Behlola Model School & College

Behlola Model School & College

Share

"Education,Discipline,Humanity."

Operating as usual

16/12/2022
19/08/2022

Behlola Model Girls college.
Admission open for FA/Fsc.

15/08/2022

BEHLOLA MODEL SCHOOL & COLLEGE REQUIRE THE FOLLOWING STAFF.
PHYSICS LECTURER (VISITING).
FEMALE TEACHER FOR SCHOOL

23/03/2022
23/03/2022
13/11/2021

kamal ki adakari

19/09/2021

GREAT DAY FOR BEHLOLA MODEL..
BY THE GRACE OF ALMIGHTY ALLAH YAMNA AYAZ GRABBED 8 TH POSITION IN SSC BISE PESH.
MARKS 1084

25/07/2021

کلاس 9th اور 11th کے طلبہ وطالبات کو اطلاع دی جاتی ہے کہ اپنا امتحانی رول نمبر سلپ کل 26جولائی کو دفتری اوقات میں اکاونٹ سیکشن سے حاصل کریں ۔

24/07/2020

ADMISSION OPEN.

FROM
NURSARY TO FA/FSC

19/07/2020

انگریز افسران، جنہوں نے ھندوستان میں ملازمت کی، جب واپس انگلینڈ جاتے تو انہیں وھاں پبلک پوسٹ/ ذمہ داری نہ دی جاتی۔ دلیل یہ تھی کہ تم نے ایک غلام قوم پر حکومت کی ھے جس سے تمہارے اطوار اور رویے میں فرق آیا ھوگا۔ یہاں اگر اس طرح کی کوئی ذمہ داری تمہیں دی جائے تو تم آزاد انگریز قوم کو بھی اسی طرح ڈیل کروگے۔
اس مختصر تعارف کے ساتھ درج ذیل واقعہ پڑھئے
ایک انگریز خاتون جس کا شوہر برطانوی دور میں پاک و ہند میں سول سروس کا آفیسر تھا۔ خاتون نے زندگی کے کئی سال ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گزارے۔ واپسی پر اپنی یاداشتوں پر مبنی بہت ہی خوبصورت کتاب لکھی۔
خاتون نے لکھا ہے کہ میرا شوہر جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا اُس وقت میرا بیٹا تقریبا چار سال کا اور بیٹی ایک سال کی تھی۔ ڈپٹی کمشنر کو ملنے والی کئی ایکڑ پر محیط رہائش گاہ میں ہم رہتے تھے۔ ڈی سی صاحب کے گھر اور خاندان کی خدمت گزاری پر کئی سو افراد معمور تھے۔ روز پارٹیاں ہوتیں، شکار کے پرواگرام بنتے ضلع کے بڑے بڑے زمین دار ہمیں اپنے ہاں مدعو کرنا باعث فخر جانتے، اور جس کے ہاں ہم چلے جاتے وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھتا۔ ہمارے ٹھاٹھ ایسے تھے کہ برطانیہ میں ملکہ اور شاھی خاندان کو بھی مشکل سے ہی میسر تھے۔
ٹرین کے سفر کے دوران نوابی ٹھاٹھ سے آراستہ ایک عالیشان ڈبہ ڈپٹی کمشنر صاحب کی فیملی کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔ جب ہم ٹرین میں سوار ہوتے تو سفید لباس میں ملبوس ڈرائیور ہمارے سامنے آخر دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا۔ اور سفر کے آغاز کی اجازت طلب کرتا۔ اجازت ملنے پر ہی ٹرین چلنا شروع ہوتی۔
ایک بار ایسا ہوا کہ ہم سفر کے لیے ٹرین میں بیٹھے تو روایت کے مطابق ڈرائیور نے حاضر ہو کر اجازت طلب کی۔ اس سے پہلے کہ میں بولتی میرا بیٹا بول اٹھا جس کا موڈ کسی وجہ سے خراب تھا۔ اُس نے ڈرائیور سے کہا کہ ٹرین نہیں چلانی۔ ڈرائیور نے حکم بجا لاتے ہوئے کہا کہ جو حکم چھوٹے صاحب۔ کچھ دیر بعد صورتحال یہ تھی کہ اسٹیشن ماسٹر سمیت پورا عملہ جمع ہو کر میرے چار سالہ بیٹے سے درخواست کر رہا تھا، لیکن بیٹا ٹرین چلانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوا۔ بالآخر بڑی مشکل سے میں نے کئی چاکلیٹس دینے کے وعدے پر بیٹے سے ٹرین چلوانے کی اجازت دلائی تو سفر کا آغاز ہوا۔
چند ماہ بعد میں دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے واپس برطانیہ آئی۔ ہم بذریعہ بحری جہاز لندن پہنچے، ہماری منزل ویلز کی ایک کاونٹی تھی جس کے لیے ہم نے ٹرین کا سفر کرنا تھا۔ بیٹی اور بیٹے کو اسٹیشن کے ایک بینچ پر بٹھا کر میں ٹکٹ لینے چلی گئی، قطار طویل ہونے کی وجہ سے خاصی دیر ہو گئی، جس پر بیٹے کا موڈ بہت خراب ہو گیا۔ جب ہم ٹرین میں بیٹھے تو عالیشان کمپاونڈ کے بجائے فرسٹ کلاس کی سیٹیں دیکھ کر بیٹا ایک بار پھر ناراضگی کا اظہار کرنے لگا۔ وقت پر ٹرین نے وسل دے کر سفر شروع کیا تو بیٹے نے باقاعدہ چیخنا شروع کر دیا۔ ’’ وہ زور زور سے کہہ رہا تھا، یہ کیسا الو کا پٹھہ ڈرائیور ہے۔ ہم سے اجازت لیے بغیر ہی اس نے ٹرین چلانا شروع کر دی ہے۔ میں پاپا سے کہہ کر اسے جوتے لگواوں گا۔‘‘ میرے لیے اُسے سمجھانا مشکل ہو گیا کہ ’’یہ اُس کے باپ کا ضلع نہیں ایک آزاد ملک ہے۔ یہاں ڈپٹی کمشنر جیسے تیسرے درجہ کے سرکاری ملازم تو کیا وزیر اعظم اور بادشاہ کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو خوار کر سکے‘‘۔

