قرض معاف کرنے کے بعد دوبارہ مانگنا جائز نہیں
,🌹🌹🌹🌹🌹
Ask Fatwa
Ask Fatwa
آن لائن واٹس ایپ , ای میل کے ذریعے مسائل پوچھیں۔ اہل سنت والجماعت فقہ حنفی کے مطابق جواب دیا جاتا ہے
Operating as usual
سوال:بعض لوگوں نے قسم اٹھائی تھی کہ ہم فلاں نشان کے علاوہ کسی انتخابی نشان کو ووٹ نہیں دیں گے ۔وہ اگر کسی اور نشان کو ووٹ دیں تو کیا حکم ہے؟
محمد رفیق راولپنڈی
جواب: وہ کسی اور کو ووٹ نہیں دے سکتے ،اگر دیں گے تو حانث ہوں گے یعنی قسم توڑنے والے ہوں گے اور اگر کسی شرابی کبابی دین دشمن علماء دشمن امیدوار کو ووٹ دینے کی قسم اٹھائی تھی تو یہ قسم توڑیں اور ہر دو صورت میں ان پر دو قسم کا حکم لاگو ہوگا
(1)گناہ،لہذا توبہ استغفار کریں اور آئندہ ایسی قسم نہ کھائیں(2)کفارہ ۔اور کفارہ یہ ہے کہ دس بندوں کو دو وقت کا کھانا کھلائیں یا ان کو سوٹ دیں ۔اور اگر بہت غریب ہیں ۔کھانا اور کپڑا نہیں دے سکتے ہیں تو تین روزے رکھیں ۔واضح رہے کہ روزے لگاتار رکھنا ضروری ہے
مسائل پوچھنے کے لیے درج ذیل نمبر پر واٹس ایپ کریں۔۔ کال نہ کریں۔
0340-5015313
Ask Fatwa
جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو اکٹھے پڑھنے کا حکم
از :مولانا محمد نجیب قاسمی سنبھلی ، ریاض
نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور متواتر احادیث کی روشنی میں مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے اور بلا عذر شرعی مقرر وقت سے مقدم وموٴخر کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
نماز کو وقت پر پڑھنے سے متعلق چند آیات:
اِنَّ الصَّلَاةَ کَانَتْ عَلَی الْمُوٴمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوْتاً (سورة النساء ۱۰۳)بے شک نماز اہلِ ایمان پرمقررہ وقتوں میں فرض ہے۔
حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ (سورة البقرة ۲۳۸) نمازوں کی حفاظت کرو۔ مفسر قرآن علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وقت پر نمازوں کو ادا کرنے کی حفاظت کا حکم فرماتے ہیں۔
وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلَی صَلَوَاتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ (سورة المعارج۳۴) اور وہ لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ مفسر قرآن ابن کثیر رح اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ وہ لوگ نماز کے اوقات، ارکان، واجبات اور مستحبات کی حفاظت کرتے ہیں۔
فَوَیلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ (سورة الماعون۴ و ۵)سو ان نمازیوں کے لیے بڑی خرابی ہے جو اپنی نماز میں کاہلی کرتے ہیں۔ مفسرین نے تحریرکیا ہے کہ وقت پر نماز کی ادائیگی نہ کرنا اس آیت کی وعید میں داخل ہے۔
قرآن کریم (سورة النساء آیت ۱۰۲)میں نماز خوف کی کیفیت اور اس کے اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں۔ متعدد احادیث میں نمازِ خوف کی کیفیت بیان کی گئی ہے، جن سے واضح ہوتا ہے کہ میدانِ جنگ میں اور عین جنگ کے وقت صرف نماز کی کیفیت میں تخفیف کی گنجائش ہے؛ لیکن وقت کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ بلکہ امکانی حد تک وقت کی پابندی ضروری ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر کفار سے جنگ ہورہی ہو اور اس وقت ذرا سی کاہلی بھی شکست کا سبب بن سکتی ہے تو اس موقع پر بھی دونمازوں کو جمع کرکے یعنی ایک کا وقت ختم ہونے کے بعد یا دوسرے کا وقت داخل ہونے سے قبل پڑھنا جائز نہیں ہے؛ بلکہ نماز کو وقت پر ادا کیا جائے گا ، ورنہ وقت کے نکلنے کے بعد اس کی قضا کرنی ہوگی، جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہٴ احزاب کے موقع پر وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر نماز کی قضا کی تھی۔
نماز کو وقت پر پڑھنے سے متعلق چند احادیث نبویہ:
نماز کے اوقات سے متعلق متعدد احادیث کتب حدیث میں موجود ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کو اس کے وقت میں پڑھنا۔ انھوں نے عرض کیا اس کے بعد کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماں باپ کی خدمت کرنا۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
اسی طرح حضرت جبرئیل علیہ السلام کی امامت والی حدیث متعدد صحابہٴ کرام رضی اللہ عنھم سے مروی ہے جس میں مذکور ہے کہ ۲ روز حضرت جبرئیل علیہ السلام نے امامت فرماکر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی۔ پہلے دن ہر نماز اول وقت میں پڑھائی اور دوسرے دن آخر وقت میں پڑھائی، پھر فرمایا کہ ہر نماز کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے۔ (ابوداود، ترمذی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ نماز کو وقت پر ادا فرماتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہٴ احزاب میں ایک روز شدتِ جنگ کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر فوت ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غروبِ آفتاب کے بعد اس کی قضا پڑھی اور کفار کے خلاف سخت الفاظ میں بددعا فرمائی کہ ان لوگوں نے ہمیں نماز عصر سے مشغول رکھا، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔ (صحیح بخاری باب غزوہ الخندق، صحیح مسلم)
