24/06/2023
تعلیم ِ قانون
تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان توڑنے اور بنگلہ دیش بننے میں بھارت نواز بھارتی اور بنگالی پروفیسرز نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کی جامعات میں مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کے حوالے سے بنگالی نوجوان نسل کے اذہان میں نفرت کے وہ بیج بوئے جو کم ہی عرصہ میں پروان چڑھ کر تناور درخت کا روپ دھار گئے۔ وطن سے محبت کا تصور ہمیں دیگر تہذیبوں کے ساتھ ساتھ اسلام میں بھی ملتا ہے۔ اسلام میں وطن سے محبت عقیدے کا جزوِ لازم ہے۔ اسلام قبول کرنے سے قبل اہل ِ قریش کے ظلم و ستم سے تنگ آکر جب آنحضور ﷺ مکہ سے ہجرت کرنے لگے تو مڑ کر مکہ شہر کی طرف دیکھا اوروطن سے محبت کے وہ الفاظ تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھے گئے۔یہی وجہ ہے کہ حکومت ِ پاکستان نے ”مطالعہ پاکستان“ کے نام سے ایک مضمون کا اجرا ء کیا جو آج سکولوں، کالجوں اور جامعات میں پڑھایا جاتا ہے۔ سکولوں میں بنیادی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ کالج میں مطالعہ پاکستان کو وسیع پیمانے پر پڑھایا جاتا ہے جبکہ جامعات کی سطح پر مطالعہ پاکستان کے ساتھ ساتھ وطن سے محبت، ماضی کی تاریخ، ملک کی سرحد سے ملحقہ ممالک کی اہمیت و افادیت اور مستقبل میں ممکنہ جغرافیاتی تبدیلیوں اور دیگر تاریخی خطوط پر بات کی جاتی ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ایک ایسی عظیم درسگاہ ہے جہاں شعبہ مطالعہ پاکستان تاریخی کردارادا کررہا ہے۔یہ شعبہ اس حوالے سے بھی خوش قسمت ہے کہ اِسے ڈین کی صورت میں ایک ایسی شخصیت میسر آئی جو وطن سے محبت کے جذبے سے سرشار رہی۔ ایک ایسی ہمہ جہت خوبیوں کی مالک شخصیت جو کئی حوالوں سے ملکی خدمات سرانجام دے چکی ہے اور کئی حوالوں سے خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ پچھلے دِنوں چیئرمین شعبہ مطالعہ پاکستان پروفیسر ڈاکٹر آفتاب گیلانی سے گفتگو ہوئی جو سابق ڈین فیکلٹی آف لاء کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے پہلے شعبہ مطالعہ پاکستان کے ماضی، حال اور مستقبل پر سیر ِحاصل بات چیت کی، پروفیسر آفتاب گیلانی نے دورانِ گفتگو بتایا کہ عہد ِرواں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی تاریخ میں طلبہ و طالبات میں جذبہِ پاکستانیت پیدا کرنے کے حوالے سے درخشاں الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔ پروفیسر ڈاکٹر آفتاب گیلانی نے انٹر کالج بہاولپور سے ایف ایس سی، گورنمنٹ صادق ایجرٹین کالج سے بی اے اور اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور سے تاریخ و مطالعہ سے فرسٹ کلاس میں ایم اے کیا۔
انہوں نے پیشہ ورانہ سفر کا آغا ز 1988میں بطور لیکچرر بلوچستان یونیورسٹی آف کوئٹہ سے کیا۔ بعد ازاں اُن کی پبلک سروس کمیشن سے بطور لیکچرارتعیناتی ہوئی اور انہوں نے تیس جنوری 1990کو انٹر کالج منچن آباد کو جوائین کیا۔چھ اگست 1990کو ایف سی کالج میں بطور لیکچرار تعینات ہوئے۔2002میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ’ریاستِ بہاولپور کا نظام عدل‘ کے نام سے مقالہ لکھااور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 2009کو بطور اسسٹنٹ پروفیسر اسلامیہ یونیورسٹی کو جوائن کیا، 2014میں ایسو سی ایٹ پروفیسر جبکہ 2020میں پروفیسر ہوئے۔ قبل ازیں 2017میں انہیں چیئرمین پاکستان سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ تعینات کیا گیا جبکہ بائیس مارچ 2021انہیں ڈین فیکلٹی آف لاء کی ذمہ داری ملی۔ انہیں بچپن سے ہی کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا۔ بہاولپور ڈویثرن کی طرف سے انڈر 19کرکٹ کھیلی۔ ایس ای کالج اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے بھی کرکٹ کھیلی، یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہے۔ 2001میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا ایمپائرنگ کا امتحان پاس کیا اورپی سی بی سے بطور ایمپائر وابستہ ہوگئے۔ 2007میں پاکستان کرکٹ بورڈ بطور فرسٹ کلاس ایمپائرنگ سے ڈیبیو کیا۔ اب تک پچاس سے زائد فرسٹ کلاس، پچاس ون ڈے (ڈومیسٹک) اور تیس سے زائد ٹی ٹوئینٹی میچز میں ایمپائرنگ کے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔جبکہ پی سی بی کے تحت وہ کل 400سے زائد میچز کی ایمپائرنگ کرچکے ہیں جن میں ساٹھ فرسٹ کلاس میچز بھی شامل ہیں۔ 2007میں کراچی میں پاکستان اور بنگلہ دیش انڈر 19ٹیموں کے درمیان میچ کی ایمپائرنگ کے فرائض بھی سرانجام دیے۔اُن کی کوچنگ میں یونیورسٹی نے اِنٹر یونیورسٹی چیمپئن شپ جیتی جبکہ دوبار رَنر اَپ رہی ہے۔
