IQra Taleem Ul Quran & Tuition Academy
we have a different tools which makes human life easy and professional so feel free to contact with us.
Operating as usual
ماں_کی_خدمت🍁
حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے ماں کی خدمت سے بڑھ کر کسی شئے سے فیض نہیں پایا ایک رات والدہ صاحبہ نے مجھ سے پانی مانگا میں نے کوزے میں دیکھا تو وہ خالی تھا پھر گھڑا دیکھا تو اس میں بھی پانی نہ پایا میں دوڑتا ہوا ندی پر گیا اور وہاں سے پانی لایا اس اثناء میں والدہ صاحبہ سو گئی تھیں میں پانی کا کوزہ ہاتھ میں لیے ہوئے ساری رات اس انتظار میں کھڑا رہا کہ وہ بیدار ہوں تو پانی پیش کروں سخت سردی کا موسم تھا میرا ہاتھ ٹھٹھر گیا لیکن والدہ صاحبہ کو جگانا مناسب نہ سمجھا جب وہ نیند سے بیدار ہوئیں تو مجھے اس حالت میں کھڑا دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور پھر پانی پی کر مجھ کو بے شمار دعائیں دیں اسی دن سے میں نے دیکھا کہ میرا قلب انوار الہی سے معمور ہو گیا . سبحان اللہ ماشاء اللہ..... اے میرے پیارے رب کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک وسلم کے صدقے ھم سب کے قلوب منور فرمادے اور ہمارے چہروں کو روشن فرمادے. آمین ثم آمین.
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮯ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯایک سابق ﺻﺪﺭ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺩﺍﺅﺩ ﮐو اطلاع ملی کہ ﮐﺎﺑﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔
ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺩﺍﺅﺩ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﻋﺎﻡ ﻟﺒﺎﺱ ﭘﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯿﺲ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ
"ﻣﺤﺘﺮﻡ، ﭘُﻞ ﭼﺮﺧﯽ (ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ) ﺗﮏ ﮐﺎ ﮐﺘﻨﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﻟﻮﮔﮯ؟"
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺩﺍﺅﺩ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ،
"ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻧﺮﺥ ﭘﺮ ﮐﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔"
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : 20 ؟
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : اﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ۔
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : 25 ؟
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ: ﺍﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ۔
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : 30 ؟
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ۔
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : 35 ؟
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﻣﺎﺭﻭ ﺗﺎﻟﯽ
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﻓﻮﺟﯽ ﮨﻮ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺍﺷﺘﮩﺎﺭﯼ ﮨﻮ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺟﻨﺮﻝ ﮨﻮ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﻣﺎﺭﺷﻞ ﮨﻮ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﮐﮩﯿﮟ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﻣﺎﺭﻭ ﺗﺎﻟﯽ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﺍُﮌ ﮔﯿﺎ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﯿﻞ ﺑﮭﯿﺠﻮ ﮔﮯ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺟﻼﻭﻃﻦ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﭘﮭﺎﻧﺴﯽ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﺎﺅ ﮔﮯ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﻣﺎﺭﻭ ﺗﺎﻟﯽ