غور فرمائیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے سفر میں جب کہ آپ کو لہولہان کردیا گیا تھا، فرشتہ نے آپ کے سامنے حاضر ہوکر ان کو کچلنے کی پیش کش بھی کی مگر رحمة للعالمین نے ان کے لیے ہدایت کی ہی دعا فرمائی؛ مگر غزوہٴ احزاب میں کفار کی مزاحمت کی وجہ سے نماز کے قضا ہوجانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ ان کے خلاف سخت سے سخت الفاظ میں بددعا فرمائی۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے بغیر کسی عذر کے دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھا اس نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا۔ (ترمذی باب ما جاء فی الجمع بین الصلاتین)
اس حدیث کے ایک راوی کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے؛ تاہم قرآن وحدیث کے دیگر نصوص سے اس حدیث کے مضمون کی تائید ہوتی ہے۔ نیز امام حاکم رحمہ اللہ نے ان کو قوی تسلیم کیا ہے۔
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ نماز میں کوتاہی یہ ہے کہ ایک نماز کو دوسرے نماز کے وقت تک موٴخر کردیا جائے۔ (صحیح مسلم باب قضاء الصلاة الفائتہ)
جمع بین الصلاتین:
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرناچاہیے۔ یہی شریعت اسلامیہ میں مطلوب ہے، پوری زندگی اسی پر عمل کرنا چاہیے اور اسی کی دعوت دوسروں کو دینی چاہیے؛ لیکن اگر کوئی شخص سفر یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے دو نمازوں کو اکٹھا کرنا چاہے تو اس سلسلہ میں فقہاء وعلماء کرام کا اختلاف ہے۔ فقہاء وعلماء کرام کی ایک جماعت نے سفر یا موسلادھار بارش کی وجہ سے ظہر وعصر میں جمع تقدیم وجمع تاخیر اسی طرح مغرب وعشاء میں جمع تقدیم وجمع تاخیر کی اجازت دی ہے؛ لیکن فقہاء وعلماء کرام کی دوسری جماعت نے احادیث نبویہ کی روشنی میں حقیقی جمع کی اجازت نہیں دی ہے۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور تابعی وفقیہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ہندوپاک کے علماء کا بھی یہی موقف ہے۔ فقہاء وعلماء کی یہ جماعت، اُن احادیث کو جن میں جمع بین الصلاتین کا ذکر آیا ہے، ظاہری جمع پر محمول کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز آخری وقت میں اور عصر کی نماز اوّلِ وقت میں ادا کی جائے، مثلاً ظہر کا وقت ایک بجے سے چار بجے تک ہے اور عصر کا وقت چار بجے سے غروب آفتاب تک تو ظہر کو چار بجے سے کچھ قبل اور عصر کو چار بجے پڑھا جائے۔ اس صورت میں ہر نماز اپنے اپنے وقت کے اندر ادا ہوگی؛ لیکن صورت وعمل کے لحاظ سے دونوں نمازیں اکٹھی ادا ہوں گی، اسی طرح مغرب کی نماز آخری وقت میں اور عشاء کی نماز اوّلِ وقت میں پڑھی جائے، اس کو جمع ظاہری یا جمع صوری یا جمع عملی کہا جاتا ہے۔ اس طرح تمام احادیث پر عمل بھی ہوجائے گا اور قرآن وحدیث کا اصل مطلوب ومقصود (یعنی نمازکی وقت پر ادائیگی) بھی ادا ہوجائے گا۔
موٴخر الذکر قول چند اسباب کی وجہ سے زیادہ راجح ہے
(۱) نماز کے اوقات کی تحدید قطعی فرض ہے جو قرآن کریم کی بعض آیات ومتعدد متواتر احادیث سے ثابت ہے اور پوری امت کا اس پر اجماع ہے۔ جمع بین الصلاتین دو نمازوں کو اکٹھی پڑھنے سے متعلق احادیث اخبار آحاد ہیں۔ قرآنی آیات اور متواتر احادیث کا اگر بظاہر تعارض خبر آحاد سے ہو تو خبر آحاد میں تاویل کرنی چاہیے، لہٰذا ان اخبار آحاد کو جمعِ ظاہری (یعنی نماز ظہر کو آخر وقت میں اور نماز عصر کو اوّل وقت میں ادا کیا جائے) پر محمول کیا جانا چاہیے؛ تاکہ کسی طرح کا تعارض بھی نہ رہے اور تمام احادیث پر عمل بھی ہوجائے۔
(۲) بعض احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں حقیقی جمع بین الصلاتین صرف دو بار حج کے موقع پر کیا ہے:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے وقت نماز پڑھتے نہیں دیکھا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ وقت پر نماز پڑھتے تھے)؛ مگر (حجة الوداع میں) مغرب وعشاء کو مزدلفہ میں اکٹھے پڑھا (یعنی عشاء کے وقت میں مغرب وعشاء اکٹھی پڑھیں)۔ (صحیح بخاری، کتاب الحج، من یصلی الفجر بجمع۔۔۔۔ صحیح مسلم)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ نماز وقت پر پڑھتے تھے؛ لیکن (حجة الوداع میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں ظہر وعصر کو ظہر کے وقت میں جمع کرکے پڑھا اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کو عشاء کے وقت میں جمع کرکے پڑھا۔ (نسائی)
حجاج کرام کے لیے عرفات (مسجد نمرہ) میں ظہروعصر کی حقیقی جمع اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی حقیقی جمع متواتر احادیث سے ثابت ہے اور پوری امت کا اس پر اجماع ہے؛ لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات اور مزدلفہ کے علاوہ کبھی بھی حقیقی جمع کی صورت میں دو نمازوں کو اکٹھا کرکے نہیں پڑھا، جیساکہ احادیث بالا میں مذکور ہے۔