کرکٹ سے محبت اور کرکٹ کے شعبہ میں دلچسپی اور خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں 2019میں کچھ عرصہ کے لئے ڈائریکٹر سپورٹس بھی تعینات کیا گیا۔ساتھ ہی انہیں اسلامیہ یونیورسٹی سپورٹس ٹورنامنٹ کمیٹی (آئی یو ایس ٹی سی) کاصدربھی منتخب کیا گیا۔ علاوہ ازیں یونیورسٹی کی سپورٹس پرچیز کمیٹی کے چیئرمین، یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کے منیجر اور سلیکٹر اور ساتھ ہی ساتھ وہ اسلامیہ یونیورسٹی سپورٹس سوسائٹی کے ایڈوائزربھی ہیں۔تین سال میں ایفی لیشن کمیٹی کے ممبر، چیئرمین کانووکیشن فوڈ کمیٹی، سیکرٹری کمیٹی اِن ڈسپلن اور مس کنڈکٹ (اپیل کمیٹی)،پنجاب یونیورسٹی، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان، وویمن یونیورسٹی ملتان، جی سی یونیورسٹی فیصل آباد اور شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے بورڈ آف سٹڈیز، سلیکشن بورڈز، ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کے ممتحن کے علاوہ پروفیسر آفتاب گیلانی پانچ کتابوں کے مصنف، قومی و بین الاقومی جرائد میں چھپنے والے ساٹھ سے زائد مقالہ جات کے مصنف ہیں۔ ساٹھ ایم فل اور دس پی ایچ ڈیز کرواچکے ہیں۔ عہد ِ ماضی کی یاد تازہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ جب انہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کوجوائن کیا تب شعبہ کے کل 43طلبہ و طالبات تھے۔ صرف بی ایس اور ایم اے پروگرام تھا،جبکہ پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کی ذاتی دلچسپی کے سبب اب بی ایس، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام چل رہے ہیں اور 400سے زائد طلبہ و طالبات زیر ِ تعلیم ہیں۔ اب شعبہ بڑھ چڑھ کر تدریسی، تحقیقی، مطالعاتی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے۔ حال ہی میں سوشل سائنسز اور ہیومینی ٹیز پر بین الاقوامی کانفرنس کروائی گئی ہے۔
قائد (قائد ِ اعظم)ڈے، اقبال (علامہ اقبال) ڈے، یومِ یکجہتی کشمیر، قراردِ لاہور، نواب (نواب آف بہاولپور سر صادق خان عباسی)ڈے اورتحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی شخصیات سے آگاہی کے لئے سیمینار منعقد کرائے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’صادق جنرل آف پاکستان سٹڈیز‘ کے تین شمارے نکال چکے ہیں اور اب یہ جریدہ ہائر ایجوکیشن کمیشن سے جلد منظوری حاصل کرلے گا۔ سابق ڈین فیکلٹی آف لاء پروفیسر ڈاکٹر آفتاب گیلانی نے مزید بتایا کہ ہم صرف ’مطالعہ پاکستان مضمون‘ ہی نہیں پڑھارہے بلکہ طلبہ و طالبات کو پاکستان سے محبت اوران میں ’پاکستانیت‘ پیدا کررہے ہیں۔ بچوں کواپنی تاریخ کی روشنی میں وطن سے محبت سکھائی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے ڈیپارٹمنٹ آف لاء ہوا کرتا تھا مگر موجودہ وائس چانسلر کی قیادت میں انہوں نے ایک اور شعبہ ’شریعت اینڈ لاء‘ قائم کیا ہے۔ ایل ایل بی کے بعد ایل ایل ایم اور اب تو پی ایچ ڈی پروگرام بھی جاری ہوچکا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ رحیم یار خان کیمپس اور بہاولنگر کیمپس میں بھی ایل ایل بی پروگرام شروع کروا دیا گیا ہے تاکہ طلب و طالبات کو اُن کی دہلیز پر قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے سہولیات میسر کی جاسکے۔ فیکلٹی کے حوالے سے کہنے لگے کہ جب انہوں نے بطور چیئرمین ذمہ داریاں سنبھالیں تو صرف دو فیکلٹی ممبر تھے اور اب بارہ فیکلٹی ممبران ہیں جن میں آٹھ پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز ہیں۔ اسی طرح لاء کے شعبہ میں اب سات لیکچررز اور چار اسسٹنٹ پروفیسر ز خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر آفتاب گیلانی نے شعبہ مطالعہ پاکستان اور شعبہ قانون کی تعمیر و ترقی کا سارا کریڈیٹ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کو دیتے ہوئے کہا کہ دیگر شعبہ جات کی طرح فیکلٹی آف لاء میں واضح اور منظم بہتری کا سہرہ وائس چانسلر کے سر سجتا ہے کیونکہ یہ ویثرن صرف کسی دلیر اور بہادر وائس چانسلر کا ہی ہوسکتا ہے اور یہ تمام خوبیاں پروفیسر اطہر محبوب میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر جام سجاد حسین کی کتاب "اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور (ترجمان ماضی شان حال)" سے لیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا کتاب ڈائرکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز کے پلیٹ فارم سے چھپنے کے آخری مراحل میں ہے۔
16/06/2023
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور عالمی منظرنامے پر
پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد بزدار کمال شخصیت کے حامل استاد ہیں۔وہ بطور لیکچرر فزکس ڈیپارٹمنٹ میں 2000میں تعینات ہوئے، اس دوران 2008میں پی ایچ ڈی کی اور اِرسپ (انٹرنیشنل ریسرچ سپورٹ انیشیٹیو پروگرام) کے تحت یونیورسٹی کالج لندن چلے گئے اور 2012میں پھر پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنے یونیورسٹی کالج لندن گئے۔ 2010سے 2013تک یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ کے ممبر رہے، 2014سے 2022مئی تک یونیورسٹی کے کیو ای سی کے ڈائریکٹر رہے اور جامعہ کی عالمی درجہ بندے کے حوالے سے لاجواب خدمات سرانجام دیں۔2018میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین بنے اور ڈیپارٹمنٹ کو انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل کرایا اور ابھی اس کے پہلے ڈائریکٹر اور ڈین تعینات ہوئے ہیں۔ دوران گفت گو کہنے لگے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پچھلے سالوں میں مسلسل بڑھی ہے۔ تعدادمیں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ معیاری تعلیم کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ پچھلے تین سالوں میں وقوع پذیر ہونے والے اقدامات کو بلاشبہ انقلابی اقدام کہا جاسکتا ہے۔ جو پچھلے چالیس سالوں سے زیادہ ہے۔ اب یونیورسٹی اپنی صلاحیت کے حساب سے چل رہی ہے جس طرح اکیڈمک پروگرام اور فیکلٹی میں بڑھوتری آئی ہے۔ پہلی بار وائس چانسلر انجینئر ڈاکٹر اطہر محبوب کی قیادت میں ہم نے عالمی رینکنگ میں شمولیت اختیار کی۔ گرین میٹرک میں اپلائی کیا تھا اور اب 200فی صد بہتری آئی ہے۔ ریسرچ پروجیکٹس، گرانٹس میں واضح اضافہ ہواہے، اب اچھی فیکلٹی آئی ہے، میرٹ پر لوگ بھرتی ہوئے ہیں، پہلے سے کئی گنازیادہ کام بڑھا ہے۔ماضی کو دہراتے ہوئے کہنے لگے وہ جب فزکس ڈیپارٹمنٹ میں آئے تھے تو کل گیارہ لوگ تھے اور اب چالیس لوگ ہیں، ہمارا انسٹی ٹیوٹ بہتر پرفارم کررہا ہے، فزکس ڈیپارٹمنٹ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں معاشرتی سائنسی ترقی میں نمایاں کردار ادا کررہا ہے۔ مثلاََ شعبہ فزکس کے بچوں کو عملی مہارتیں سکھائی جاتی ہیں، شعبہ فزکس وہ شعبہ ہے جس نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے آغاز سے ہی کام کرنا شروع کیا۔ اس کی ایلومینائی نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ شعبہ 1975سے کام کررہا ہے۔ شروع میں اس شعبہ میں صرف ایم ایس سی کی کلاسیں ہوتی تھیں،بعد ازاں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرامز کا اجراء ہوا۔
ڈاکٹر سعید احمد بزدار سے قبل گیارہ چیئرمین ڈیپارٹمنٹس تعینات رہے، سعید احمد بزدار نے اس دوران ایک پروپوزل دیا کہ شعبہ فزکس بڑھ رہا ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے موجودہ حالات کے تقاضوں کے مطابق اسے انسٹی ٹیوٹ کی شکل دی جائے۔ یوں وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر اطہر محبوب نے پی سی ون کی منظوری دیتے ہوئے اسے انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل کردیا۔پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد بزدار اس انسٹی ٹیوٹ کے پہلے ڈائریکٹر تعینات ہوئے۔ حال ہی میں پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد بزدار کو بطور ڈین فیکلٹی آف فزکس کا ڈین تعینات کیا گیا ہے۔ اُن کے دفتر میں تفصیلی نشست ہوئی جس میں جامعہ اسلامیہ کے سفر، قومی و بین الاقوامی درجہ بندی، سابق اور موجودہ وائس چانسلر کی قیادت میں یونیورسٹی کاسفر اور دیگر چیزیں زیر ِ بحث آئی، کامل سچائی تو یہی ہے کہ یہ سارا مضمون پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد بزدار کے اپنے الفاظ سے میزن ہے جو مختلف حصوں میں کچھ آن لائن ویب سائٹس پر دستیاب ہے۔راقم الحروف نے ابتدائیہ کے اضافہ کے ساتھ ساتھ کچھ چیزوں کی نوک پلک سنواری ہے وگرنہ خوبصورت خیالات کے اظہار کیلئے الفاظ کا چناؤ بھی بزدار صاحب نے خود کیاہے جو ایک قابل ِ تعریف عمل ہے۔دوران ِ گفت گو کہنے لگے 14 اکتوبر 1882 کو جب برطانوی حکومت کا شملہ میں اجلاس ہوا تو ہندوستان کی چوتھی یونیورسٹی کی منظوری دی گئی، جس کا نام پنجاب یونیورسٹی رکھا گیا، اس سے قبل کلکتہ، مدراس اور ممبئی میں تین جامعات کام کر رہی تھیں، پنجاب یونیورسٹی، لاہور،نے جلد ہی معیاری تعلیم و تحقیق کی طرف سفر شروع کیا۔
جس میں پروفیسر اے سی وولنر کا بہت کردار رہا، جو کہ تقریباً 8 سال تک (1928 سے 1936) یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے (آج بھی پنجاب یونیورسٹی کے علامہ اقبال کیمپس کے باہر ان کا مجسمہ نصب ہے)۔ 1947 کو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والی واحد یونیورسٹی پنجاب یونیورسٹی ہی تھی۔ تقسیم ہند کے ساتھ ہی کئی قابل غیر مسلم اساتذہ پنجاب یونیورسٹی کو چھوڑ کربھارت چلے گئے جس کے نتیجے میں تعلیم کے معیار پہ بھی کافی فرق پڑا مگر بہت سے اچھے سکالرز کی موجودگی سے ادارے نے ایک بار پھر اپنے نئے سفر کا آغاز کیا اور اس میں بہت بڑا کردار پاکستان بننے کے بعد جامعہ کے پہلے وائس چانسلر پروفیسر عمر حیات کامانا جاتا ہے۔ اگرچہ آج ہماری بہت سی یونیورسٹیز ایسی ہیں جو قیام پاکستان سے پہلے موجود تو تھیں مگر تب وہ کالج کے طور پر کام کر رہی تھیں۔اِن اداروں میں اسلامیہ کالج پشاور، گورنمنٹ کالج لاہور، گورنمنٹ کالج ملتان، این ای ڈی کراچی، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، گورنمنٹ کالج فیصل آباد، ایف سی کالج لاہور، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور، لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کراچی، یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد، اور این سی اے لاہور شامل ہیں۔ جب 2002 میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی حیثیت دی گئی تو تب ملک میں جامعات ایک سو کے لگ بھگ تھیں مگر تب سے اب تک، یعنی پچھلے 17 سالوں میں جامعات کی مجموعی تعداد دوسو سے اوپر پہنچ چکی ہے۔ سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں 70، سندھ میں 57، خیبر پختونخوا میں 41، بلوچستان میں 8، اسلام آباد 21، آزاد جموں و کشمیر میں 7، جبکہ گلگت بلتستان میں 2 یونیورسٹیاں ہیں، اعلیٰ تعلیم کے ادارے تین مختلف کیٹیگریز پبلک، پرائیویٹ اور ملٹری میں تقسیم ہیں۔