آج یہ واضع ہے کہ ہم نے انگریز کو ضرور نکالا ہے۔ البتہ غلامی کو دیس نکالا نہیں دے سکے۔ یہاں آج بھی کئی ڈپٹی کمشنرز، ایس پیز، وزرا مشیران اور سیاست دان اور جرنیل صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو گھنٹوں سٹرکوں پر ذلیل و خوار کرتے ہیں۔ اس غلامی سے نجات کی واحد صورت یہی ہے کہ ہر طرح کے تعصبات اور عقیدتوں کو بالا طاق رکھ کر ہر پروٹوکول لینے والے کی مخالفت کرنی چاہئیے۔
ورنہ صرف 14 اگست کو جھنڈے لگا کر اور موم بتیاں سلگا کر خود کو دھوکہ دے لیا کیجئیے کہ ہم آزاد ہیں۔
کاپی

10/07/2020

HARD BUT TRUE
to be noted

#9جولائی👇
‏ذوالفقار علی بھٹو نے مادر ملت فاطمہ جناح کو اتنخابات میں ہرانے کے لیے ان پر تہمت تک لگائی اور انکے خلاف تقریر کرتے ہوئے یہ معنی خیز جملہ کہا کہ: "اس نے شادی کیوں نہیں کی ہے؟؟؟"
کہا جاتا ہے کہ بھٹو کا یہ شرمناک الزام سن کر پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے کچھ غیر ملکی صحافی رو پڑے ‏تھے کہ یہ کیسی قوم ہے جو اس خاتوں پر بہتان لگا رہی ہے جس کو یہ مادر ملت یعنی " قوم کی ماں " کہتے ہیں، قائد ملت کی بہن پر یہ تہمت اس جمہوری چیمپئن کے چہرے پر وہ داغ ہے جو کبھی نہیں مٹ سکے گا۔
1965ء کی جنگ کے حوالے سے انتہائی لبرل اور فوج مخالف سمجھے جانے والے نجم سیٹھی کے مطابق ‏یہ بھی بھٹو کی اقتدار ھوس کا ہی نتیجہ تھا انکے الفاظ یہ ہیں:
"طارق علی کافی مشہورسٹوڈنٹ لیڈر تھے، انہوں نے اس وقت ذوالفقار بھٹو سے 1965ء کی جنگ کے بارے میں پوچھا جب وہ ایوب خان کو چھوڑ چکے تھے کہ یہ جنگ آپ نے کیوں کی تھی؟؟؟ اور آپ نے کی تھی یا انڈیا نے؟؟؟
بھٹو نے جواب دیا: کہ ‏ہم نے کی تھی مجھے یقین تھا کہ اگر ہارتے ہیں تو ایوب خان گر جائیگا، ایوب خان گرے گا تو میرا راستہ کھل جائیگا۔اگرجیت گئے تو ہیرو بن جائنگے کیونکہ میں ہی وزیر خارجہ تھا، دونوں صورتوں میں میری جیت تھی۔"
محض اپنا راستہ صاف کرنے کے لیے ذولفقار علی بھٹو نے پورے پاکستان کو داؤ پر لگا ‏دیا، اگر پاک فوج اپنی جانوں پر نہ کھیلتی تو شائد ہم لاہور ہار جاتے۔
شیخ مجیب جب اگرتلہ سازش میں پکڑا گیا اور ایوب خان اس کو غداری کے جرم میں سزا دینے لگا تو اسکو چھڑانے کے لیے بھٹو نے ملک گیر مہم چلائی اور بدترین حالات میں انتخابات کامطالبہ کر دیا، لیکن جب شیخ مجیب نے انتخابات ‏نے انتخابات میں کلین سویپ کیا اور بھٹو کے مقابلے میں دگنے ووٹ لے لیے تو بھٹو نے اقتدار اس کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور اس کو غدار قرار دیا اور یہ مشہور نعرہ لگایا:
" ادھر تم ادھر ہم "
اسکے باوجود جب کچھ لوگوں نے شیخ مجیب کے ڈھاکہ میں بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت ‏کی بات کی تو بھٹو نے دھمکی دی کہ:
"جو ڈھاکہ گیا میں اسکی ٹانگیں توڑ دونگا۔"
بنگال الگ ہوا، بچے ہوئے پاکستان پر بھی بھٹو کی جمہوری حکومت نہ بن سکی اور بھٹو تین سال تک کے لیے سول "مارشل لا" ایڈمنسٹریٹر بن گیا۔
اس حوالے سے روئیداد خان اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ:
" بھٹو نے ‏مجھے رات کو دس بجے بلایا اور کہا کہ مجھے امید ہے کہ آپ جاگ رہے ہونگے، میں نے کہا کہ کتاب پرھ رہا ہوں، کہنے لگا یہ ٰیحیی نے کیا کر دیا، اس نے مجھ سے پوچھے بغیر ڈھاکہ اجلاس کی تاریخ طے کر لی، یہ تاریخ غلط فکس کی گئی ہے، اس کو چینج کراؤ، میں نے کہا کیسے؟؟؟ بنگالی تو مان گئے ہیں، ‏بھٹو نے کہا بہت آسان ہے، ڈھاکہ میں ایک لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا کراؤ، ٹیر گیس ہوگی، لاٹھی چارج ہو گی، کچھ لوگ مرینگے، تاریخ تبدیل ہو جائیگی۔"
روئیداد خان کے مطابق بھٹو نہیں چاہتے تھے کہ ڈھاکہ میں اجلاس ہو، کیونکہ بھٹو سمجھ گئے تھے کہ جب تک مشرقی پاکستان، پاکستان کا حصہ ہے ‏وہ کبھی وزیراعطم نہیں بن سکتے، کیونکہ وہ کبھی مجیب سے نہیں جیت سکتے۔
اس لیے مارچ سے ستمبر تک بھٹو نے کچھ نہیں کیا، جب پاک فوج ملک بچانے کے لیے دیوانہ وار لڑ رہی تھی، اگر اس وقت بھٹو سیاسی بھاگ دوڑ کرتے اور مجیب کو راضی کر لیتے تو شائد یہ سانحہ نہ ہوتا۔
پھر جب انڈیا نے حملہ کیا ‏اور ملک ٹوٹنے کی نوبت آگئی تو وہ اس کو اقوم متحدہ میں روکنے کے بجائے کاغذات پھاڑ کر، اجلاس چھوڑ کر آگئے، اس نے بنگالیوں کو " سور کے بچو " کہہ کر مخاطب کیا، اسکی وہ تقریر آج بھی سنی جا سکتی ہے۔
پاکستان ٹوٹ گیا، بھٹو نے جناح کے پاکستان کو قتل کر دیا، محض اس لیے کہ اسکو اقتدار مل ‏سکے، بلاآخر بھٹو کو اقتدار مل گیا، عوام کو پہلی بار ضروریات زندگی کی اشیاء جیسے آٹا اور چینی کے حصول کے لیے قطاروں میں کھڑا ہونا پڑا اور انکو مہنگائی کے معنی معلوم ہوئے۔
احمقانہ معاشی فیصلوں اور کمزور سفارت کاری نے ایسے معاہدات کروائے کہ پاکستان کو اپنے کئی سال کی چاول کی فصل ‏شہنشاہ ایران کی ضمانت پر گروی رکھوانی پڑی، اور شملہ معاہدے میں جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائن قرار دیا گیا، دوسرے لفظوں میں اپنے پانیوں کو انڈیا کے حوالے کرنا پڑا۔
وولر بیراج کے معاملے میں انڈیا کو نہ روکا جا سکا، ہاں جنرل ضیاء کے پیدا کیے گئے مجاہدین نے بعد میں اس پر حملے کر کے ‏اسکی تنصیبات کو کئی بار تباہ کیا، بعد میں بھی حالات کچھ اچھے نہ رہے، بھٹو نے جس سوشلزم کا نعرہ لگایا تھا اس کے متعلق انکی اہلیہ نصرت بھٹو نے برملا اعتراف کیا تھا کہ یہ مارکسزم سے اخذ کیا گیا ہے، جس نے کروڑوں کو خدا کی ذات کا منکر کر دیا اور آج بھی کر رہے ہیں، اسکے نتیجے میں ‏صتعتیں قومیا لی گئیں جس سے نہ صرف ملک سے سرمایہ نکل گیا بلکہ صنعتیں اور بعض ادارے ایسے تباہ ہوئے کہ آج تک دوبارہ نہیں اٹھے۔