(۳) بعض احادیث کے الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھنے سے متعلق احادیث کا تعلق جمع ظاہری سے ہے، مثلاً:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ظہر کو موٴخر اور عصر کو مقدم کرتے تھے، مغرب کو موٴخر اور عشاء کو مقدم کرتے تھے۔ (مسند امام احمد، طحاوی، مستدرک حاکم)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (ایک سفر میں )غروبِ شفق سے قبل سواری سے اترے، مغرب کی نماز پڑھی پھر انتظار کیا، غروب شفق کے بعد عشاء کی نماز ادا کی پھر فرمایا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب (سفر میں) جلدی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح عمل فرماتے جیسے میں نے کیا ہے۔ (ابوداود، باب الجمع بین الصلاتین ۔ دار قطنی)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہٴ تبوک کے سفر میں نکلے تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر وعصر کو اس طرح جمع کرتے، ظہر کو آخری وقت میں اور عصر کو اول وقت میں پڑھتے۔ (طبرانی اوسط)
حضرت ابو عثمان نہدی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کوفہ سے مکہ مکرمہ سفر حج پر جارہے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ظہر وعصر کو اس طرح جمع کرتے کہ ظہر کو موٴخر کرتے اور عصر کو مقدم کرتے پھر دونوں کو اکٹھا ادا کرتے، مغرب کو موٴخر کرتے اور عشاء کو مقدم کرتے، پھر دونوں کو اکٹھا ادا کرتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ باب من قال یجمع المسافر بین الصلاتین)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر وعصر کو ملا کر پڑھا؛ حالانکہ یہ کسی خطرہ یا سفر کی حالت نہ تھی۔ حضرت ابو الزبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے بھی یہ بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھی تھی تو انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تھا کہ لوگ تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔ (صحیح مسلم، الجمع بین الصلاتین فی الحضر)
اس حدیث میں جمع بین الصلاتین سے مراد ظاہری جمع ہے یعنی ظہر کو اس کے آخر وقت میں اور عصر کو اس کے اول وقت میں پڑھا۔ محدثین کرام حتی کہ علامہ شوکانی نے بھی اس حدیث سے جمع صوری ہی مراد لیا ہے۔
ان تمام احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوا ہے کہ ظاہری جمع جائز ہے؛ لیکن حقیقی جمع صرف دو جگہوں پر ہے۔
(۴) حدیث کے پورے ذخیرہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے صرف اُنھیں دو نمازوں کے جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے جن کے اوقات آپس میں ملتے ہیں اور درمیان میں مکروہ وقت بھی نہیں ہے، جن کی وجہ سے ظاہری جمع پر عمل ہوسکتا ہے اور وہ صرف ظہر وعصر یا مغرب وعشاء کی نمازیں ہیں۔ باقی جن نمازوں کے اوقات باہم متصل نہیں ہیں، جیسے فجر وظہر یا اوقات تو متصل ہیں؛ لیکن درمیان میں مکروہ وقت ہے، جیسے عصر ومغرب یا عشاء وفجر کہ نصف شب کے بعد عشاء کا مکروہ وقت شروع ہوجاتا ہے۔ اگر حقیقی جمع جائز ہوتی تو پھر ظہر و عصر یا مغرب وعشاء کے ساتھ ہی خاص نہ ہوتی؛ بلکہ عشاء وفجر یا فجر وظہر میں حقیقی جمع جائز ہوتی، اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، معلوم ہوا کہ جن احادیث میں سفر وغیرہ کی وجہ سے دو نمازوں کے اکٹھے پڑھنے کا ذکر ہے اس سے مراد ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرنا ہے۔
(۵) بعض احادیث میں آتا ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دفعہ سفر یا خوف یا بارش کے عذر کے بغیر بھی دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھا۔ اگر دو نمازوں کی حقیقی جمع جائز ہوتی تو ان احادیث کی وجہ سے بغیر کسی عذر کے بھی دو نمازوں کو حقیقی جمع کرکے پڑھنا جائز ہوتا؛ حالانکہ اہل السنة والجماعة میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے ۔ معلوم ہوا کہ اس طرح کی احادیث سے مرادایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرنا ہے۔ غزوہٴ تبوک کے طویل سفر میں یہی صورتِ عمل تھی کہ سفر بہت طویل تھا، موسم سخت گرم تھا، طہارت ووضو کے لیے پانی کی قلت تھی، اسلامی فوج کی تعداد تقریباً تیس ہزار تھی اتنے بڑے لشکر کا ان مذکورہ حالات میں باربار اترنا اور سوارہونا انتہائی مشکل تھا؛ اس لیے ظاہری جمع پر عمل کیا گیا یعنی ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کیا گیا۔
غرضے کہ نماز کو وقت پر ہی ادا کرنا چاہیے سوائے ۹ ذی الحجہ کو مسجد نمرہ (عرفات) میں ظہر وعصر کی ادائیگی ظہر کے وقت میں اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی ادائیگی عشاء کے وقت میں؛ لیکن اگر کوئی عذر شرعی ہے، مثلاً سفر میں ہیں اور بار بار رکنا دشواری کا سبب ہے تو دو نمازیں ظاہری جمع کرکے ادا کرلی جائیں یعنی ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرلیا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو وقت پر نماز کا اہتمام کرنے والا بنائے اور نماز میں کوتاہی کی تمام شکلوں سے حفاظت فرمائے، آمین۔