مسلح افواج کے زیر نگرانی 4 ادارے ہیں، جن میں پاکستان ملٹری اکیڈمی ایبٹ آباد، پاکستان ایئر فورس اکیڈمی رسالپور، پاکستان نیول اکیڈمی کراچی اور ایک جنرل یونیورسٹی، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد شامل ہیں۔ ملک میں پرائیویٹ یونیورسٹیز کی تعداد 65 سے اوپر ہے، پاکستان میں تقریباً 16 ویمن یونیورسٹیز ہیں جو کہ کوئٹہ، پشاور، کراچی، لاہور، مردان، صوابی، باغ آزاد کشمیر، ملتان، بہاولپور، سیالکوٹ، فیصل آباد، راولپنڈی، نوابشاہ، اور سکھر میں امتیازی طور پر خواتین کے لئے بنائی گئی ہیں۔ پاکستان کی آبادی، بالخصوص نوجوانوں کی آبادی کے حساب سے موجودہ تعداد بھی تقاضوں سے کہیں کم ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے کچھ جامعات نے اپنے قریبی شہروں میں کیمپس کھول کر کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی۔ ملک میں جامعات کے قریبا 130کیمپس ہیں، جبکہ چار پرائیویٹ یونیورسٹیز کے ملک سے باہر بھی کیمپس ہیں، جن میں آغا خان یونیورسٹی کا لندن، سرحد یونیورسٹی اور زیبسٹ کے متحدہ عرب عمارات، اور گرینچ یونیورسٹی کا ماریشئس کیمپس شامل ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ دنیا بھر میں بہت پہلے سے اہم تھامگر دورِ حاضر میں اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہواہے۔گلوبلائزیشن،انٹرنیشنلائزیشن اورانٹرنیشنل ایجوکیشن انڈسٹری جیسی اصطلاحات عام ہو گئی ہیں۔ جدید دور کے تقاضے پورے کرنے کے لئے اداروں کو جدید لیبارٹریز، اچھی اور متعلقہ کتابوں سے آراستہ لائبریریاں، پر کشش تنخواہوں پر سٹاف اور اچھی و پر کشش عمارت پر بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کرنی ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں طلبا اور والدین کو نسبتاً مہنگی فیسیں دینی پڑتی ہیں۔
اس وجہ سے اب طلبا اور والدین اس تناظر میں سوچتے اور فیصلے لیتے ہیں کہ کون سی یونیورسٹی، ادارہ، یا ڈیپارٹمنٹ ان کے پیسے کا صحیح نعم البدل ہے۔ اس تبدیل ہوتے تناظر میں، کوالٹی اشورنس، رینکنگ، آؤٹ کم بیسڈ ایجوکیشن، ایکریڈیٹیشن، جدید تعلیمی نظم، جدید امتحانی طریقہ کار اور اس طرح کی دیگر اصطلاحات زبان زد عام ہو گئی ہیں۔ عوام اب بہت ساری چیزیں دیکھ کر اور اداروں کا تقابلی جائزہ لے کر بچوں کی لئے فیصلہ لیتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے بھی جامعات کی رینکنگ کا آغاز 2010 میں کیا تھا اور اس کے بعد 2015، 2014، 2013 میں تسلسل سے یہ عمل جاری رہا۔ اس پریکٹس سے جامعات نے بھی اپنے تعلیمی اور انتظامی امور کو نئے سرے سے دیکھنا شروع کیا۔ ریکارڈ اور اعداد و شمار کو اکٹھا کیا کیونکہ یہ سب کچھ رینکنگ میں حصہ لینے کے لئے ضروری تھا۔ یہ ریکارڈ اور ڈیٹا یونیوسٹی کے لیے خود بھی کافی کار آمد رہا ہے، دوسری طرف رینکنگ کے نتائج سے بھی ادارے کے اچھے اور کمزور پہلو سامنے آتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے رینکنگ کے لئے جامعات کو ان کی اسپیشلائزیشن کے حساب سے الگ الگ رکھا اور چھ گروپس جن میں جنرل، انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، بزنس ایجوکیشن، ایگریکلچر اینڈ ویٹرنری، میڈیکل، آرٹس اینڈ ڈیزائن شامل تھے، بنائے گئے، جن عناصر کی بنیاد پر درجہ بندی اور اسکورنگ کی گئی، وہ کوالٹی اشورنس، تعلیمی معیار، تحقیق، سہولیات، سماجی ہم آہنگی، اور فنانس تھے، دنیا بھر میں رینکنگ کرنے والی تنظیموں اور ایجنسیوں کے طریقہ کار الگ الگ ہی رہے ہیں اور ان میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہی ہیں، پاکستان کی کچھ جامعات نے پچھلے چند سالوں سے بین الاقوامی رینکنگ میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے اور اس کے نتائج بھی مثبت رہے ہیں۔
ہماری کچھ جامعات دنیا کی ٹاپ 500 اور کچھ 1000 میں شامل ہوچکی ہیں جو کہ خوش آئند عمل ہے، اس وقت دنیا میں کافی ایجنسیزاور تنظیمیں اعلیٰ تعلیم کے اداروں کی رینکنگ کے لیے ہر سال ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں اور پھر نتائج شائع کرتے ہیں، ان میں قابل ذکر نام یہ ہیں: یو۔ ایس نیوز، سنٹر فار ہائر ایجوکیشن جرمنی، اکیڈمک رینکنگ آف ورلڈ یونیورسٹیز چائنا، کیو۔ ایس رینکنگ برطانیہ، مائنز فرانس، سائمیگو سپین، ہائی امپیکٹ پرفارمنس یونیورسٹیز آسٹریلیا، یو۔ آئی گرین میٹرک انڈونیشیا، ٹائمز ہائر ایجوکیشن برطانیہ، اور کچھ دیگر، اگر دیکھا جائے تو جامعات کو جانچنے کا پیمانہ، طریقہ کار، اور کیلنڈر الگ الگ ہے۔ مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ 15 سے 20 یونیورسٹیز ہیں جو ہمیشہ سرفہرست ہی رہتی ہیں۔ اگرچہ ان کی پوزیشن میں تھوڑا بہت رد و بدل رہتا ہے، مثلاََ پہلے دس نمبر پر امریکا اور برطانیہ کی یونیورسٹیز ہی قابض ہیں، کیو ایس رینکنگ میں پچھلے کچھ سالوں سے سویٹزرلینڈ کی ای ٹی ایچ زیورخ پہلی دس یونیورسٹیز میں شامل ہوئی ہے، انٹرنیشنل رینکنگ میں زیادہ تر جن عناصر کی بنیاد پہ اسکورنگ ہوتی ہے ان میں کوالٹی ٹیچنگ، تحقیق، اساتذہ و طلبا کا تناسب، ریسرچ پبلیکیشنز، یونیورسٹی کی شہرت (ریپوٹیشن)، اساتذہ کی کوالیفیکیشن، بین الاقوامی طلبا و اساتذہ، تحقیق کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی، انڈسٹری کے ساتھ لنک اور اس کے نتیجے میں آنے والی آمدنی شامل ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن (وفاقی اور صوبائی دونوں) کمزوریوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں، روڈ میپ بنا سکتے ہیں، لیکن وہ زیادہ تر حکومتی پالیسیوں، ترجیحات اور سر پرستی پر انحصار کریں گے۔
