھ مقابلے میں آنے لگا۔
امتحانات میں خوب محنت کی، اپنے آپ کو ثابت کیا اور اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا۔ اگلی جماعتوں میں اور بہتر پڑھا، یونیورسٹی تک پہنچا، آجکل پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔
یہ ایک اخبار میں چھپنے والا شخصی قصہ ہے جس میں ایک شخص اس ایک شعر کو اپنی کامیابی کی سیڑھی قرار دے رہا ہے جو ایک شفیق استاد نے چپکے سے اسے یاد کرنے کیلئے لکھ کر دیدیا تھا۔
لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں:
ایک قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو خیر کی کنجیوں کا کام کرتے ہیں، شر کے دروازے بند کرتے ہیں، حوصلہ افزائی کرتے ہیں، داد دیتے ہیں، بڑھ کر ہاتھ بڑھاتے ہیں، اپنی استطاعت میں رہ کر مدد کر دیتے ہیں، دوسروں کے شعور اور احساس کو سمجھتے ہیں، کسی کے درد کو پڑھ لیتے ہیں، مداوا کی سبیل نکالتے ہیں، رکاوٹ ہو تو دور کر دیتے ہیں، تنگی ہو آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ترشی ہو تو حلاوت گھولنے کی کوشش کرتے ہیں، مسکراہٹ بکھیرتے ہیں، انسانیت کو سمجھتے ہیں، انسانیت کی ترویج کر دیتے ہیں، کسی کی بیچارگی کو دیکھ کر ملول ہوتے ہیں اور اپنے تئیں چارہ گری کی سبیل کرتے ہیں، ابتداء کرتے ہیں، ایجاد کرتے ہیں، ساتھ دیتے ہیں، مل کر کھاتے ہیں، دکھ بانٹتے ہیں، درد سمجھتے ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ اس کے برعکس شر کا دروازہ کھولنے والے، قنوطیت اور یاسیت کو پروان چڑھانے والے، چلتوں کو روکنے والے، سامنے پتھر لڑھکانے والے، حوصلوں کو پست کرنے والے، منفی رویوں کی ترویج اور اجاگر کرنے والے، شکایتوں کے پلندے اٹھائے، نصیبوں کرموں اور تقدیروں کو رونے والے، راستے بند اور راستوں میں کھونٹے گاڑنے والے۔

آپ معلم ہیں، والد ہیں، والدہ ہیں، استاد ہیں، قائد ہیں، یا ایک عام شہری ہیں؛ ایک سوال ہے آپ سے:
کیا آپ اپنی قسم بیان کر سکتے ہیں؟

یا الله هم سب کو خیر بانٹنے والا بنا دے... آمین.
(Copied)

17/09/2023

کلاس روم میں کبڈی سکھانا، بند گاڑی پر ڈرائیونگ سکھانا اور امتحان کی تیاری کرکے زندگی کے معاملات سیکھنا، تینوں ملتے جلتے معاملات ہیں ۔ قانون اور ٹرمینالوجی سیکھنا اور میدان میں اترنا مختلف معاملات ہیں ۔

17/09/2023

This post is about my course in MPhil starting tomorrow at CASPAM, BZU Multan.

Instructor Introduction:

I am Dr. Imran Javaid, Professor of Mathematics at CASPAM. 2018 onwards, my academic passions have evolved, pivoting towards the domain of Operations Research, Business Analytics and Data Mining. I have been teaching Operations Research, Business Analytics and Data Analysis. My aspiration is to gain and offer a deep understanding and address challenges within the realms of business and industry. Applied problems in the world of business are generally operational in nature. Business operations are governed by objectives and there are always constraints to cope up with. Hence, we end up having optimization problems which can be linear or non-linear depending upon the nature of operations. While we try to understand the constraints of any operation, understanding of financial situation of business and overall market is critical. Hence, I offer this course.