———————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ12، جلد: 99 ، صفر1437 ہجری مطابق دسمبر 2015ء
مسئلہ جمع بین الصلوٰتین
*دونمازوں کو جمع کرکے پڑھنے والے احادیث کی واضح تشریح علمی وتحقیقی بنیاد پر*
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
اما بعد :
چونکہ اس مضمون میں چار اصطلاحات (یعنی جمع صوری و جمع حقیقی اور جمع تاخیر وجمع تقدیم ) کا ذکر کثرت سے ہے
لھذا میں نے مناسب جانا کہ پہلے ان اصطلاحات کی ذرا وضاحت کی جائے۔ لھذا انکی وضاحت نمبروار درج ذیل ہے:
(۱) ۔۔۔۔ جمع صوری کی تعریف :
جمع صوری وہ جمع ہوتی ہے کہ جسمیں ایک نماز اپنے اخری وقت میں پڑھی جائے اور دوسری نماز اپنے اول وقت میں پڑھی جاے۔
مثلا جمع بین الظہر والعصر، کہ ظہر کو اپنے اخری وقت میں پڑھا جائے ،پھر جب چند منٹ بعد عصر کا وقت ہوجائے تو پھر عصر کی نماز پڑھی جائے۔
اسی طرح مغرب اور عشاء کا مسئلہ ہے۔جمع صوری اسکو اسلئے کہا جاتا ہے کہ صورت میں تو یہ جمع نظر آتی ہے ، لیکن حقیقت میں ہر نماز اپنے وقت میں ادا ہوئی ہے۔
(۲) ۔۔۔۔ جمع حقیقی کی تعریف:
وہ جمع ہوتی ہے کہ جس میں ایک نماز کے وقت میں اس وقت کے نماز کے ساتھ دوسرے وقت کی نماز بھی پڑھی جائے۔
مثلا جمع بین الظہر والعصر، کہ عصر کے وقت میں ظہر اور عصر کے دونوں نمازوں کو ملا کر پڑھا جائے۔
یا عشاء کے وقت میں مغرب اور عشاء کی نماز کو ملا کر پڑھا جائے۔اسکو جمع حقیقی اسلئے کہا جاتا ہے کہ یہاں حقیقت میں دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرکے پڑھا جاتا ہے۔ لھذا اسکو جمع حقیقی کہتے ہیں۔
(۳)۔۔۔۔۔جمع تاخیر کی تعریف:
یہ وہ جمع ہے کہ جسمیں پہلے وقت کے نماز کو دوسرے وقت کے نماز میں مؤخر کرکے پڑھی جائے، مثلا ظہر کی نماز کو مؤخر کرکے عصر کے وقت میں پڑھی جاے ، چونکہ اول نماز ظہر کو مؤخر کیا گیا ہے ، لھذا اسکو جمع تاخیر کہتے ہیں۔
(۴) جمع تقدیم کی تعریف:
یہ وہ جمع ہے کہ اسمیں آخری نماز کو پہلے نماز کے وقت میں مقدم کرکے پڑھا جاتا ہے۔ مثلا عصر کی نماز کو مقدم کرکے ظہر کی نماز میں پڑھنا ۔ چونکہ اسمیں آخری نماز کو مقدم کرکے اول نماز کے وقت میں ادا کیا جاتا ہے ، لھذا اسکو جمع تقدیم کہا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں نفس مضمون کی طرف ، تو واضح رہے کہ جمع بین الصلوٰ تین بلا عذر تمام ائمہ اربعہ کے نزد ناجائز ہے۔ پھر عذر کے وقت جمع حقیقی ہوگا یا جمع صوری تو اسکے بارے میں علماء کے دو رائے ہیں ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزد جمع بین الصلواتین سے مراد جمع صوری ہے،
ماسوائے عرفات اور مزدلفہ کے ، کہ ادھر بالاتفاق تمام امت مسلمہ کے نزد جمع بین الصلواتین سے مراد جمع حقیقی ہے ۔ اور اسکے علاوہ احناف کے نزد کہیں بھی جمع بین الصلواتین حقیقی جائز نہیں ہے۔
جبکہ دوسرئے ائمہ کرام کہتے ہیں کہ نہیں بلکہ جمع بین الصلواتین حقیقی ثابت ہے اور پھر دلائل کے طور پر حضرت انس اور ابن عباس کی وہ احادیث لاتے ہیں جس میں یہ بات مذکور ہے کہ حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر ظہر و عصر ، اور مغرب و عشاء کے درمیان جمع فرمایا ۔
اور اس مفہوم کے روایات تقریبا تمام صحاح ستہ میں مذکور ہیں۔
نیز ابوداود کی معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت سے جمع تقدیم کا ثبوت بھی ملتا ہے۔
لیکن ان تمام احادیث سے جن میں لفظا جمع حقیقی کا ثبوت ملتا ہے ، تو ان احادیث کی طرف سے احناف جواب کرتے ہیں ۔
چنانچہ احناف کہتے ہیں کہ نماز کا اپنے وقت میں پرھنا قرآن سے ثابت ہے اور قرآن دلیل قطعی ہے ۔
جبکہ تمام احادیث جن سے جمع بین الصلواتین کا ثبوت ملتا ہے وہ خبر احاد ہیں ۔ لھذا خبر واحد حدیث سے قرآن کا قطعی حکم نہیں بدلا جاسکتا۔
چنانچہ قران مجید میں ہے کہ:
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا ۔ (سورہ النساء الایۃ ۱۰۳)
ترجمہ: بےشک نماز تو مومنوں پر مقررہ وقت پر فرض ہے۔
(ترجمہ از تفسیر ابن کثیر)
اس ایت کے ذیل میں تفسیر بیضاوی نے لکھا ہے کہ:
(( ای فرضا محدود الاوقات لایجوز اخراجھا عن اوقاتہا فی شیئ من الاحوال)) ۔
ترجمہ: یعنی فرض ہے اور محدود ہے اپنے اوقات میں اور کسی حال میں بھی اپنے وقت سے اس نماز کا نکالنا جائز نہیں ہے۔
اور جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ (( کتابا مکتوبا ای مفروضا (ترجمہ: یعنی فرض کیا گیا)
موقوتا ای مقدرا وقتھا فلا تؤخرعنہ۔ (ترجمہ: یعنی اسکا وقت مقرر ہے ، تو اس سے مؤخر نہ کیا جاے)
اسی طرح قران مجید میں ہے کہ: فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ۔ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ۔
(سورہ ماعون)
ترجمہ: ان نمازیوں کیلئے ویل نامی جھنم کی جگہ ہے۔جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔ (ترجمہ از تفسیرابن کثیر)
نیز فرمایا کہ :
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ (بقرۃ ایت ۲۳۸)
ترجمہ: نمازوں کی حفاظت کرو۔(ابن کثیر)