اداروں کے اچھے، قابل، اور محنتی سربراہ، اچھے اقدامات، اور پھر ان میں تسلسل، اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا نظام جس میں میرٹ، انصاف اور شفافیت ہو، اور بہترین گورننس ہو، بلاشرکتِ غیرے یہ کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان کی جامعات میں مکمل صلاحیت ہے کہ وہ بھی ایک دن دنیا کی اعلیٰ جامعات کی صف میں نظر آئیں، اس کے لیے ہمیں دنیا کی ٹاپ یونیورسٹیز سے سیکھنا ہو گا، ہمیں خبر ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں،اس لئے ہمیں باقائدہ منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے کیا حاصل کرنا ہے، ہم طالب علموں کی تعداد تو بڑھا سکتے ہیں، مگر ان کے استعداد کے بارے کیا منصوبے ہیں؟ ہم ڈگریاں تو دے سکتے ہیں مگر ان کی قدر کتنی بڑھے گی؟ خود احتسابی (سیلف اسیسمنٹ)، ایک واضح اور قابل عمل منصوبہ بندی، شارٹ ٹرم بھی اور لانگ ٹرم بھی، اور رینکنگ کی فکر سے بے نیاز ہو کر، صرف اور صرف صحیح معنوں والا ”اعلیٰ“ تعلیم، اور اتنے ہی اعلیٰ معیار کی تحقیق، وہ تحقیق جو صرف ہمارے پروموشن کے لیے، یا ہمارے سی وی کے لیے نہ ہو، بلکہ ہمارے لیے، ہمارے معاشرے کے لئے، اور دنیا کے لئے فائدہ مند ہو، مسائل کا حل نکالنے والی تحقیق، خیر بانٹنے والی سائنسی تحقیق، انسانیت دوست معاشرہ تخلیق کرنے والا علم، لوگوں کو سکھ دینے والا ہنر۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورگزشتہ نصف صدی سے پاکستان اور پاکستان سے باہر مختلف اداروں میں انسانی وسائل مہیا کرتی آ رہی ہے جن کا تعلق وسیع مہارت و شعبوں سے ہے۔ اس عظیم درس گاہ کی تاریخ کے بارے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جس کو بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس ادارے نے پچھلی کئی دہائیوں سے تسلسل سے اپنی مہارت، دائرہ کار، تدریسی اور انتظامی نظام میں اضافہ کیا ہے اور اس میں اس ادارے سے براہ راست جڑے ہوے افراد (اساتذہ، طلبا، انتظامیہ) کے ساتھ ساتھ بہاولپور کی عوام اور سول سوسائیٹی کا بھی کردار رہا ہے۔
اعلیٰ تعلیم کا شعبہ دنیا بھر میں بہت پہلے سے اہم تھا اور آج کے دور میں اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے گزشتہ چند سالوں میں ٹیکنالوجی دنیا بھر کے معاملات میں واضح طور پر حاوی رہی ہے اور اس نئے چیلنج نے ایک مثبت تقابلی فضا ء بھی پیدا کی ہے۔ ویسے تو تقدیر کے قاضی کا ازل سے فتویٰ رہا ہے کہ جو افراد، اقوام، معاشرے،اور ادارے بدلتے تقاضوں کا ادراک نہیں کرتے اور دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر نہیں پڑھ سکتے زمانہ ان کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے بھی وقت کے بدلتے تقاضوں کابروقت ادراک کیا اورخاص طور پر پچھلے تین سالوں میں روایتی انداز سے ہٹ کے نئے زاویوں سے نہ صرف سوچا بلکہ ان نئے راستوں پر سفر کا بھی آغاز کیا، ٹیکنالوجی، آٹومیشن، ڈیٹا سائنسز، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کمیونیکیشنز، لرننگ مینیجمنٹ سسٹم، انتظامی جدت، اچھی تعلیم، موئثر تحقیق اور اس طرح کی دیگر تمام جہتوں پر اس یونیورسٹی نے پاکستان کی دیگر اس نوع کے اداروں کے لیے ایک رول ماڈل کا کام کیا ہے۔ایک طرف تو یونیورسٹی کے حجم میں بے حد اضافہ ہوا جس میں اساتذہ، طلبا، ملازمین، شعبہ جات، فیکلٹیز، کیمپسز کی تعداد بہت زیادہ بڑھی۔ اگر اس کو گزشتہ سال کے عالمی کرونا بحران کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک بہت بڑا اوربا کمال عمل تھا کہ جہاں دنیا بھر کے ادارے، ڈاؤن سائزنگ کا سامنا کر رہے تھے یہ ادارہ پھلتا پھولتا جا رہا تھا۔
دوسری طرف یہ ادارہ اپنی تاریخ میں پہلی بار عالمی افق پر نمودار ہونے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ 2019 میں پہلی بارعالمی درجہ بندی میں حصہ لینے کے لئے ڈیٹا تیار کرنا شروع کیا۔ عالمی درجہ بندی ایک مشکل اور جرات مندانہ کام ہے مگر یونیورسٹی کے اس ارادے کے پس پردہ وہ تمام منصوبے اور عمل شامل تھے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ مثبت قائدانہ فیصلے، جدت اور حقائق کی بنیاد پہ کی گئی منصوبہ بندی اس اعتماد کا باعث رہے اور رہیں گے جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر کی یونیورسٹی ملک کی ان چند یونیورسٹیوں میں شامل ہو گئی جو رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو تجزیے کے لیئے پیش کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر پاکستان کی لگ بھگ 220 یونیورسٹیوں میں سے صرف اکہتر یونیورسٹیز 2020کے ٹائمز ھائر ایجوکیشن میں نظر آئیں۔یہ اس تعلیمی ادارے کا ایک نیا سفر تھا اور کامیابی سے take off کیا۔ جب کسی خاص رینکنگ ایجنسی کی درجہ بندی میں حصہ لینے اور ڈیٹا بھیجنے کے لیے رجسٹریشن کی جاتی ہے بظاہرتو وہ صرف ایک رینکنگ ایجنسی میں حصہ لیا جاتا ہے مگراصل میں اس کے کئی اجزا ہوتے ہیں اور ان سب کا الگ الگ تجزیاتی طریقہ کار ہوتا ہے اور وہ سب مل کر ادارے کی تمام معاملات کو اچھی طرح سے جانچنے کا کام کرتے ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے اب تک جن عالمی درجہ بندیوں میں حصہ لیایا ڈیٹا بھیجنے کے لئے رجسٹریشن کرلی، وہ درج ذیل دی گئی ہے:۔