شراب کھلی عام پی جانے لگی، پاکستانی میڈیا پر پہلی بار بےحیائی اس دور کے لحاظ سے نظر آنے لگی، یہانتک کہ کراچی میں دنیا کا سب سے بڑا کیسینو بننا شروع ہوا جس ‏کا مہیب ڈھانچہ شائد آج بھی کلفٹن کے ساحل پر موجود ہے، جمہوری حکومت کے اس شاندار کارنامے کے بعد وہاں جو کچھ ہوتا اس سے کم از کم اسلامی دنیا میں پاکستان کے "وقار" میں زبردست اضافہ ہوتا۔
بھٹو کے خلاف تحریک نے زور پکڑا اور آہستہ آہستہ مذہبی رنگ اختیار کر لیا، تو بھٹو نے اعلان کیا ‏کہ "میرے ہاتھ میں علی رضی اللہ عنہ کی تلوار ہے ۔"
سمجھنے والے خوب سمجھتے ہیں کہ اسکا کیا مطلب تھا، ملکی سیاست میں پہلی بار فرقہ وارانہ رنگ بھر دیا گیا، یہ رنگ نہیں بلکہ زہر تھا، اسکا یہ اثر ہوا کہ ظفر علی شاہ روڈ پر جیالوں نے مولانا شاہ احمد نورانی کی داڑھی نوچی، انکا جبہ پھاڑا ‏اور اسکی پگڑی لیر لیر کر کے لے گئے، سو یہودی ایک مودودی کے نعرے لگے، بھٹو صاحب کے مصلوب ہونے پر یہ فرقہ وارانہ رنگ اور شدید ہو گیا اور آج تک قائم ہے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ بھٹو کے اس نعرے کا اثر یہ ہے کہ آج بھی ملک کی تیس فیصد آبادی فرقے کی بنیاد پر ووٹ ڈالتی ہے، ‏میری یہ بات کچھ لوگوں کو سخت لگے گی لیکن یہ سچ ہے۔
"بھٹو نے امریکی مخالفت کے باوجود ایٹمی پروگرام پر کام جاری رکھا جسکی ضیاء نے اس سے زیادہ تیز رفتاری سے تکمیل کی لیکن ان حالات میں ملکی سالمیت جس خطرے سے دوچار تھی اسکو ایٹم بم بھی نہیں بچا سکتا تھا۔"
سن 1977ء کے انتخابات میں ‏کھلی دھاندلی پر پورا ملک سراپا احتجاج تھا، اور بہت سی جانوں کے ضیاع اور فسادات کے بعد بھٹو کو پاکستان قومی اتحاد کے دوبارہ الیکشن کے مطالبے کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے، لیکن جب دستخط کا موقع آیا تو بھٹو عین وقت پر مسلم ملکوں کے دورے پر چل دئیے اور مخالفین بھٹو کی اس چال یا دھوکے کو ‏سمجھ کر چیخ اٹھے، یہاں تک کہ ملک میں سول وار برپا ہونے کے لیے سٹیج بلکل تیار ہو گیا۔
یہی وہ لمحہ تھا جب جنرل ضیاءالحق نے ایک فرض شناس سپاہی کی طرح میدان میں آنے کا فیصلہ کیا تاکہ ملک کی خود اپنے آپ کو برباد کر دینے کی سمت میں جاری اس مارچ کو روکا جا سکے، اور برطانوی پارلیمانی ‏طرز جمہوریت کی اس بساط کو لپیٹ دیا گیا۔
یہ ہے حقیقت بھٹو زندہ ہے کی، لیکن اس ملک کی قوم میں جب تک شعور نہیں آئے گا، تب تک اس ملک میں غدّار زندہ ہی رہیں گے اور
اللہ ‏میری قوم کی عقل پر پڑے پردے ہٹائے تاکہ سیاسی بھیڑیوں کے اصل روپ دیکھ سکیں ۔۔😒