اس ایت کے ذیل میں تفسیر بیضاوی لکھتا ہے کہ { حافظوا عَلَى الصلوات } بالأداء لوقتها والمداومة عليها۔
(ترجمہ: یعنی اپنے وقت پر ادائیگی اور اسپر مداومت کے ساتھ اس نماز کی حفاظت کرو۔)
ان تمام آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نمازوں کے اوقات مقرر ہیں اور انکی محافظت واجب ہے۔
اور ان اوقات کی خلاف ورزی باعث عذاب ہے۔ اور ظاھر ہے کہ یہ آیات قطعی الثبوت و الدلالۃ ہے ۔
اور احادیث جو کہ اخبار احاد ہیں وہ اسکا مقابلہ بالکل نہیں کرسکتے۔
کہاں کتاب اللہ کا حکم قطعی اور کہاں حدیث خبر واحد ۔
تو اب مسئلہ یہ بن گیا کہ احادیث سے بظاھر تو جمع بین الصلواتین کا ثبوت ملتا ہے ،اور قران کہتا ہے کہ ہر نماز اپنے وقت میں پڑھنا فرض ہے۔
تو یہ تو قران اور حدیث کا بظاہر مقابلہ واقع ہو گیا ہے۔
اب اگر ہم قران پر عمل کرتے ہیں تو ظاہر ہے وہ حدیث کے مقابلے میں قوی ہے ، لیکن اسطرح تو کتاب اللہ پر عمل ہوجاے گا
لیکن پھر سنت نبوی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم رہ جاے گا ۔
تو میرے پیارے اسکا جواب یہ ہے کہ اگر تم ان تمام احادیث جو کہ اخبار احاد ہیں کی مناسب تشریح اور توضیح کرو تو کبھی بھی قران اور حدیث کا تعارض نہیں آے گا۔
لیکن اگر تم نے ظاہری حدیث پر فقط عمل کرنا شروع کیا اور حدیث کی مناسب تحقیق نہ کی اور نہ اسمیں فکر و تدبر کیا
اور حکمت و بصیرت سے کام نہیں لیا ، تو پھرتمہاری بے فکری کی وجہ سے تم قران اور حدیث کا تعارض کراوگے۔
حالانکہ قرآن و حدیث میں تعارض نہیں ہے۔
احناف کے نزد خود دیگر احادیث سے ثا بت ہے کہ جمع بین الصلواتین سے جمع حقیقی مراد نہیں ہے بلکہ جمع صوری مراد ہے۔
جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) صحیح بخاری میں ہے کہ : حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلَاةَ الْمَغْرِبِ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَاءِ قَالَ سَالِمٌ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَفْعَلُهُ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ وَيُقِيمُ الْمَغْرِبَ فَيُصَلِّيهَا ثَلَاثًا ثُمَّ يُسَلِّمُ ثُمَّ قَلَّمَا يَلْبَثُ حَتَّى يُقِيمَ الْعِشَاءَ۔
( باب ھل یؤذن او یقیم اذا جمع بین المغرب والعشاء)
ترجمہ: { عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ میں نے نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو دیکھا ہے ، جب حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو سفر میں جانے کی جلدی ہوتی تو نماز مغرب کو مؤخر کرتے ، یہاں تک کہ مغرب اور عشاء کو جمع کرتے۔
سالم کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی اسی طرح کرتے، جب اسکو سفر کی جلدی ہوتی، اور نماز مغرب کا وقت قائم ہوجاتا تو تین رکعت نماز مغرب پڑھتے ، پھر سلام پھیر کر تھوڑی دیر انتطار کرتے حتی کہ عشاء کا وقت قائم ہوجاتا }
اس حدیث میں صراحت ہو رہی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز مغرب سے فارغ ہو کر کچھ دیر انتظار کرتے تھے اور اسکے بعد عشاء پڑھتے تھے۔ اس انتظار کا کوئی محمل نہیں ہوسکتا سوائے اسکے کہ وہ وقت عشا کے دخول کا یقین کرنا چاہتے تھے۔
اورخود حافط ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اس میں جمع صوری پر دلیل ملتی ہے۔(فتح الباری ،ج ۲،صفحہ ۴۶۵)
(۲) اس سے زیادہ صریح روایت ابوداود میں نافع عن عبداللہ بن واقد کے طریق سے مروی ہے ۔
” حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ نَافِعٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ أَنَّ مُؤَذِّنَ ابْنِ عُمَرَ قَالَ الصَّلَاةُ قَالَ سِرْ سِرْ حَتَّى إِذَا كَانَ قَبْلَ غُيُوبِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ انْتَظَرَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ وَصَلَّى الْعِشَاءَ ثُمَّ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ أَمْرٌ صَنَعَ مِثْلَ الَّذِي صَنَعْتُ ”
(باب الجمع بین الصلوٰتین)
ترجمہ: { ابن عمر کے مؤذن نے کہا کہ نماز ، تو ابن عمر نے کہا کہ جاؤ جاؤ(یعنی سفر جاری رکھو) حتی کہ غروب شفق سے تھوڑی دیر پہلے سواری سے اترے پھر نماز مغرب پڑھی ،پھر انتظار کیا حتی کہ شفق غروب ہوا اور عشاء کی نماز پڑھی پھر فرمایا کہ بےشک جب حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو کسی کام میں جلدی ہوتی تو اسطرح کرتے جسطرح میں نے کیا ہے۔ }
امام ابوداود نے نہ صرف اس روایت پر سکوت کیا ہے بلکہ اسکا ایک متابع بھی ساتھ میں ذکر کیا ہے ، جس کے الفاظ یہ ہیں کہ
قَالَ أَبُو دَاوُد وَرَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ عَنْ نَافِعٍ قَالَ حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ ذَهَابِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا۔
ترجمہ: { امام ابوداؤد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتا ہے اور اس بات کو عبد اللہ بن العلاء نے نافع سے روایت کی ہے کہ ( ابن عمر اس وقت تک چلتے رہے ) یہاں تک کہ وہ غروب شفق کے قریب ہوگئے، پھر سواری سے اترے اور نمازمغرب اور نمازعشاء کو جمع کیا۔}