• ٹائمز ھائر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکینگ 2020
• ٹائمز ھائر ایجوکیشن سبجیکٹ رینکنگ 2020
• ٹائمز ھائر ایجوکیشن ینگ یونیورسٹی رینکنگ 2020
• ٹائمز ھائر ایجوکیشن امپیکٹ رینکنگ 2020
• ٹائمز ھائر ایجوکیشن ایشیا رینکنگ 2020
• ٹائمز ھائر ایجوکیشن ایمرجنگ اکانومی رینکنگ 2020
• یونیورسٹی انڈونیشیا گرین میٹرک رینکنگ 2020
• ٹائمز ھائر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکینگ 2021
• ٹائمز ھائر ایجوکیشن سبجیکٹ رینکنگ 2021
• ٹائمز ھائر ایجوکیشن ینگ یونیورسٹی رینکنگ 2021
• ٹائمز ھائر ایجوکیشن امپیکٹ رینکنگ 2021
• کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکینگ 2021
• یونیورسٹی انڈونیشیا گرین میٹرک رینکنگ 2021
انٹرنیشنل رینکنگز میں زیادہ تر جن عناصر کی بنیاد پہ سکورنگ ہوتی ہے ان میں کوالٹی ٹیچنگ، تحقیق، اساتذہ و طلبا کا تناسب، ریسرچ پبلیکیشنز، یونیورسٹی کی شہرت (ریپیوٹیشن)، اساتذہ کی کوالیفیکیشن، بین الاقوامی طلبا و اساتذہ، تحقیق کے ذریعے حاصل ہونیوالی آمدنء، انڈسٹری کے ساتھ لنک اور اس کے نتیجے میں آنیوالی آمدنی شامل ہیں، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ان تمام عناصرسے آ گاہ تھی اور اسی وجہ سے ٹائمز ھائر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکینگ 2020میں حصہ لیا اس درجہ بندی میں دنیا بھر کے 29 ممالک کی تقریباََ 1400یونیورسٹیوں نے حصہ لیا۔ جن میں پاکستان کی صرف 71 جامعات تھی اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور دسویں نمبر پر رہی۔ سبجیکٹ رینکنگ میں سب سے بہتر کارکردگی انجینئرنگ، لائف سائینسز، اور فزیکل سائینسز میں نظر آئی جہاں یونیورسٹی دنیا کے ٹاپ600میں شامل ہو گئی۔
ایشیاء رینکنگ اور ایمرجنگ اکانومی کی درجہ بندی میں،2020 کی پہلی شرکت میں 1005ور دوسری بار2021میں ٹاپ 400 میں اسلامیہ یونیورسٹی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی۔ اسی طرح یونیورسٹی انڈونیشیا گرین میٹرک رینکنگ میں 2020 میں پہلی بار شرکت کی اور ۶۳۷ نمبر پر دنیا بھر میں جبکہ پاکستانی یونیوسرٹیز میں نمایاں مقام حاصل کر کے کئی نامور اداروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ 2021کی رینکنگ کے لیے ایک بار پھر یونیورسٹی نے اپنا ڈیٹا جمع کروا دیا ہے اور یقین ہے کہ اس بار اس رینکنگ میں مزید نمایاں بہتری آئیگی کیونکہ یونیورسٹی کا سولر سسٹم چل چکا ہے۔ گرین کیمپس ڈائیریکٹریٹوریٹ کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے اوراس کے علاوہ بھی یہ یونیورسٹی ماحولیاتی عوامل کے حوالے سے نہایت شاندار قسم کے اقدام کر چکی ہے اور مسلسل مزید کر رہی ہے۔ اس سے جڑا ہوا ٹائمز ھائر ایجوکیشن امپیکٹ رینکنگ ہے، جو اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف پر مبنی ہے۔ اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے 2020 میں شاندار کارکردگی دکھائی ہے، ہدف '' بھوک کے خاتمے'' میں دنیا بھر میں 101 نمبر پر، جبکہ ''غربت کے خاتمے'' میں 102 نمبر پر رہی۔ اسلامیہ یونیورسٹی پاکستان کی ان9 یونیورسٹیز میں شامل ہے جنہوں نے تمام اہداف پہ کام کیاہے۔ ینگ یونیورسٹی رینکنگ، ایمرجنگ یونیورسٹی رینکنگ، اور ایشیا رینکنگ میں بھی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور چوٹی کے 400عالمی اداروں میں شامل ہو چکی ہے۔ اب تک کے جن جن درجہ بندیوں میں دوسری بار حصہ لیا تو پوزیشن پہلی بار سے نمایاں طور پر بہتر رہی ہے اور یقین کامل ہے کہ اگلے چند سال اس درس گاہ کی عظمت کی گواہی دیں گے۔ یہ عالمی درجہ بندی کے حوالے سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا ایک مختصر سا جائزہ ہے۔
اس عظیم درسگاہ کی ایک نئے جہت کی طرف گامزن ہونے کی اور یاد رہے کہ پچھلے تین سالوں میں کئے گئے انقلابی اقدامات کا بڑی حد تک اثر آنے والے سالوں کی درجہ بندی میں نظر آئے گی۔ اب تک کا یہ مختصر سفر، اور اس کے اثرات یہی اشارے دے رہے ہیں کہ بہت کم وقت میں اسلامیہ یونیورسٹی پاکستان میں ایک رول ماڈل ادارے کے طور پر اپنے آپ کو منوا لے گی اور عالمی سطح پہ بھی پاکستان اور پاکستان میں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کی پہچان بنے گی۔پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد بزدار گویا ہوئے کہ صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو چونکہ یونیورسٹی کا مقصد اعلیٰ تعلیم اور تحقیق ہے۔ اسی لیے اس سے جڑے لوگوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ یہ سکول اور کالج کی طرز پر کام نہیں کرتیں جہاں موجودہ علم طلبا کو منتقل کیا جاتا ہے جس کوعلم کی منتقلی (ٹرانسفر آف نالج) کہتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے اداروں نے نئی تحقیق کر کے، نئے علوم کو دریافت کرنا ہوتا ہے، صنعتوں کو موثر ٹیکنالوجی سے مستفید کرنا ہوتا ہے، سماج کے مسائل کا ادراک کرنا اور ان کے قابل عمل حل تلاش کرنا ہوتا ہے، معاشی، معاشرتی، دینی، سائنسی، سماجی، غرض کہ ہر طرح کے علوم کے لیے ماہرین تیار کرنا، اور ان علوم کو صحیح معنوں میں انسانیت کے لئے مفید بنانے کے لئے مددگار نظام بنانا اور اس کو چلانا، یہ سب اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے وجود کا جواز ہے۔ بظاہر تمام اداروں کے ویژن اور مشن سٹیٹمنٹ (vision and mission statements) بہت ہی خوبصورت اور پر کشش قسم کے ہیں۔