اگر دو چار تالیاں ہمارے ملک میں بھی بج جائیں تو ملک میں کبھی کوئی کرپشن کا سوچے گا بھی نہیں ۔
یو بابا عدالت تہ لاڑو قاضی تہ یی وے مقدمہ داخلول غواڑم
قاضی تری تپوس وکو مقدمہ د چا خلاف داخلول غواڑے؟
بابا ورتہ وئیل د خپل زوی خلاف
قاضی ورتہ وئیل زوی دی سہ جرم یی کڑے؟
بابا ورتہ وے زما زوے مالہ خرچہ نہ راکئ
قاضی ورتہ وئیل پہ دی کی د سہ دلائل ضرورت نیشتہ داخو ستا پہ ھغوئ حق دے
بابا ورتہ وئیل زہ خہ ڈیر مال لرم خو بیا ھم غواڑم چی زما زوے دی مالہ پہ خپل لاس د میاشتی دی سل روپئ خرچہ راکئ خو راکئ دی
قاضی حیران شو چی بابا مالدار ھم دے اؤ بیا ھم د خپل زوی نہ دمیاشتی سل روپئ خرچہ غواڑی حالانکہ دا خو ڈیری کمی دی
قاضی ورلہ زوی تہ د عدالت تہ د پیش کولو حکم جاری کڑو
زوی یی عدالت تہ پیش شو
قاضی ورتہ وے ستا پلار پہ تاسو رپورٹ کڑے چی مالہ دی
د میاشتی پہ خپل لاس سل روپئ خرچہ راکئ
زوی قاضی تہ وے زما دا پلار خہ ڈیر مالدارہ دے
دوئ بیا زما نہ ولی خرچہ غواڑی
قاضی ورتہ وے کہ ھر سومرہ مالدار دے خو دا ددہ حق دے
تاسو ورتہ ملامتہ یئ د قانون مطابق بہ تاسو دوئ لہ ھرہ میاشت سل روپئ خرچہ پہ خپل لاس ورکوئ دا د عدالت حکم دے
چی فیصلہ ختم شوا خلق لاڑو د عدالت کمرہ خوشی شوا
قاضی د بابا نہ تپوس اوکو چی تاسو مالدار ھم یئ اؤ بیا دی ھم پہ زوی سل روپئ خرچہ مقرر کڑہ داخو ڈیری کمی دی
بابا ورتہ وئیل پہ سل روپو می ھیس کار نیشتے
خو زما دا زوے پہ خار کی سرکاری نوکر دے
د زان دومرہ مصروفہ کڑے چی پہ میاشتو میاشتو زما د دوئ سرہ ملاقات نہ کیگی اؤ چی ٹیلیفون ورتہ اوکم ھغہ ھم نہ اوچتئ اؤ ماتہ ھر وخت یادیگی د لیدلو پہ ارمان می ورپسی سترگی را اوتے نو زہ ویم چی دا سل روپئ میاشت راکئ نو پہ دے بہانہ بہ می ورسرہ ملاقات کیگی
د قاضی پہ سترگو کی اوخکی راغلے وے کہ تاسو مخکی داسی وئیلے وے نو ما بہ پری د قید سرہ د یو سو کوڑو حکم ھم جار ی کڑے وو
بابا پہ خندہ شو اؤ ورتہ یی اوئیل کہ چری تاسو داسی حکم ورکڑے وے
بیا بہ دے سزا تہ ما پخپلہ غاڑہ کیخودہ ما بہ وے چی دا سزا مالہ راکئ زما د زڑہ ٹوکڑے تہ ھیس مہ وایئ
دوستانو د پوسٹ مقصد دا دے چی جوند ڈیر مختصر دے
دا دنیا فانی دہ نہ شل کیگی اؤ نہ د جوند دا منڈی ختمیگی
نو مور پلار سرہ د ناستی دملاقات کولو ٹائم ضرور ورکوئ
د ھغو سرہ کینئ خبری کوئ پہ خدائ یقین اوکہ ڈیر خوند وی پکی داسی وختونہ بیا نہ رازی
د مور پلار پہ مونگ پے شمیرہ حقونہ دی۔۔
ایران کا ایک بادشاہ سردیوں کی شام جب اپنے محل میں داخل ہو رہا تھا تو ایک بوڑھے دربان کو دیکھا جو محل کے صدر دروازے پر پُرانی اور باریک وردی میں پہرہ دے رہا تھا۔
بادشاہ نے اُس کے قریب اپنی سواری کو رکوایا اور اُس ضعیف دربان سے پوچھنے لگا:
"سردی نہیں لگ رہی۔۔۔؟؟؟؟"
دربان نے جواب دیا: "بہت لگتی ہے حضور۔۔۔!!!
مگر کیا کروں، گرم وردی ہے نہیں میرے پاس، اِس لئے برداشت کرنا پڑتا ہے۔"
"میں ابھی محل کے اندر جا کر اپنا ہی کوئی گرم جوڑا بھیجتا ہوں تمہیں۔"
دربان نے خوش ہو کر بادشاہ کو فرشی سلام کہے اور بہت تشکّر کا اظہار کیا،
لیکن بادشاہ جیسے ہی گرم محل میں داخل ہوا، دربان کے ساتھ کیا ہوا وعدہ بھول گیا۔
صبح دروازے پر اُس بوڑے دربان کی اکڑی ہوئی لاش ملی اور قریب ہی مٹّی پر اُس کی یخ بستہ انگلیوں سے لکھی گئی یہ تحریر بھی:
"بادشاہ سلامت۔۔۔!!!
میں کئی سالوں سے سردیوں میں اِسی نازک وردی میں دربانی کر رہا تھا
مگر کل رات آپ کے گرم لباس کے وعدے نے میری جان نکال دی۔"
*سہارے انسان کو کھوکھلا کر دیتے ہیں اسی طرح امیدیں کمزور کر دیتی ہیں اپنی طاقت کے بل بوتے پرجینا شروع کیجئے،