نیز امام دار قطنی نے بھی اپنی سنن میں یہ روایت متعدد طرق سے نقل کی ہے اور اسپر سکوت کیا ہے۔
(۳) صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ :
عَنْ عَمْرٍو عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيًا جَمِيعًا وَسَبْعًا جَمِيعًا قُلْتُ يَا أَبَا الشَّعْثَاءِأَظُنُّهُ أَخَّرَ الظُّهْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجَّلَ الْعِشَاءَ قَالَ وَأَنَا أَظُنُّ ذَاكَ ۔
(صحیح مسلم )
ترجمہ : { روایت ہےعمرو سے ، وہ روایت کرتا ہے جابر بن زید سے ، وہ روایت کرتا ہے ابن عباس سے کہ ابن عباس نے کہا کہ میں نے نماز پڑھی ہے حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کے ساتھ آٹھ رکعت (چار ظہر کے اور چار عصر ) ایک ساتھ اور سات (تین مغرب اور چار عشاء ) ایک ساتھ۔
(یہ راوی عمرو کہتا ہے) کہ میں نے ابا الشعثاء یعنی جابر بن زید سے کہا کہ میرا گمان یہ ہے کہ حضور نے نماز ظہر کو مؤخر کیا اور نماز عصر کو مقدم کیا ، اور نماز مغرب کو مؤخر کیا اور نماز عشاء کو مقدم کیا، تو اباالشعثا ء نے کہا کہ میرا بھی یہ گمان ہے }
اس روایت میں حدیث کے دو راویوں کا گمان احناف کے عین مطابق ہے، کہ یہاں جمع بین الصلوٰتین سے مراد جمع صوری ہے۔
یہ تمام روایات جمع صوری پر بالکل صراحت کے ساتھ دلالت کرتے ہیں۔
(۴) مؤطاء امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی روایت ہے کہ : قال محمد بلغنا عن عمر بن الخطاب انہ کتب فی الآفاق ینہاھم ان یجمعوا بین الصلٰوتین و یخبرھم ان الجمع بین الصلوٰ تین فی وقت واحد کبیرۃ من الکبائر۔
قال محمد اخبرنا بذالک الثقات عن العلاء بن الحارث عن مکحول
(مؤطاء امام محمد ، باب الجمع بین الصلوٰتین فی السفر والمطر)
ترجمہ :{ امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ ہم کو عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے دور دراز علاقوں میں پیغام لکھوا کر بھیجا تھا ، اس پیغام میں لوگوں کو جمع بین الصلوٰتین سے منع کر رہے تھے ، اور انکو خبردار کر رہے تھے کہ دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتا ہے کہ ہم کو ثقہ لوگوں نے مذکورہ بات کی خبر دی ہے۔}
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ ثانی نے جمع بین الصلوٰتین حقیقی کو منع کیا تھا۔
(۵) آئمہ ثلاثہ یا جمع بین الصلوٰتین جمع حقیقی کے قائلین بھی بعض جگہوں میں جمع بین الصلوٰتین کو احناف کی طرح جمع صوری پر ہی محمول کرنے پر مجبور ہیں۔مطلب یہ کہ جہاں مجبور ہیں وہاں تو احناف کا مسلک استعمال کرتے ہیں لیکن جہاں انکی مجبوری ختم تو پھر احناف کے مخالف بن جاتے ہیں۔
مثلا ترمذی کی یہ روایت کہ :
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ۔
(ترمذی ،باب الجمع بین الصلوٰ تین فی الحضر)
ترجمہ: { ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کے نمازوں درمیان بلا کسی خوف اور بارش کے جمع فرمایا ہے }
اس روایت کے بارئے تمام مذاہب کے علماء اور آئمہ کرام کہتے ہیں کہ اس سے احناف کی طرح جمع صوری و فعلی مراد ہے ، اور یہاں اس روایت میں جمع سے مراد جمع حقیقی نہیں ہے۔
اسی لئے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فتح الباری (باب تاخیر الظھر الی العصر) میں اعتراف کیا ہے کہ اس روایت میں جمع صوری ہی مراد لینا بہتر ہے۔
اور حقیقت یہی ہے کہ اس حدیث کی توجیہ کا اسکے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
اور جب اس روایت میں جمع صوری مراد لی جائے گی تو لازما دوسری احادیث میں بھی جمع صوری مراد ہوگی۔
کیونکہ اگر جمع سوری مراد لی جاے تو تمام روایات اور احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے
اور ان روایات کا آیات قرانیہ سے بھی کوئی ٹکراو نہیں آتا لیکن اگر ان احادیث میں جمع صوری مراد نہ لیا جائے
بلکہ جمع حقیقی مراد لیا جاے ، تو نہ تو ان تمام احادیث میں تطبیق ہوتی ہے اور ان احادیث کا اوپر ذکر شدہ آیات قرآنیہ سے بھی ٹکراؤ لازما آتا ہے۔
(۶) احادیث میں جہاں بھی جمع بین الصلوٰتین کا ذکر ہے تو ظہر اور عصر ، یا مغرب اور عشاء کے جمع کا ذکر ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ اس جمع سے مراد جمع حقیقی ہے تو کیوں عصر اور مغرب یا فجر اور ظہر کو جمع نہیں کیا گیا ۔
ظاہر ہے کہ اگر عصر کے وقت میں ظہر اور عصر کی نمازوں کو جمع کیا جاسکتا ہے تو ہونا تو یہ چاہیے تھا
کہ پھر عصر اور مغرب کو بھی جمع کیا جاتا کیونکہ جمع حقیقی کی ایک صورت یہ بھی ہے۔
یا اگر مغرب کی نماز کو عشاء کے وقت میں جمع کیا ہے ، تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فجر اور عشاء کو بھی جمع کیا جا تا ؟
جو لوگ جمع بین الصلوٰتین کو جمع حقیقی کہتے ہیں انکے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔
لیکن الحمدللہ کہ احناف نے اس اعتراض کا جواب اسطرح کیا ہے کہ ہم احناف جمع کو جمع صوری مراد لیتے ہیں