18/06/2020

بریکنگ نیوز....
پاکستان میں تمام سرکاری و نجی سکولز اور کالجز کو اگست کے درمیان یا آخر تک کھولنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے....اس سے زیادہ ٹائم نہیں لگے گا...
بین ال اقوامی ایس او پی بنا رہے ہیں جولائی کے آخر تکے ایس او پی جاری کردیں گے......مکمل ایس او پیز کے بعد تمام سرکاری سکول کھول دیں گے.....تمام چھٹیاں جو گزر رہی ہیں انکو سمر وکیشن کاؤنٹ کیا جائے گا.....ٹوئیٹ...
وفاقی وزیر تعیلم شفقت محمود

18/06/2020

Good analysis

17/06/2020

PMDC has decided to conduct MBBS and BDS entry test in 3 shifts due to higher number of candidates.
Jo bndy pihla test daingai wu 2nd aur 3rd test ni de skty is tarah 2nd aur 3rd ...........

Date of first test has not decided yet ,will be decided soon So U guys continue ur studies and be prepared any time 😍😍

Source: Usman Khan TV

27/05/2020

ریاستی، حکومتی، عوامی سطح پر تعلیم کبھی ہماری ترجیح نہیں رہی، جس کے نتائج بھی ہم بھگت رہے ہیںلیکن یہ رونا پھر کبھی رو لیں گے کیونکہ آج مجھے بختیار قصوری کی ایک تحریر کی ہائی لائٹس آپ کے ساتھ شیئر کرنا ہیں۔ قصوری صاحب لکھتے ہیں۔

’’17سال کی عمر کے بچوں کے اسکول کھول دینے چاہئیں کیونکہ اس ایج گروپ کے حوالہ سے کورونا وائرس کا رسک حقیقتاً اور عملاً صفر ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شہر نیویارک ہے اور اس اتنے بڑے شہر میں ایک بھی ایسی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی جس میں کورونا کے شکار کی عمر 17 سال تک ہو سوائے ان کے جنہیں دل کے امراض یا ذیابیطس وغیرہ کا سامنا تھا۔

صرف 3ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں جن کے اسباب ’’غیرکرونائی ‘‘ تھے یعنی ان ہلاکتوں کا کورونا سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

البتہ گزشتہ 3ہفتوں میں نیو یارک کے اندر بچوں میں جو ہلاکتیں ہوئیں تو دراصل ان کا سبب بھی اک RARE قسم کی بیماری تھا جسے KAWAJAKI کہتے ہیںاور اس کی وجہ سے انسانی انتڑیاں سوج جاتی ہیں اور یہ بھی قابلِ غور ہے کہ نیویارک کی میڈیکل کمیونٹی KAWAJAKI اور کورونا وائرس میںکسی قسم کا کوئی تعلق تلاش نہیں کرسکی۔

سویڈن میں بھی جہاں کورونا وائرس کی وجہ سے کبھی سکول بند نہیں ہوئے، 9 سے 19 سال کی عمر تک کے بچوں میں ایک ہلاکت بھی رپورٹ نہیں ہوئی البتہ 9 سال سے کم عمر کے ایک بچے کی ہلاکت سامنے آئی جس کے متعلق کوئی نہیں جانتا کہ اس بچے کو کوئی اور مرض تولاحق نہیں تھا۔

یہ بھی ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں کورونا بارے معلومات ابھی تک نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جدید میڈیکل سائنس بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتی کہ بالغوں کی نسبت بچے اس وائرس سے بہت کم متاثر ہوئے ہیں (نیویارک ٹائمز صفحہ 4 ،13 مئی 2020) سب سے اہم یہ کہ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ کورونا وائرس سرے سے PANDEMIC ہی نہ ہو بلکہ اس کی بجائے ENDEMIC ہو جو ویکسین کی تیاری کے بعد بھی ملیریا وغیرہ کی طرح ایسے ہی موجود رہے جیسے ویکسین کے باوجود ملیریا بدستور موجود ہے۔

دوسری طرف یہ بحث ہی خاصی فضول ہے کہ انسانی صحت اور معیشت میں سے زیادہ ضروری اور اہم کیا ہے اور پاکستان میں شاپنگ مالز، مارکیٹیں اور پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ کھولنا زیادہ ضروری ہے یاسکولوں کا کھولنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ کامن سینس کی بات ہے کہ اگر شاپنگ مالز، بازار اور پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ پر بندش نہیں ہےتو اسکولوں کو بند رکھنے کی کیا منطق ہے؟

کیا یہ بات مضحکہ خیز اور عقلِ سلیم کے قطعاً الٹ نہیں کہ بالغوں یعنی والدین کو تو کورونا ’’سمیٹنے‘‘ اور پھر آگے ’’بانٹنے‘‘ کے لئے آزاد چھوڑدیاگیاہے جبکہ بچے جنہیں خطرہ ہی کوئی نہیں ان کے اسکول بند رکھے جارہے ہیں۔ کیا اس بات کا انتہائی قوی امکان نہیں کہ ’’بڑے‘‘ یہ خطرناک تحفہ بچوں تک لے جائیں گے؟ کیا شاپنگ مالز، بازاروں، ٹرینوں، ویگنوں، بسوں، رکشوں میں ٹھنسے ہوئے لوگوں کے بچے ان سے دور جزیروں پر بستے ہیں؟

یہ حقیقت بھی دھیان میں رہے کہ گھروں، محلوں، گلیوں میں مٹر گشت کرتے بچے کئی حوالوں سے کہیں زیادہ غیر محفوظ ہیں کیونکہ پرائیویٹ اسکولوں کا ڈسپلن اپنی جگہ حقیقت ہے تو دوسری طرف اس ایج گروپ کے لئے آن لائن ایجوکیشن بھی کوئی مناسب متبادل ہرگز نہیں ہے۔