مگر کسی بھی ادارے کی کارکردگی بہر حال ان سے نہیں جھلکتی کیونکہ اکثر اوقات اسی ادارے کے لوگ بھی ان سے آگاہی نہیں رکھتے۔ اداروں کی پہچان یا شہرت، وہاں کی فیکلٹی، طلبا، تعلیم، تحقیق، ایلومینائی، مقالہ جات، عملی مباحثے، سیمینارز، کانفرنسز، ورکشاپس، سول سوسائٹی کا اعتماد، اور سب سے بڑھ کر ایک اچھی قیادت اور موثر گورننس سے ہوتی ہے۔متذکرہ تمام پہلو اپنی جگہ پر بہت اہم ہیں اور ان سب پر الگ الگ ایک مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ مگر میرے خیال میں گورننس کا اثر ان سب پر پڑتا ہے۔ اس لیے اس کی اہمیت بھی اتنی ہی زیادہ ہے، ایک یونیورسٹی میں بورڈ آف سٹڈیز، بورڈ آف فیکلٹیز، اکیڈمک کونسل، بورڈ آف ایڈوانس سٹڈیز اینڈ ریسرچ، فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی، سلیکشن بورڈ، سینڈیکیٹ، اور سینیٹ مل کے نظم و نسق، پالیسی سازی، اور دیگر اہم امور کے فیصلے کرتے ہیں۔ جن میں اساتذہ و افسران کی تقرری و ترقی، بجٹ سازی، ایم فل، پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالوں کی منظوری کے علاوہ بہت سے اور اہم معاملات شامل ہیں۔ یہ سب با ڈیز اپنے ان اختیارات کے اندر رہ کے کام کرنے کا پابند ہوتے ہیں جو صوبائی یا قومی اسمبلی نے ان کو دیے ہوتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد بزدار مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ وہ ان تمام ناموں کو انگریزی میں لکھنے کے لئے دل سے معذرت خواہ ہیں کیونکہ ان کا اردو ترجمہ اور بھی زیادہ مشکل محسوس ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر فیکلٹی کو کلیہ، اکیڈمک کونسل کو مجلس علمی، سلیکشن بورڈ کو مجلس انتخابات، بورڈ آف سٹڈیز کو مجلس نصابات، ڈین کو صدر کلیہ، ایسوسی ایٹ پروفیسر کو شریک پروفیسر، اور اسسٹنٹ پروفیسر کو معاون پروفیسر لکھا اور بولا جاتا ہے اور ہم سب عموماً اًن سے فہم نہیں رکھتے۔
(بہرحال) چائے کا سِپ لیتے ہوئے کہنے لگے یونیورسٹیز اگر وقت کی رفتار کو نہ سمجھ سکیں اور اپنے آپ کو موجودہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اگر ہم آہنگ نہ ہوں تو پھر ان کی کارکردگی اور شہرت پر بھی فرق پڑتا ہے اور وہ اپنے اصل مقصد سے بھی دور ہو جاتی ہیں بلکہ آج کل کے معاشی مشکلات کے دور میں یونیورسٹی کا مالی طور پر مستحکم ہونا بھی اس کی اچھی کارکردگی سے جڑا ہوا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور کی پہچان بننے والے عناصر میں سے ایک ہے۔ اگرچہ یہ ادارہ سو سال سے زیادہ عرصہ ایک تعلیمی ادارے کے طور پر موجود رہا ہے اور یہاں کے لوگوں کو علم و ہنر میں بھر پور مدد کرتا رہا ہے مگر اس کو یونیورسٹی کا چارٹر1975میں ملا۔ پچھلے پینتالیس سالوں سے اس ادارے کے ارتقاء میں تسلسل تو رہا ہے مگر اس کی رفتار متاثر کن نہیں تھی۔ پاکستان کی جامعات کے گورننس سسٹم میں عام طور پر یکسانیت نہیں ہے لیکن اگر کچھ ادارے بالکل ایک جیسے ایکٹ کے دائرے میں بھی ہیں پھر بھی ان کی کارکردگی مختلف ہوتی ہے اور اس کی بڑی وجہ لیڈرز (وائس چانسلرز) کے تجربے، مہارت، نیت، اور ویژن میں فرق ہے۔اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بھی باقی جامعات کی طرح چار سال کے لئے سربراہ تعینات ہوتے ہیں، پچھلے پینتالیس سالوں میں اچھے اچھے اکیڈمک لیڈرز آتے رہے اور ادارے کو آگے کی طرف بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ اسی سمت میں یونیورسٹی نے آگے جانے کے لیے حال ہی میں نہ صرف تسلسل کو برقرار رکھا بلکہ اس بار بہت سے انقلابی اقدامات ایک ساتھ کیے گئے جو کہ یونیورسٹی کے ایک اچھا مستقبل کی بنیاد بننے جا رہے ہیں۔ ایک طرف تو کورونا کی وجہ سے جو اچانک سے چیلنج سامنے آیا، یونیوسٹی نے بھر پور طریقے سے اس سے نمٹنے کے اقدامات کیے، اگرچہ پہلے سے طے کیا گیا تھا کہ ادارہ ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے اپنے تعلیم اور انتظامی معاملات میں جدت لائے گا۔