اور نماز عصر اور مغرب ، یا نماز عشاء اور فجر کے درمیان وقت مکروہ ہے ۔ لھذا یہاں جمع صوری ممکن نہیں ، اسلئے احادیث میں کہیں بھی عصرو مغرب یا عشاء وفجر کو جمع نہیں کیا گیا۔
اور اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے جہاں بھی جمع بین الصلوٰتین کیا ہے تو وہ جمع صوری تھی اور جمع حقیقی نہیں تھی۔
اب قائلین جمع حقیقی کی طرف سے احناف پر اعتراجات کئے جاتے ہیں
(۱) ایک اعتراض یہ ہے کہ صحیح مسلم کی بعض روایات ایسی ہیں کہ جہاں جمع صوری مراد لینا ممکن نہیں ہے۔ ۔
مثلا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ:
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ وَعَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ قَالَا أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَجِلَ عَلَيْهِ السَّفَرُ يُؤَخِّرُ الظُّهْرَ إِلَى أَوَّلِ وَقْتِ الْعَصْرِ فَيَجْمَعُ بَيْنَهُمَا وَيُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَاءِ حِينَ يَغِيبُ الشَّفَقُ۔
(صحیح مسلم با ب جواز الجمع بین الصلوٰتین فی السفر)
ترجمہ: { جب حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم پر سفر کی جلدی ہوتی تو ظہر کو اول وقت عصر تک مؤخر کرتے پھر ان دونوں نمازوں کو جمع کرتے اور نماز مغرب کو مؤخر کرتے ، یہاں تک کہ نماز مغرب اور نماز عشاء کو جمع کرتے جب شفق غائب ہورہا تھا }
جواب:
اس روایت میں ذکر ہے کہ ( يُؤَخِّرُ الظُّهْرَ إِلَى أَوَّلِ وَقْتِ الْعَصْر) لیکن اس سے جواب یہ ہے
کہ یہاں غایت مغیا میں داخل نہیں ہے ۔
کیونکہ وقت ظہر الگ ہے اور وقت عصر الگ ، لھذا یہاں مراد یہ ہوگا کہ نماز ظہر کو اپنے اخر وقت تک مؤخر کیا گیا ہے ۔ اور نماز عصر کو اپنے اول وقت میں ادا کیا گیا ہے۔
پھر ذکر ہے کہ (حِينَ يَغِيبُ الشَّفَقُ ) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب ایسے وقت میں پڑھی کہ جبکہ شفق غائب ہونے کے قریب تھا۔
اور ہماری اس بات کی تائید ابوداود کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنی اہلیہ صفیہ کی بیماری کے سبب تیز رفتاری سے جا رہے تھے تو انہوں نے مغرب کی نماز مؤخر کرکے پڑھی،
اس تاخیر کے بیان میں ابوداؤد کی مذکورہ روایت کے الفاظ ہیں
”فسارحتی غاب الشفق فنزل فجمع بینھما” (ابوداؤد ،باب الجمع بین الصلوٰتین)
ترجمہ:{ پس جا رہے تھے ،یہاں تک کہ شفق غائب ہوا ، پھر سواری سے اترے اور جمع بین الصلوٰتین کی}
ایک روایت میں ہے کہ
حتی کان بعد غروب الشفق ۔ (جامع الاصول ،ج ۵ رقم الحدیث ۴۰۳۷)
ترجمہ: { یہاں تک کہ تھے غروب شفق کے بعد}
ایک روایت میں ہے کہ
حتی اذا کان بعد ما غاب الشفق۔(دارقطنی، باب الجمع بین الصلوٰتین فی السفر)
ترجمہ: { یہاں تک کہ جب تھے شفق کے غائب ہونے کے بعد }
ایک روایت میں ہے کہ
حتی اذا کاد یغیب الشفق (دارقطنی، باب الجمع بین الصلوٰتین فی السفر)
ترجمہ:{ یہاں تک کہ جب قریب تھا کہ شفق غائب ہوجائے}
اور ایک روایت میں ہے کہ
حتی اذا کاد ان یغیب الشفق (دارقطنی، باب الجمع بین الصلوٰتین فی السفر)
ترجمہ:{ یہاں تک کہ جب قریب تھی یہ بات کہ شفق غائب ہوجائے
اور مسلم کے الفاظ ہیں کہ (حِينَ يَغِيبُ الشَّفَقُ) ۔
ترجمہ: { جب شفق غائب ہورہا تھا }
اب ان تمام روایات میں تطبیق کا صرف ایک ہی راستہ ہے ، اوروہ یہ کہ
” حتی اذا کاد ان یغیب الشفق”
{ترجمہ: یہاں تک کہ جب قریب تھی یہ بات کہ شفق غائب ہوجائے}
کو اصل قرار دے کر دوسری روایات کو اسی پر محمول کیا جائے۔
اور کہا جاے کہ راویوں نے روایت بالمعنی کیا ہے۔چونکہ اوقات قریب قریب تھے لھذا کسی نے
”غاب الشفق {شفق غائب ہوا تھا} کہا
اور کسی نے ”کاد یغیب الشفق { یہاں تک کہ قریب تھا کہ شفق غائب ہوجائے} کہا ،
کسی نے” قبل غیبوبۃ الشفق{غروب شفق سے قبل} کے الفاظ سے واقعہ کو بیان کیا ہے۔
اور یہ تطبیق اور توجیح اسلئے صحیح ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی پیچھے صریح روایت گذر چکی ہے کہ انہوں نے جمع صوری پر عمل کیا ہے۔ اور ابن عمر کی ا س روایت کے بارے میں کئی تائید ات موجود ہیں۔
مثلا صحیح بخاری کی روایت کہ ” قلما یلبث حتی یقیم العشاء
{ تھوڑے ٹہرے یہاں تک کہ عشاء کا وقت قائم ہوا}
(باب ہل یؤذن او یقیم اذا جمع بین الصلوٰتین)
اور ابوداؤد کے الفاظ کہ :
حَتَّى إِذَا كَانَ قَبْلَ غُيُوبِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ انْتَظَرَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ وَصَلَّى الْعِشَاءَ۔ (باب الجمع بین الصلوٰتین)
ترجمہ:{ حتی کہ جب غروب شفق سے تھوڑی دیر پہلے سواری سے اترے پھر نماز مغرب پڑھی ، پھر انتظار کیا حتی کہ شفق غروب ہوا اور عشاء کی نماز پڑھی }
اور اسی طرح دار قطنی کے الفاظ حَتَّى إِذَا كَادَ يَغِيبُ الشَّفَقُ کے بعد کے الفاظ اسطرح ہیں کہ
نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ انْتَظَرَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ صَلَّى الْعِشَاءَ ثُمَّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا نَابَتْهُ حَاجَةٌ صَنَعَ هَكَذَا.