علاوہ ازیں آئس لینڈ اور نیدر لینڈ کے ریسرچرز نے بھی ایک ایسے کیس کی نشان دہی نہیں کی جس میں بچے اس وائرس کو اپنے گھروںتک لے جانے میں کیریئر بنے ہوں، تو سمجھ نہیں آتی کہ سب کچھ یا تقریباً سب کچھ کھول کر اسکولوں کو بند رکھنے کے پیچھے کون سی دانش کارفرما ہے۔

خاص طور پر اگر اسکولوں میں REPRODUCTIVE فیکٹرایک فیصد یا اس سے بھی کم ہو۔ جرمنی کی مثال دیکھیں جہاں بچوں اور اساتذہ کے ٹیسٹوں کے بعد اسکول کھل گیا حالانکہ وہاں REPRODUCTIVE FACTOR، 1.13فیصد پایا گیاتھا۔لمز (LUMS) جیسے ادارہ کے ڈین آف ایجوکیشن طاہر اندرابی کا کہنا ہے کہ پنجاب کے 70000 پرائیویٹ اسکولوں میں جہاں اوسطاً 20اساتذہ پر مشتمل اسٹاف ہوتا ہے۔

کرائے کی عمارتوں سے اوپریٹ کر رہے ہیں اور کرایوں سے لے کر اسٹاف کی تنخواہوں تک پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں کیونکہ طالب علموں کی اکثریت فیسیں ادا نہیں کر رہی۔

سرکاری اسکولوں کا تو کب سے ستیاناس ہو چکا اور اب پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بندش کا خطرہ بھی پیدا ہو رہا ہے۔ پنجاب میں 53000سرکاری اسکول ہیں یعنی تقریباً 1.4 ملین خاندان صرف پنجاب میں متاثر ہوسکتے ہیں۔ بقول طاہر اندرابی خواتین کی بہت بڑی تعداد پرائیویٹ اسکولوں میں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔

اک عمومی تاثر کے بالکل برعکس حقیقت یہ ہے کہ ان اسکولوں کی فیسیں بھی عام آدمی کی پہنچ میںہیں مثلاً مضافات میں اوسطاً 550 روپے اور شہری علاقوں میں 800 روپے تک۔قصہ مختصر اگر حکومت کو واقعی بچوں کی تعلیم میں کوئی دلچسپی ہے تو شاپنگ مالز، بازاروں، پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کو بھی کھول دینا چاہیے۔

حکومت کو کورونا سے جنگ کے لئے ملکی و غیر ملکی ڈونرز سے خطیر رقمیں ملی ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ اس رقم کا ایک حصہ اسکولوں میں ٹیسٹوں وغیرہ جیسی سہولتوں کے لئے بھی مختص کرے۔

سرکاری اسکول تو پہلے ہی رینگ اور سسک رہے ہیں اور اگر لاک ڈائون کے نتیجہ میں پرائیویٹ اسکولوں کا بھی وہی حشر ہوگیا تو اک نیا بحران (بیروزگاری سمیت) بھی جنم لے سکتا ہے۔

حکومت کے لئے ایک اور آپشن یہ بھی ہے کہ وہ پرائیویٹ اسکولوں پر پڑے کرایوں اور تنخواہوں کے بوجھ کو بانٹنے کےلئے بھی قدم بڑھائے تاکہ صورتحال کو بد سے بدتر ہونے سے پہلے سنبھالا جاسکے کیونکہ وقت پر لگایا جانے والا ایک ٹانکا بعد میں لگائے جانے والے کئی ٹانکوں سے بچا لیتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

14/05/2020

تمام فارمولے واضح؛ کینسلشین، کمپوزٹ، وغیرہ کے فارمولے بتا دیے گئے
اضافی نمبرز کا طریقہ پوسٹ کے آخر میں درج ہے!

آج بروز جمعرات، بتاریخ 14 مئی 2020 وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود نے پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے امتحانات کی منسوخی کے حوالے سے تمام تر فارمولے واضح کر دیے. جو فارمولے طے پائے ہیں وہ درجہ ذیل ہیں.

1) سب سے پہلا فیصلہ تو یہ ہوا ہے کہ اس سال بورڈ کے سالانہ امتحانات منسوخ ہوگئے ہیں. کسی بھی بورڈ میں سالانہ امتحانات منعقد نہیں ہونگے.

2) اس کے بعد شفقت محمود کا کہنا تھا کہ 9th اور 11th کا امتحان بالکل نہیں ہوگا. جبکہ ان کو اگلے سال یعنی 10th اور 12th میں پروموٹ کر دیا جائے گا. اس کے لئے ان کا رزلٹ اگلے سال کے بورڈ امتحان کے مطابق طے پایا جائے گا. یعنی 9th کے لئے 10th اور 11th کے لئے 12th کے مطابق نمبرز دیے جائیں گے.
رزلٹ کارڈ میں ٹوٹل نمبرز درج کیے جائیں گے جبکہ سبجیکٹ وائز نمبرز نہیں ہونگے.