Course Title: Mathematical Foundations for Finance

Prerequisites: Calculus, Linear Algebra, Probability Theory and Mathematical Statistics

Course Introduction:

Mathematical Foundations for Finance is a course designed to provide students with the fundamental mathematical tools and concepts required to excel in the dynamic field of quantitative finance. Financial mathematics, also known as quantitative finance, is a branch of mathematics that focuses on solving financial problems using mathematical techniques and models. It blends mathematics, finance, economics, and statistics to address real-world financial challenges. Professionals in this field, often called quants (quantitative analysts), work in various sectors, including investment banks, asset management firms, hedge funds, and insurance companies, to develop mathematical models and tools for financial decision-making. For individuals pursuing a career in investment analysis, risk management, financial modelling, or portfolio optimization, a strong mathematical foundation is crucial for success.

Course Objectives:

By the end of this course, students should be able and equipped to:
- Understand and apply quantitative concepts in finance.
- Analyse financial data and make informed investment decisions.
- Construct and optimize investment portfolios.
- Evaluate and manage financial risk.
- Apply mathematical modelling techniques to finance-related problems.
- Gain proficiency in using mathematical software for financial analysis.
- Develop the skills needed to pursue a career in various aspects of finance, including risk management, investment analysis, and portfolio management.

Course Details:

This course, offered to MPhil students, is designed to provide students with the essential mathematical toolkit needed to navigate the complex and dynamic world of quantitative finance. In the world of finance, numbers are not just numbers; they are the fundamental building blocks of decisions that shape economies and industries. Our curriculum is meticulously crafted to unravel the intricate web of mathematical concepts and tools that underpin modern finance. Beyond quantitative analysis, this course aligns with the required skills of professionals in roles such as actuaries, financial analysts, risk managers, investment bankers, or portfolio managers. By the end of this course, student will be equipped with the knowledge and skills needed to confidently navigate the complexities of the financial world.

Mathematical Foundations For Finance

Topics* No. of Lectures*
1 Introduction to Mathematical Finance 1 lecture)
2 Time Value of Money 2 lectures)
3 Probability Basics for Finance 2 lectures)
4 Probability Distributions and Financial Applications 3 lectures)
5 Statistical Analysis in Finance 3 lectures)
6 Financial Derivatives: Options and Valuation 4 lectures)
7 Binomial Option Pricing Model 3 lectures)
8 Black-Scholes-Merton Model 4 lectures)
Mid Term
9 Portfolio Theory and Asset Pricing 3 lectures)
10 Capital Asset Pricing Model 3 lectures)
11 Arbitrage Pricing Theory 2 lectures)
12 Value at Risk 2 lectures)
13 Risk Measures and Risk-Adjusted Performance 2 lectures)
14 Stochastic Models for Asset Returns 3 lectures)
15 Computational Techniques in Finance 2 lectures)
16 Monte Carlo Simulation in Finance 3 lectures)
17 Numerical Methods for Financial Models 3 lectures)
18 Linear Programming for Portfolio Optimization 2 lectures)
19 Quadratic Programming for Risk Management 2 lectures)
20 Time Series Analysis in Finance 3 lectures)
21 ARIMA Models for Financial Time Series 2 lectures)
22 GARCH Models for Volatility Forecasting 2 lectures)
23 Introduction to Financial Engineering 1 lecture)
24 Mathematical Models in Derivative Pricing 3 lectures)
25 Mathematical Models in Risk Management 2 lectures)
26 Review of Projects and Case Studies 2 lectures)

*Arrangement of topics and number of lectures may be adjusted as per need. Projects and Case studies will be assigned in alignment with the topics covered.

Tools for the Course:

ChatGPT and other relevant helpful problem-solving resources will be explored alongside this course. Throughout this course, we'll leverage several tools and software commonly used in quantitative finance like:
Excel: An essential tool for financial modelling, data analysis, and portfolio optimization.
Power BI, Tableau and QlikView/Qlik Sense: For financial reporting and analysis
Python: A powerful programming language for data analysis, statistical modelling, and algorithm development.

Course Assessment:

Other than system-required examinations, student-understanding and progress will be evaluated through projects based on case studies which will also give student the opportunity to apply the mathematical tools they've learned to a specific finance-related problem or scenario. It will be required that all these projects and case studies are posted as part of portfolios of student’s LinkedIn and Upwork/Fiverr profiles.

Videos (show all)

Website