(دارقطنی، باب الجمع بین الصلوٰتین فی السفر)
ترجمہ: { یہاں تک کہ جب قریب تھا کہ شفق غائب ہوجائے (کے بعد حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ) پھر سواری سے اترے اور نماز مغرب پڑھی ، پھر انتظار کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہوا ، پھر نماز عشاء پڑھی ، پھر ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ جب حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو کوئی کام درپیش ہوتا تو اسطرح کرتے }
او کما قال علیہ الصلوٰۃ والسلام
یہ تمام روایات بھی ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی جمع صوری پر عمل کرنے کی تائید کرتے ہیں۔
لھذا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں بھی یہی معنی مراد لیا جاسکتا ہے کہ حین یغیب الشفق سے مراد شفق غروب ہونے کے قریب تھی۔
اس وجہ سے کہ ان الفاط کے حقیقی معنی کسی صورت مراد نہیں لئے جاسکتے ۔ اسلئے کہ غیبوبت شفق ایک لمحے کی چیز ہے اور اس لمحے میں دونوں نمازیں پڑھنا ممکن نہیں ہے۔
(۲) دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جمع صوری کو جمع نہیں کہا جاسکتا ، اسلئے کہ دونوں نمازیں اپنے وقت پر پڑھی جاتی ہیں۔اور جمع تو اس وقت ہوتا ہے جب ایک وقت میں دونوں نمازیں جمع کی جائیں۔
جواب:
جمع صوری کو جمع کہنا حدیث سے ثابت ہے ۔ آپ صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے حمنہ بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ :
أَنْ تُؤَخِّرِي الظُّهْرَ وَتُعَجِّلِي الْعَصْرَ ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ حِينَ تَطْهُرِينَ وَتُصَلِّينَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا ثُمَّ تُؤَخِّرِينَ الْمَغْرِبَ وَتُعَجِّلِينَ الْعِشَاءَ ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ۔
(ترمذی ، بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ أَنَّهَا تَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ)
مفہوم حدیث : { تم ظہر کو مؤخر کرو اور عصر کو مقدم کرکے دونوں نمازوں کو جمع کرکے پڑھو، پھر مغرب کو مؤخر کرکے اور عشاء کو مقدم کرکے دونوں نمازوں کو جمع کرکے پڑھو }
اس روایت میں خود حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے جمع صوری کو جمع بین الصلوٰتین کہا ہے۔
لھذا یہ اعتراض صحیح نہیں ہے۔
(۳) تیسرا اعتراض یہ ہے کہ جمع بین الصلوٰتین کا منشاء تو آسانی پیدا کرنا ہے اور آسانی تو جمع حقیقی میں ہے ۔ جمع صوری میں تو کوئی آسانی نہیں ہے۔
جواب:
جمع صوری میں بہت آسانی ہے ۔ اسلئے کہ مسافر کو اصل تکلیف بار بار سواری سے اترنے اور چڑھنے میں ہے،
نیز تکلیف بار بار وضؤ کرنے میں ہے ۔ تو جمع صوری میں ان تمام تکالیف کی رعایت کی گئی ہے۔ لھذا اعتراض ختم ۔
(۴) چوتھا اعتراض یہ ہے کہ احادیث میں جمع تقدیم کا بھی ذکر ہے۔اور یہ احادیث ابوداؤد شریف میں بھی ہیں ۔ اور جمع صوری میں جمع تقدیم کرنا
نا ممکن ہے ۔
جواب:
جمع تقدیم کی تمام روایات غریب،ضعیف اور معلول ہیں۔ کوئی صحیح حدیث اس باب میں ثابت نہیں ہے۔
خود امام ابوداؤد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مشہور قول ہے کہ :
”لیس فی تقدیم الوقت حدیث قائم ،،۔(مرقات،ملا علی قاری)
ترجمہ: {نمازجمع تقدیم کے بارے میں کوئی حدیث قائم نہیں ہے}
اس تمام بحث سے یہ بات بخوبی ثابت ہوتی ہے کہ جہاں جہاں احادیث میں جمع بین الصلوٰتین کا ذکر ہے
تو اس سے مراد جمع صوری ہے۔
اور جن روایات میں ” بعد غروب الشفق یا دخول وقت عصر” کا ذکر ہے
تو وہاں راویان حدیث نے روایت بالمعنی کی ہوتی ہے۔ اور یہ بات دلائل سے ثابت کی گئی ہے۔
اور اصل مقصد جمع بین الصلوٰتین کا ظہر کا اخری وقت اور عصر کا ابتدائی وقت اور مغرب میں غروب الشفق کا اخری وقت اور عشاء کا ابتدائی وقت مراد ہوتا ہے۔جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث سے ثابت کیا گیا ہے۔
اسکے علاوہ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ جمع صوری میں احتیاط زیادہ ہے بنسبت جمع حقیقی کے ، اس لئے کہ جمع صوری میں تو نماز اپنے وقت میں ہی پڑھی جاتی ہے صرف اول و آخر وقت میں اسکو لایا جاتا ہے۔
جبکہ جمع حقیقی میں تو نماز سرےسے اپنے وقت سے نکال کر دوسرے نماز کے وقت میں پڑھی جاتی ہیں۔
لھذا اوفق بالقرآن یہ ہے کہ آدمی جمع حقیقی کے بجائے جمع صوری کرے ،
نیز ان فقہی مباحث میں غلطی کا بھی امکان ہوتا ہے ، اور اس امکان کی صورت میں ممکن ہے کہ جمع حقیقی کا کرنے والا گناہ کبیرہ اور مخالفت قرآن کا مرتکب ہوجاے۔
لھذا جس طرح ہم دنیا کے نقصانات سے بچنے کیلئے احتیاط کرتے ہیں تو کیوں نہ دین میں بھی اس سے زیادہ احتیاط کیا جاے،
ظاہر ہے کہ دنیا فانی ہے اور اخرت باقی ہے۔
واللہ اعلم
وما توفیقی الاباللہ علیہ توکلت والیہ انیب
Click here to claim your Sponsored Listing.
Location
Category
Contact the school
Telephone
Website
Address
46000
National Institute Of Psychology, Quaid-i-Azam University (New Campus), Shahdra Road (off Main Murree Road)
Islamabad
Dr. Muhammad Ajmal, National Institute of Psychology (NIP) is an autonomous organization
Islamabad, 04483
"Where Learning Knows No Limits - LearningZone360. A place where interest thrives and knowledge open
Khalid Plaza, Masjid Al-Rehman Road, Farash Capital Territory
Islamabad, 45600
بمقام خالد پلازہ نزد خولہ شہید ماڈل کالج فار گرلز پنجگر
Islamabad
Islamabad
We provide past papers and chemistry materials enabling you to reach your maximum potential.
Qadiriah Al Jeelaniah Institute Main Kahota Road Near Check Post, Hussainia Sharif Islamabad
Islamabad, 45800
QADIRIA AL JEELANIAH INSTITUTE ( Jamia Qadiriah ) , Islamabad is a private Islamic institute. Established with a view to producing scholars and professionals with Islamic moral and ethical values.
H-12
Islamabad
Institute of Environmental Science and Engineering (IESE), NUST.
Islamabad, 04403
The page has been created as an educational, platform by scholars across Pakistan.
Islamabad
It's a knowledge factory with a variety of topics related to English and Urdu linguistic art ranging from Vocabulary, Syntax, Grammar. Usage and English Pronunciation along with Urdu Talaffuz.
5th Floor, School Of Dentistry Building, PIMS،, 3 Ravi Road, G-8
Islamabad, 44000
Director ORIC, SZAB Medical University, Top-2% Scientists of World, Gold Medalist Pak Acad Sci & NUST
Royal Centre 2nd Floor Office No 402 Fazal-e-Haq Road, Block I G 7/2 Blue Area
Islamabad, 44010
Research | Training | Innovation