3) 12ویں اور 10th والے طلباء کو بھی پروموٹ کر دیا جائے گا. ان کو 9th اور 11th
کے مطابق نمبرز دیے جائیں گے. ان کے کُل رزلٹ میں تین فیصد نمبرز کا اضافہ کر دیا جائے گا. فائنل رزلٹ ٹوٹل کی صورت میں ہوگا. کسی سبجیکٹ میں الگ نمبرز درج نہیں ہونگے. یہ طلباء یونیورسٹی میں داخلہ لے سکیں گے. اس میں میڈیکل والے بھی شامل ہیں.

4) جن طلباء نے 9th اور 11th میں چالیس فیصد (تک) مضامین فیل کیے ہیں، ان کو باقاعدہ پاسنگ مارکس دیے جائیں گے. اور ان کو پروموٹ کر دیا جائے گا.
اس کے علاوہ باقی طلباء کے لئے چار کیٹیگریز تیار کیں ہیں:

1. جو طلباء اپنے پچھلے رزلٹ سے مطمئن نہیں ہیں یعنی پورا سال کینسل کیا ہے.
2. جو طلباء کمپوزٹ امتحان دینا چاہتے ہیں
3. جن طلباء نے کچھ پیپرز کینسل کیے ہیں اور ان سے مطمئن نہیں ہیں
4. جن طلباء کے چالس فیصد سے زیادہ مضامین فیل ہیں.
ان چاروں کیٹیگریز سے تعلق رکھنے والے طلباء کے لئے ستمبر اور نومبر میں ایک سپیشل امتحان منعقد کیا جائے گا.
وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود صاحب نے طلباء سے درخواست کی ہے کہ وہ یکم جولائی تک اپنے کنسرن بورڈ کو مطلع کریں کہ وہ کس کیٹیگری کے مطابق سپیشل امتحان دینا چاہتے ہیں.
یہ تمام فیصلے اور فارمولے حکومتی ارکان اور بورڈ منتظمین سے باقاعدہ مشاور کے بعد طے پائے ہیں. یہ فارمولے حتمی ہیں. ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی.

تین فیصد اضافی مارکس کس طرح دیے جائیں گے؟

تین فیصد اضافی مارکس کا مطلب ہے کہ آپ کو تین فیصد گریس مارکس دیے جائیں گے. جس کے لئے درجہ ذیل فارمولہ استعمال ہوگا:

Marks obtained in 9th or 11th × 3 ÷100= Extra(Grace) Marks

Marks obtained in 9th or 11th × 2+ grace marks = Your result.
Now these are your total marks.

اگر اب بھی طریقہ کار واضح نہ ہو تو مطلع کیجیے.

ادیب یوسفزے

07/05/2020

پچھلے کلاس کی رزلٹ کی بنا پرطلباء کو پروموٹ کیا جائیگا 9th اور 1st ایئر کے لیے یہ طریقہ کار ہے کہ 9th کے طالبعلم جماعت دہم کے امتحان کے ساتھ منسلک کیا جائے گا اسی طرح جماعت 1st yearکو سیکنڈ ائیر کے ساتھ منسلک کیا جائے اور اس کی بنیاد پر نمبرات لگائیں گے