مگر اس اچانک سے آنے والے مسئلے کی وجہ سے وہ سب کچھ زیادہ مستعدی سے کرنا پڑا اور یونیورسٹی اس میں کامیاب بھی ہو گئی، نہ صرف طلبا ء کا وقت بچانے کے لئے ان کی کلاسز منعقد ہوئیں بلکہ امتحانات کا بھی مناسب بندوبست کیا گیا اور شیڈول جاری کر دیا گیا۔ سب سے زیادہ اہم چیز نئے شعبہ جات، نئی فیکلٹیز، نئے سکول اور انسٹیٹیوٹ کا قیام ہے۔ یہ سب صرف اس صورت میں ممکن تھا اور ہے جب تمام انتظامی اکائیاں ہم آہنگ ہوں۔ ان کے اجلاس میں نہ صرف تسلسل ہو بلکہ ایک خاص قسم کی منصوبہ بندی اور ترتیب ہو، ظاہر ہے موثر گورننس کا سہرا سربراہ ادارہ کو ہی جاتا ہے۔ اسی لیے بلا شبہ انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب، وائس چانسلر کو اس جدت کا کریڈٹ جاتا ہے کہ ادارے میں ایسے پروگرامز، ڈیپارٹمنٹس، اور فیکلٹیز کا قیام عمل میں لایا گیا جو کہ آج کے دور کا تقاضا تھا، ان کے ساتھ ساتھ، تمام ڈینز، اور شعبہ جات کے سربراہان اور اساتذہ کرام جنہوں نے اپنے دائرہ کار میں ان جدید پروگرامز کی بنیادیں رکھیں ۔ ان کے سلیبس بنائے اور بورڈز و کونسلز میں ان کو پیش کیا، دفاع کیا، اور پھر منظور کروایا، وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کی بھرپور لیڈرشپ اور معاونت سے اکیڈمک کونسل یعنی مجلس علمی نے نہ صرف فیکلٹیز کی تعداد 6 سے بڑھا کر 31 کی بلکہ ان کی کمپوزیشن کو بھی درست کر دیا اور ہر شعبہ اب متعلقہ فیکلٹی کا حصہ ہے اور بھرپور انداز میں کام کررہا ہے۔ یونیورسٹی کی لیڈرشپ کو صحیح معنوں میں ادراک ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی کو ملکی اور عالمی سطح پرایک ممتاز مقام دلانے کی لئے اس طرح کی اصلاحات کی بہت ضرورت ہے۔
فیکلٹی آف آرٹس میں انگلش لٹریچر، انگلش لینگوئسٹکس اور فلسفے کے نئے شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں اور یونیورسٹی کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن میں شعبوں کی تعداد سات ہو گئی ہے، فیکلٹی آف سوشل سائنسز میں انتھروپولوجی اور پبلک ایڈمنسٹریشن کے نئے شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں جنہیں بتدریج مکمل شعبہ جات کی حیثیت دے دی جائے گی، فیکلٹی آف ایجوکیشن میں پرائمری چائلڈ ہڈ ایجوکیشن، سپیشل ایجوکیشن، ایجوکیشن پلاننگ اینڈ مینجمنٹ، ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ایویلیوایشن اور لینگوئج ایجوکیشن کے نئے شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں۔ فیکلٹی آف اسلامک لرننگ میں ٹرانسلیشن سٹڈیز کا شعبہ قائم کیا گیا ہے۔ فیکلٹی آف مینجمنٹ سائنسز اور کامرس میں اکاؤنٹنگ اینڈ فنانس کے شعبے کے ساتھ سکول آف بزنس مینجمنٹ اینڈ ایڈمنسٹریٹو سائنسز قائم کیا گیا ہے جو 9 شعبہ جات پر مشتمل ہوگاجن میں انٹرپرینورشپ، ٹورازم مینجمنٹ، پراجیکٹ اینڈ آپریشن مینجمنٹ، ٹیکنالوجی مینجمنٹ، اسلامک اینڈ کامرس بینکنگ اور ایڈمنسٹریٹو سائنسز جیسے نئے شعبہ جات شامل ہیں۔ فیکلٹی آف فارمیسی پانچ شعبہ جات مشتمل ہو گئی ہے، فیکلٹی آف سائنس میں انسٹی ٹیوٹ آف بائیو کیمسٹری، بائیو ٹیکنالوجی، بائیو انفارمیٹکس کے ساتھ ساتھ، فزکس ڈیپارٹمنٹ کو انسٹی ٹیوٹ آف فزکس سے اپگریڈ گیا ہے جو 11 شعبہ جات پر مشتمل ہوگا جن میں میڈیکل فزکس، سیمی کنڈکٹر اینڈ نینو ٹیکنالوجی، میٹیریل سائنس، سپیس سائنس، جیو فزکس، پارٹیکل فزکس اور رینیو ایبل انرجی کے نئے شعبے شامل ہیں۔ فیکلٹی آف انجینئرنگ میں مکینکل انجینئرنگ اور سنٹر فار رینیو ایبل انرجی سسٹم جیسے شعبہ جات کا اضافہ کیا گیا۔
فیکلٹی آف کمپیوٹنگ میں 6 شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں جن میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس، انفارمیشن سیکورٹی اور ڈیٹا سائنسز خاص طور پر قابل ذکر ہیں، فیکلٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز 13 شعبہ جات پر مشتمل ہوگی جبکہ فیکلٹی آف ایگریکلچر اینڈ اینوائرمنٹل سائنسز میں 9 شعبہ جات ہوں گے۔ فیکلٹی آف لاء میں لاء اور اسلامک اینڈ شریعہ لاء کے شعبے قائم ہوں گے، فیکلٹی آف میڈیسن اینڈ الائیڈ ہیلتھ سائنسز میں فزیکل تھراپی، یونیورسٹی کالج آف کنونشنل میڈیسن، پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کالج، سکول آف نرسنگ اور ہیومین ڈائٹ اور نیوٹریشن کے شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں۔ ان اقدامات کے علاوہ یونیورسٹی میں پچھلے سال سے طلبا کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اور ان نئے شعبہ جات کے آنے سے اس شرح میں اچھا خاصا اضافہ متوقع ہے۔ اور یونیوسٹی اب اپنے انفرا سٹرکچر کو اس طرح سے اپ گریڈ کر رہا ہے، جس کی جھلک فنانس اینڈ پلاننگ کی میٹنگ میں نظر آئی کہ ادارہ اپنے وسائل سے نئے اکیڈمک بلاک بنانے کے لیے بجٹ مخصوص کر چکا ہے، بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب جیسی متحرک قیادت کی صورت میں اسلامیہ یونیورسٹی نے کامیابیوں کا ایک نیا سفر شروع کیا ہے۔ اور اب تک کا ٹرینڈ اس کی تائید بھی کر رہا ہے کہ اگر اسی راہ پر چلتے رہے، تو یہ ادارہ بہت جلد ایک ممتاز حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گا:۔
تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے، ضمیر کن فکاں ہے زندگی
نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر جام سجاد حسین کی کتاب "اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور (ترجمان ماضی شان حال)" سے لیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا کتاب ڈائرکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز کے پلیٹ فارم سے چھپنے کے آخری مراحل میں ہے۔