18/04/2020

پرائیویٹ اسکولوں کے بارے میں معاشرے کا عمومی رویہ , جس پر پچھلے کچھ سالوں میں لوگوں کا اعتقاد مضبوط ہوتا جا رہا ہے...
یہ مافیا ہیں , لوٹتے ہیں , ظالم ہیں....
پرائیویٹ اسکول ناجائز کمائی کے اڈے ہیں, لوٹ مار کر رہے ہیں، پرائیویٹ اسکول بند کریں ,ہزاروں روپے فیس چارج کرتے ہیں....وغیرہ وغیرہ
اور اسطرح کی ساری بحث کرنے والے اینکرز , اخباروں کے صفحے کالے کرنے والے جرنلسٹ , وکلاء اور صبح صبح اپنے بچے پرائیویٹ اسکول میں چھوڑ کے آنے والے کچھ سرکاری اسکولوں کے استاد اور باقی ملازمین ،حکومتی عہدے دار وزیر مشیر وغیرہ اور کچھ ذہنی مریض عوام بھی ان کے ساتھ ہیں , ان میں سے کوئی بھی کبھی بھی آپ کو ان سوالوں کا جواب نہیں دے گا کہ...
دس لاکھ سے 3 کروڑ روپے فی کیس فیس چارج کرنے والا وکیل ڈکیت نہیں ہے.؟؟؟
دس لاکھ روپے فی میچ کی فیس چارج کرنے والا کھلاڑی ڈاکو نہیں ہے؟؟؟
دس لاکھ میں گھر کا نقشہ بنانے والا آرکیٹیکٹ ڈاکو نہیں ہے...؟؟؟
دس لاکھ میں شادی کا جوڑا بنانے والا ڈیزائنر ڈکیت نہیں ہے...؟؟؟
700روپے میں ایک چائے کا کپ بیچنے والا 5 سٹار ہوٹل ظالم نہیں ھے؟؟؟
دس لاکھ میک اپ اور فوٹو گرافی کا چارج کرنے والا اسٹوڈیو ڈکیت نہیں ہے...؟؟؟
سات لاکھ ماہانہ تنخواہ لینے والے بیورکریٹ ظالم نہیں ہیں؟
5منٹ چیک اپ کرنے کے بعد مریض سے 1000 روپے سے لے کر 5000 روپے فیس لینے والا ڈاکٹر مافیا نہیں ھے؟؟؟
سات ہزار کا لان کا برانڈڈ سوٹ خرید کر,آٹھ ہزار کا چائنیز اٹالین فوڈ کھا کر ,چار ہزار کا جوتا خرید کر , 500 روپے سے لے کر 2500 روپے ماہانہ فیس جس میں بچے کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ہر سہولت اور ذمہ داری بھی جس پرائیویٹ اسکول کی ھوتی ھے اس کی ماہانہ فیس کا سن کر کہتے ہیں , " اتنی زیادہ فیس " .....
کھلاڑیوں , ڈیزائنرز ,اور ڈھابوں سے پلازے کھڑے کر دینے والے فوڈ چینز کی محنت اور ہمت کی داستانیں سب کو یاد ہوں گی ....مگر
زندگی بھر کی سخت محنت اور مشکل ترین انبیاء کے پیشہ تعلیم پھیلانے والے کا 500 سے 2500 روپے ماہانہ فیس پر سب کی نظر ھے جس سے وہ بلڈنگ کا کرایہ بھی دے گا ٹیچرز اور باقی سٹاف کو تنخواہ بھی دے گا بجلی گیس پانی اور فون کے بل بھی ادا کرے گا حکومتی فیس اور ٹیکس بھی بھرے گا اس کی 500 سے لے کر 2500 روپے ماہانہ فیس کو لے کر وہ لوگ ظلم کہتے ہیں جو خود چل کر اس ادارے میں پہنچتے ہیں اپنا بچہ اپنی مرضی سے داخل کرواتے ہیں اور باہر جا کر اسی اسکول اور ادارے کو مافیا اور ڈکیت کہتے ہیں۔یہ پسماندہ سوچ آخر کیوں ھے؟؟
اس وقت کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا کہ

کوئی بھی پرائیویٹ اسکول کسی والدین کو اپنا بچہ اس کے اسکول میں داخل کرنے پر مجبور نہیں کرتا...
اگر کوئی شخص ان پرائیویٹ اسکولوں کی فیس افورڈ نہیں کر سکتا تو ان کے پاس کیوں جاتا ھے؟؟؟
اگر اپنی مرضی سے ایسے اداروں کے دروازے پر جاتا ھے تو کیوں باہر نکل کر اسی ادارے کو گالیاں دیتا ہے جس میں اپنا مستقبل یعنی اپنا بچہ چھوڑ کے آتا ھے۔۔
پرائیویٹ اسکولز کے بارے میں یہ منافقانہ رویہ پورے پاکستان میں کیوں ھے؟؟؟ اس کو کون روکے گا؟؟
جس وقت جس کا جی چاہے جہاں مرضی کھڑا ھو وہ پرائیویٹ اسکولوں کو گالی دے اور اپنی بھڑاس نکال لے۔۔
افسوس.

27/03/2020

GRATITUDE TO
ALL DOCTORS
NURSES
AND PARA MEDICAL STAFF

23/03/2020

Respected parents/Dear students AOA.
it is to inform you that annual result 2020 has been ready.
You can obtained Result card from the school office.
Moreover you can obtained new books from the office.
The prize distribution ceremony date will be announce later on.
New admission has been started.
Pls stay at home for yourself and for pakistan.

Regards

Photos from Behlola Model School & College's post 29/01/2020

Prize distribution of 2nd term

12/01/2020

نمبر تھوڑے یا زیادہ لینے والے نہیں بلکہ اساتذہ کا عزت و احترام کرنے والے سٹوڈنٹس ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں

30/12/2019

Respected parents/Dear students.
It is to inform you that behlola model school and college has extend winter vacation till 4th january 2020 .The school will reopen on monday 6th january.
Regards

28/12/2019

Behlola model school and college required
Physics/math teacher
Qualification. .master/Bs
Experience......2 years

Want your school to be the top-listed School/college?

Videos (show all)

Telephone

Website

Opening Hours

Monday 08:00 - 13:00
Tuesday 08:00 - 13:00
Wednesday 08:00 - 13:00
Thursday 08:00 - 13:00
Friday 08:00 - 12:00
Saturday 08:00 - 13:00